گلوکار وارث بیگ کے پہلے نعتیہ کلام کا آڈیو ویڈیو البم آج ریلیز ہورہا ہے
البم آج پاکستان‘ بھارت سمیت یورپ میں ملٹی نیشنل آڈیو کمپنیاں...
گائیکی کے میدان میںبھی پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ہر دورمیں اسے فوک 'پاپ ' راک اورپلے بیک سنگنگ میں باصلاحیت گلوکار ملے 'جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح خصوصاً بھارت میںبھی اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں۔
پاکستان فلم انڈسٹری جس کے حالات دگرگوں ہیں 'مگر اسے پلے بیک سنگنگ میں ایسی لازوال آوازیں نصیب ہوئیں کہ جنہوں نے ایک دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار رکھا۔97ء میں مصنف وہدایتکار سیدنور کی فلم ''سنگم '' ریلیز ہوئی تو اس میں شان پر فلمایا جانے والا ایک گانا ''آ پیار دل میں بسا'' اتنا مقبول ہوا کہ ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگے ۔لوگ پوچھنے لگے کہ آخر یہ اتنی خوبصورت آواز کس کی ہے تو معلوم ہوا کہ میوزک ڈائریکٹر امجد بوبی نے یہ گانا ایک نئے گلوکار کی آواز میں ریکارڈ کیا ہے۔
بس پھر کیا تھا یہ گلوکار فلموں کی ضرورت بن گیا ' ہر دوسری فلم میں اس کا گانا نہ صرف شامل بلکہ ہٹ ہونے لگا۔ اس نوجوان گلوکار نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کو اکتفا کرنے کی بجائے مزید محنت جاری رکھی۔یہ ہمارے ملک کے نامور گلوکار وارث بیگ ہیں ' جنہوں نے پلے بیک سنگر کی حیثیت سے پاکستان فلم انڈسٹری میں اپنی منفرد انداز گائیکی سے الگ شناخت بنائی۔ان کے گائے گیت آج بھی خاص وعام میں مقبولیت کا درجہ رکھتے ہیں ۔
''کل شب دیکھا میں نے چاند جھروکے میں'' اور ''آ پیار دل میں بسا'' جیسے لاتعداد سپرہٹ گانے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔اسی لئے آج بھی پاکستان سمیت کسی بھی ملک میں جاتے ہیں تو چاہنے والے انہی گانوں کو سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔وارث بیگ نے انہی چاہنے والوں کے لئے ماہ رمضان المبارک کے حوالے سے آٹھ حمدونعت پر مشتمل آڈیو ویڈیو البم تیار کیا ہے جو آج پاکستان 'بھارت سمیت یورپ میں ملٹی نیشنل آڈیو کمپنیاں ریلیز کر رہی ہیں۔
وارث بیگ اپنے حمد ونعت کے اس آڈیو ویڈیو البم کی ریلیز کے حوالے سے انتہائی خوش دکھائی دے رہے ہیں۔اس حوالے سے انھوں نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ میری شدید خواہش تھی کہ حمد ونعت کلام کا اعلیٰ معیار کا آڈیو ویڈیو البم بنائوںجس کے لئے میں پچھلے کافی عرصہ سے پیپرورک کر رہاتھا ۔ جس میں ریکارڈنگ سے لے کر ویڈیو شوٹ تک سب کچھ شامل تھا۔اس کے لئے میں حمد ونعت کے ویڈیو بھارت جیسے ملک میں شوٹ کرنے کافیصلہ کیا۔
جس کے لئے میں نے لال قلعہ' صفدر جنگ ' قطب مینار اور بابری مسجد جیسے مقامات کا انتخاب کیا۔ میری خوش قسمتی سمجھ لیجئے کہ میں نے جو سوچا اس کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگیا۔پہلا پاکستانی گلوکار ہوں جسے بھارت کے تاریخی مقامات پر ویڈیو شوٹ کرنے کا منفرد اعزاز نصیب ہوا ہے۔قطب مینار وہ تاریخی مقام ہے جہاں پر بھارتی فلم ''فنا''کے بعد میرا ویڈیو شوٹ ہوا ہے۔ مذکورہ آڈیو ویڈیو البم میں ''آپ کے نام ''، ''میں سوجائوں یامصطفی کہتے کہتے'' ، ''یا رب'' ، ''یہ سب تمہارا کرم ہے آقا'' اور ''یامحمد' یا محمد'' سمیت آٹھ حمد ونعتیہ کلام شامل ہیں۔ جن کے تمام ویڈیو بھارت میں معروف بھارتی ویڈیو ڈائریکٹرز نے ہی شوٹ کئے ہیں۔
یہ آڈیو ویڈیو آج پوری دنیا میں ریلیز ہونے کے ساتھ مختلف چینلز بھی دیکھے جا سکیں گے۔ گائیکی کرتے ہوئے مجھے ایک عرصہ ہوچلا ہے 'مگر جو سکون اور راحت مجھے نعتیہ کلام ریکارڈ کروا کر ملی ہے' وہ پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رب کا خاص کرم ہے کہ اس نے مجھے نعتیہ کلام ریکارڈ کرانے کی یہ سعادت نصیب کی ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کلام کی ریکارڈنگ میں میوزک انسٹرومنٹس کی بجائے صرف دف کا استعمال کیاگیاہے۔
وارث بیگ نے کہا کہ ویڈیو بنانے کے لئے بلاشبہ وسائل چاہیے ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ پروفیشنل ٹیم کا انتخاب بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے۔اگر آپ اس مرحلے میں صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے تو آپ کا سرمایہ ا ور وقت کے ساتھ ساری محنت ضایع ہوجاتی ہے۔نعتیہ کلام کے ویڈیوز بنانے کے لئے ذاتی طور پر خود ویڈیو ڈائریکٹر کے ساتھ پیپرورک اور لوکیشنز کو فائنل کیا ہے۔آخر میں وارث بیگ نے کہا کہ بطور گلوکار خود کو آج بھی موسیقی کا ایک طالب علم ہی سمجھتا ہوں 'کیونکہ موسیقی ایک سمندر کی مانند ہے'جس میں جتنا کوئی بھی سیکھتا چلا جائے کم ہے۔
گائیکی کے لئے سر اورلے کا تال میل سمجھنا انتہائی ضروری ہے اس سے آپ کے لئے گانے کی سمت کو متعین کرنے میں بھرپور مدد ملتی ہے۔پلے بیک سنگنگ کا اپنا ایک الگ معیار ہے اورمجھے خوشی ہے کہ بطور پلے بیک سنگر اس دور میں کامیابی حاصل کی جب پاکستان فلم انڈسٹری میں پلے بیک سنگنگ کے بڑے بڑ ے نام چھائے ہوئے تھے۔پاپ ' راک ' فوک سمیت ہر موڈ کا گانا گا کر پرستاروں سے داد وصول کی ہے اور اب نعتیہ کلام کا یہ آڈیو ویڈیو البم بھی انشاء اللہ انھیں ضرور پسند آئیگا ۔ وارث بیگ نے کہا کہ میرا اصل ایوارڈ تو میرے چاہنے والے ہیں کیونکہ اگر یہ پذیرائی نہ کرتے تو شاید آج میں گمنامی کی زندگی گزار رہا ہوتا۔