سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں پہلی قسط

کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتے ہی ایک وسعت، خوبصورتی اور سادگی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔


ہمارے پاس کوالالمپور میں آج ہی کا دن تھا اگلے روز ہمیں لنکاوی جانا تھا جو ملائیشیا کے خوبصورت جزائر میں سے ایک ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے تھائی لینڈ میں پھکٹ۔

PESHAWAR: (ملائیشیا اور سنگاپور کا سفرنامہ)
مہاتیر کی بستی کی طرف

کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترے تو گرم تیز ہوا کے تھپیڑے نے ہمارا استقبال کیا لیکن ہوا کا یہ جھونکا اتنا ناخوشگوار محسوس نہ ہوا کیونکہ لاہور کے سرد موسم سے کراچی کے نیم گرم موسم نے لاہور کی سردی بلکہ کپکپی کے احساس کو معتدل کردیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ رات 8 بجے تک کراچی پہنچیں گے، پھر صبح تک گلشن اقبال میں موجود باجی کے گھر پر وقت گزاریں گے اور صبح 10 بجے کی فلائیٹ سے ملائیشیا روانہ ہوجائیں گے۔ لیکن لاہور سے ہی سفر کا آغاز کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ گھر سے نکلتے ہوئے ہم نے ایئرپورٹ فون کرکے معلوم کیا تو کہا گیا کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرپورٹ (پی آئی اے) کی فلائیٹ بروقت ہے اور 6 بجے روانہ ہوجائے گی، راستے میں ایک بار پھر دریافت کیا گیا تو جواب پہلے جیسا ہی تھا۔ ہم اس احساس سے سرشار ہوگئے کہ چلو شاید پی آئی اے کے حالات درست ہوگئے ہیں۔ اسی سرشاری میں بورڈنگ بھی ہوگئی اور ہم لاؤنج میں جا کر بیٹھ گئے۔ مسافر آتے رہے اور لاؤنج بھرتا گیا، ابھی 6 بجنے میں 5 منٹ باقی تھے اور اعلان کردیا گیا کہ تکنیکی وجوہات کی بناء پر فلائیٹ تاخیر کا شکار ہوگئی ہے، روانگی اب رات 9 بجے متوقع ہے۔

ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیونکہ گھر کا فاصلہ ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا اور ڈرائیور کو بھی بورڈنگ کے بعد واپس بھیج دیا تھا، اس لئے واپس بھی نہیں جاسکتے تھے لہذا مجبوراََ وہیں وقت گزارنا پڑا۔ پہلے نو سے ساڑھے نو اور پھر دس بجے جہاز میں مسافروں کو بٹھا دیا گیا اور پھر تھوڑی دیر میں جہاز کا تمام عملہ ایک ایک کرکے جہاز سے نیچے اتر گیا۔ ہمیں لوگوں کی زبانی سنی ہوئی باتوں پر یقین آنے لگا کہ تین تین گھنٹے جہاز میں مسافروں کو بٹھا کر آف لوڈ کردیا جاتا ہے۔ اس سوچ میں غلطاں تھے کہ جہاز میں عملے کی دوبارہ آمد شروع ہوئی تو ہماری جان میں جان آئی، لیکن ایک بار پھر انتظار شروع ہوا اور پتہ یہ چلا کہ ابھی تک پائلٹ کا انتظام نہیں ہوا ہے، کراچی سے جو پائلٹ آئے ہیں وہ آرام فرما رہے ہیں اور وہ ہی جہاز لے کر جائیں گے۔

خدا خدا کرکے 11 بجے جہاز کی روانگی ہوئی اور کراچی میں گلشن پہنچتے پہنچتے رات کا ڈیڑھ بج گیا۔ صبح ہی صبح نیم غنودگی میں ایئرپورٹ روانہ ہوئے، ہماری شامت یا آبیل مجھے مار جذبہ حب الوطنی میں آگے بھی یعنی ملائیشیا تک ہم نے پی آئی اے کی ہی فلائیٹ میں سیٹیں بک کرائی تھیں، سو اسی میں جانا پڑا۔

کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترتے ہی ایک وسعت، خوبصورتی اور سادگی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔ ملائیشیا میں داخلے کی مہر ثبت ہوتے ہی ہم اخراج کی جانب بڑھے۔ ایک جگہ ٹیکسی کا کاؤنٹر دیکھ کر ہم رک گئے۔ بیٹے نے ہوٹل کا پتہ بتا کر ٹیکسی حاصل کی، ٹیکسی نے 120 رنگٹ مانگے جو بیٹےعدیل نے بلا حیل و حجت مان لئے۔ یوں ہم ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے۔ کوالالمپور کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ شہر سے خاصی مسافت پر واقع ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم تقریباََ 50 منٹ ٹیکسی کا سفر طے کرکے شہر میں داخل ہوئے۔ یہاں ہر قومیت کے ٹیکسی ڈرائیور پائے جاتے ہیں، ہماری ٹیکسی کا ڈرائیور جاپانی نژاد اور کافی باتونی تھا، جاپانی لہجے میں انگریزی بولتا عجیب سا لگ رہا تھا لیکن اپنا مافی الضمیر بخوبی ادا کر رہا تھا۔



ٹیکسی کے باہر دونوں طرف ہریالی اور خوبصورت مناظر آنکھوں کو بھلے لگ رہے تھے۔ اگر پنجاب میں لاہور سے اگر ملتان کی جانب سفر کریں تو بھی ہر جانب ہریالی نظر آتی ہے لیکن ہائی وے کی دونوں جانب عمارتوں اور ہریالی کا امتزاج وہاں کی خصوصیت ہے۔ تھوڑی دیر تو ہم یہ منظر دیکھتے رہے لیکن پھر ہمارا ذہن حساب کتاب میں کھو گیا۔ ائیرپورٹ پر ہم نے 100 امریکی ڈالر تبدیل کرا کر ملائیشیا کی کرنسی حاصل کی جو 322 رنگٹ کی شکل میں ملی یعنی ایک ڈالر کے عوض 3.22 رنگٹ، جس سے ملائیشیا کی مضبوط معیشت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یعنی تقریباََ 33 روپے کا ایک رنگٹ۔ یہ صورتحال ہمیں مہاتیر کے دور اقتدار میں لے گئی۔



1997ء میں ملائیشیا بدترین اقتصادی بحران کا شکار ہوا، اسٹاک مارکیٹ 75 فیصد تک گرگئی، رنگٹ بے قدری کا شکار ہوگیا، ایسے وقت میں انٹرنیشنل مانٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) نے ملائیشیا کی معیشت کو بھی پاکستان کی طرح سہارا دینے کی کوشش کی، لیکن مہاتیر محمد نے آئی ایم ایف کی مدد لینے اور اس کے نسخے پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ مہاتیر محمد نے اپنا ترقیاتی کام جاری رکھا اور اپنے رنگٹ کی قیمت میں اضافہ کیا اور اُن کا کمال یہ ہے کہ ملائیشیا آئی ایم ایف کی کسی شرط کو مانے بغیر اقتصادی بحران سے نکل آیا۔



مہاتیر محمد کی زندگی محنت سے عبارت ہے۔ وہ 1925 میں ایک غریب اسکول ہیڈ ماسٹر کے گھر پیدا ہوئے۔ پرائمری اسکول میں اس بچے نے انگریزی سیکھنے میں اپنے تمام ہی ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ دیا، دوسری جنگ عظیم میں اُن کے آبائی علاقے ملایا پر جاپانیوں نے قبضہ کرلیا۔ اسکول بند ہوگیا تو اس بچے نے کیلے بیچنا شروع کردئیے، اس پر ہر وقت کام کی دھن سوار تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے سنگاپور میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا، ڈاکٹر بننے کے بعد وہ اپنے قصبے الورستار چلا گیا۔ تھوڑے عرصے میں وہ کافی خوشحال ہوگیا تھا۔ اب اس نے ایک بڑا گھر خرید لیا، گاڑی چلانے کے لئے ایک چینی نژاد ڈرائیور رکھ لیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ سیاست میں بھی متحرک ہوگیا تھا، ملائیشیا کا وزیراعظم تنکو عبدالرحمٰن بھی اسی کی ریاست سے تعلق رکھتا تھا۔

اس متحرک اور گرم خون کے نت نئے خیالات کی بناء پر وزیراعظم اس نوجوان کو پسند نہیں کرتے تھے۔ مہاتیر محمد کے مطابق وزیراعظم تنکو عبدالرحمٰن کو آزاد ملائیشیا میں برطانوی فوج نہیں رکھنی چاہئیے تھی۔ اسی قسم کے خیالات اور وزیراعظم کی ناپسندیدگی کی بناء پر مہاتیر محمد ٹکٹ حاصل نہ کرسکے۔ یہ وقفہ نہایت قلیل تھا کیونکہ اگلے انتخابات یعنی 1964ء میں کامیابی سمیٹنے کے بعد مہاتر محمد پارلیمنٹ پہنچ گئے تھے۔ اُس وقت ملائیشیا کی پارلیمنٹ میں سب سے اہم ترین مسئلہ سنگاپور کے مستقبل کے حوالے سے چل رہا تھا۔ سنگاپور میں انتہائی کاروباری چینی نژاد لوگ رہتے تھے۔ مہاتیر محمد اس موضوع پر اپنی قوم یعنی ملایا کے حق میں بھرپور آواز اٹھاتا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کی قوم تعلیم اور کاروباری طور پر چینی نژاد لوگوں سے بہت پیچھے ہے اور قطعاََ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس نے لوگوں سے کہا کہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتی ہیں، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے برصغیر میں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے۔ مہاتیر محمد کی آواز کو تقویت مل رہی تھی کہ اگر دونوں کو ساتھ رکھا گیا تو فساد بپا ہوسکتا ہے، بس یہی وہ وجوہات تھیں جس کی بنیاد پر 9 اگست 1965ء کو سنگاپور کو ملائیشیا سے علیحدہ کردیا گیا۔

ملائیشیا کا وزیراعظم 1969ء کا الیکشن ہار گیا بلکہ اسے پارٹی سے بھی نکال دیا گیا۔ اِسی برس مئی میں چینی نژاد لوگوں اور ملایا قوم کے درمیان خونریز تصادم ہوا جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، اور یہی وہ معاملہ تھا جس کے بارے میں مہاتیر محمد مسلسل حکومت اور لوگوں کو خبردار کررہے تھے۔ پھر اگلے ہی برس یعنی 1970ء میں مہاتر محمد نے اپنی پہلی کتاب The Malay Dilemma لکھی جس میں ملایا قوم کے المیے پر روشنی ڈالی۔ اسی کتاب میں انہوں نے اپنے لوگوں کو بتایا کہ قوم کو سخت محنت کی ضرورت ہے۔ کتاب میں وزیراعظم پر بھی کڑی تنقید کی گئی جس کی وجہ سے اُس پر فوری پابندی لگا دی گئی۔ یہ پابندی 1981ء میں اُس وقت ہٹی جب مہاتیر محمد ملائیشیاء کے چوتھے وزیراعظم منتخب ہوئے۔

اب سیاست کا وسیع میدان مہاتیر محمد کے سامنے تھا، سب سے پہلے اسے وزیرِ تعلیم بنایا گیا، اس نے تعلیمی اداروں کو سیاست سے پاک کیا۔ اپنی تعلیمی اصلاحات کی کامیابی کی وجہ سے وہ عوام میں مقبولیت حاصل کرگئے۔ اگرچہ وہ وزیراعظم کی دوڑ میں تیسرے نمبر پر تھے لیکن مقدر نے یاوری کی اور مہاتیر محمد ملائیشیا کے وزیراعظم بن گئے۔ مہاتیر محمد نے ملایا قوم کے لئے تعلیم اور کاروبار کے دروازے کھول دیے کیونکہ شاید مہاتیر جانتا تھا کہ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ اقتصادی ترقی نہ کرلے۔ چنانچہ سرکاری اداروں کی نج کاری کا عمل برق رفتاری سے طے کیا گیا۔ سال میں 50 کے لگ بھگ سرکاری ادارے نجی شعبے میں جانے لگے، اس میں ہوائی کمپنیاں، ٹیلی کمیونیکیشن کے ادارے اور سروسز سیکٹر پیش پیش تھے۔



مہاتیر محمد نے1990ء میں اپنا اقتصادی نظام وژن 2020ء پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ وہ 2020ء تک ملائیشیا کو ایک ترقی یافتہ ملک بنادے گا، لیکن کمال دیکھیے کہ اس نے اپنا یہ وعدہ بہت پہلے ہی پورا کردیا۔ 90ء اور اس کے بعد کی دہائیوں میں ملائیشیا کی شرح نمو 7 اور 9 فیصد کے درمیان رہی۔ غریبوں کو اتنی سہولتیں دی گئیں کہ غربت ختم ہوگئی۔ ابھی ہم ملائیشیا اور مہاتیر محمد کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے کہ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی اور ہم خیالات سے باہر آگئے۔ گاڑی ہمارے ہوٹل وی وا ٹیل میں آ کر رک گئی۔ ہم نے اپنی پوتی عنایا کو سنبھالا اور بیٹا کمرے کی چابیاں لینے میں مصروف ہوگیا۔

وی وا ٹیل ہوٹل کی بارہویں منزل کے کمرے میں بیرونی جانب پوری دیوار جتنی کھڑکی کا پردہ ہٹایا تو بیرونی منظر پر نظریں جم کر رہ گئیں۔ بیرونی جانب سڑک کے اس پار 8، 9 منزلہ فلیٹ نما عمارتوں کا ایک سلسلہ تھا۔ بالکل ویسا ہی جیسا کراچی میں پایا جاتا ہے، لیکن یہ فلیٹ نہایت صاف ستھرے نظر آرہے تھے۔ ہاں ایک بات ضرور کراچی جیسی تھی اور وہ تھی بیک ٹیرس میں دھلے ہوئے کپڑے لٹکانے کی عادت۔ ہم نے فلیٹوں سے دور نظر دوڑائی تو ٹرام آتی نظر آئی۔ ملائیشیا میں بسوں، ٹرام، میٹرو (ہماری میٹرو بس جیسی نہیں، یہ بھی ٹرین ہی ہے جیسا کہ پہلے اسی کا منصوبہ بنا تھا) کےعلاوہ ٹیکسی شہر میں آمدورفت کا ذریعہ ہیں۔ بسوں میں داخلے کے وقت کارڈ اسکینرز سے کارڈ ٹچ کرنا پڑتا ہے جس کے بعد ہی بس میں سفر ممکن ہے۔ دائیں جانب سڑک کی تعمیر چل رہی تھی تین طرفہ سڑک مکمل تھی۔ ایک طرف کی سڑک باقی تھی جس کے بعد یہ چورنگی (کراچی والوں کی) اور پنجاب میں رہنے والوں کا چوراہا مکمل ہوتا نظر آرہا تھا۔



اس سارے کام کے باوجود وہاں تعمیراتی ملبہ نظر نہیں آرہا تھا، ہمارے ہاں تو کوئی سڑک تعمیر ہونی ہو تو علاقے کے مکینوں کی زندگی عذاب میں آجاتی ہے۔ دور نظر آنے والے پہاڑی سلسلہ کو دیکھ کر ہم اس جگہ کھڑے سوچ رہے تھے کہ پہاڑی سلسلہ بھی ہے، بادل بھی چھائے رہتے ہیں لیکن درجہ حرارت 30 ڈگری کے قریب ہی کیوں رہتا ہے؟ اُس سے کم کیوں نہیں ہوتا؟ ہم اسی سوچ میں کھڑے سینری کی مانند سامنے منظر کا لطف لے رہے تھے کہ بیٹا عدیل کمرے میں آیا اور کہنے لگا آپ تیار ہیں؟ باہر چلنا ہے ناں؟ اس وقت پونے 9 بج رہے ہیں رات کے اور ہم صبح سے سفر میں ہیں، اس وقت گھومنے کا موڈ نہیں ہے، بہت تھک گئے ہیں اور بھوک بھی بہت لگی ہے تم یوں کرو باہر سے کھانا ڈھونڈ لاؤ، میں نے جواب دیا۔

بیٹے پر بھی تھکن کا غلبہ تھا، وہ دونوں میاں بیوی ہماری پوتی عنایا کو ہمارے پاس چھوڑ کر کھانا لینے چلے گئے۔ پاکستان کے برعکس ملائیشیا میں ہر دکان رات 10 بجے بند ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ کھانے کے مراکز بھی اسی پابندی کا شکار ہیں۔ خیر وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر کسی انڈین کی دکان سے کھانا لے آئے۔ رہائش کے لئے بکنگ کراتے ہوئے ہم نےاس بات کا خیال رکھا تھا کہ ہوٹل وہ ہو جس کے کرائے میں صبح کا ناشتہ شامل ہو، باقی تو سیر کے دوران جہاں کھانے کا وقت ہوا وہیں کسی مال کے فوڈ کورٹ میں کھانا کھالیا۔ اگلی صبح ناشتہ کرکے ہم ہوٹل کی لابی میں آگئے۔ ہمارے پاس کوالالمپور میں آج ہی کا دن تھا اگلے روز ہمیں لنکاوی جانا تھا جو ملائیشیا کے خوبصورت جزائر میں سے ایک ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے تھائی لینڈ میں پھکٹ۔ خیر ہوٹل ہی میں ٹیکسی منگوانے کے لئے کاؤنٹر بنا ہوا تھا۔ وہاں سے ٹیکسی کال کی اور ہم نکلے کوالالمپور کی سیر کو۔
پیٹرونس ٹوئن ٹاورز

کوالالمپور میں دیکھنے کے لائق بہت سی چیزیں ہیں لیکن سب سے نمایاں جڑواں پیٹرونس ٹاورز ہیں جو کوالالمپور کی شناخت ہیں۔ یہ ٹاورز ایک بہت عظیم الشان شاپنگ مال، اسٹار ریٹڈ ہوٹلز اور لینڈ اسکیپڈ پارک پر مشتمل ہے۔ اس کی 41 ویں منزل پر واقع اسکائی برج سے کوالالمپور کا نظارہ قابلِ دید ہے۔ کوالالمپور میں دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن ہم نے پیٹرونس ٹوئن ٹاورز سے اپنی سیر کا آغاز کیا۔ 33 ہزار اسٹین لیس اسٹیل کے پینلوں اور 55 ہزار شیشے کے پینلوں پر مشتمل یہ جڑواں ٹاور اونچی عمارتوں کی کونسل اور اربن ہیریٹیج (CTBUH) سرکاری تعریف کے مطابق پیٹرونس ٹوئن ٹاورز 1998ء سے 2004ء تک دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز رکھتے تھے۔ جڑواں ٹاورز کی حیثیت سے یہ اعزاز اب بھی انہی کے پاس ہے، لیکن اگر ان ٹاورز کو علیحدہ علیحدہ شمار کیا جائے تو دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں یہ آٹھویں نمبر پر آچکے ہیں۔ اس ٹاور کے نزدیک لی گئی تصویر کو دیکھ کر ہمارے ایک صحافی دوست علی رضا نے تبصرہ کیا کہ اس تصویر کو لیٹ کر دیکھنا پڑ رہا ہے۔



ٹاور میں داخل ہوئے تو وہاں ایک الگ ہی دنیا آباد تھی۔ ایک وسیع وعریض شاپنگ مال جس کی منزلیں بے شمار۔ دنیا کی ہر قسم کی اشیاء یہاں دستیاب تھیں۔ ہم نے ونڈو شاپنگ شروع کی۔ ہماری بیگم اپنی بہو اور پوتی کے ساتھ ایک دکان سے دوسری دکان کا جائزہ لینے میں مصروف ہوچکی تھیں۔ یہ طویل سلسلہ کا آغاز تھا، اس لئے ہم نے سوچا کہ ساتھ ساتھ اس عمارت کے بارے میں کچھ اور معلومات یہاں درج کردی جائیں۔ یہ دونوں جڑواں ٹاور 1996 میں مکمل ہوئے، لیکن ان کا سرکاری افتتاح ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے یکم اگست 1999ء کو کیا۔ 88 منزلہ یہ عمارت تعمیر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ ملائیشیا کے مسلم مذہب کی عکاسی اور اسلامی ثقافت کی جھلک اس کے ڈیزائین میں نظر آئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں