دو بڑے آدمی
احمد ندیم قاسمی نے کئی ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن زیادہ شہرت انھیں بطور شاعر اور افسانہ نگار کے ملی۔
20 نومبر کا دن طلسماتی کہانیوں کے کسی کردار جیسا لگتا ہے کہ جس کی ایک آنکھ ہنستی اور دوسری روتی ہے کہ آج سے ٹھیک 96 برس پہلے احمد ندیم قاسمی پیدا ہوئے اور 28 برس قبل اسی دن فیض احمد فیض اس دنیا سے پردہ کر گئے ہر دو حضرات ایک دوسرے کے دوست اور ہم عصر اور ہماری نسل کے سینئر اور قابل احترام بزرگ تھے۔
ذاتی طور پر مجھے ندیم صاحب سے قربت کا زیادہ موقع ملا کہ ہماری ادبی آٹھان کے دنوں میں فیض صاحب زیادہ عرصہ لاہور اور پاکستان سے باہر رہے لیکن ان سے جب جب جہاں جہاں اور جتنی بھی ملاقات رہی اس کا نقش زندہ بھی ہے اور مستحکم بھی۔ سو پہلے چند باتیں قاسمی صاحب کے بارے میں۔ پیر احمد شاہ جو آگے چل کر احمد ندیم قاسمی کے ادبی نام سے معروف ہوئے ضلع خوشاب کے ایک دور افتادہ گائوں ''انگہ'' میں پیدا ہوئے، پندرہ برس کی عمر میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر پہلی باقاعدہ نظم لکھی افسانہ نگاری کا آغاز چند برس بعد صادق ایجرٹن کالج بہاولپور کے تعلیمی دور میں ہوا آب کاری کے محکمے سے ملازمت شروع کی۔
مگر باہمی عدم مناسبت کی وجہ سے دو ہی برس میں اسے خیر باد کہہ دیا۔ لاہور میں بے روز گاری کے دن گزارنے کے بعد امتیاز علی تاج مرحوم کے دارالاشاعت پنجاب سے منسلک ہوئے اور مختلف رسائل کی ادارت کی قیام پاکستان کے وقت ریڈیو اسٹیشن پشاور سے منسلک تھے ترقی پسند تحریک اور تنظیم سے تعلق کے باعث غالباً 1952 میں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے رہائی ملنے پر اس زمانے کے مشہور اخبار ''امروز'' کے مدیر مقرر ہوئے مگر 1958 میں ایوب خاں کے مارشل لاء کے بعد نہ صرف ایک بار پھر بے روز گار ہو گئے۔
بلکہ کچھ عرصہ جیل بھی کاٹی معاشی مسائل کی الجھنوں کے باوجود 1963 میں حکیم حبیب اشعر مرحوم کے ساتھ مل کر ادبی جریدے ''فنون'' کا آغاز کیا جس کے وہ اپنی وفات 18 جولائی 2006 تک مدیر رہے یہ زمانہ تقریباً 43 برس بنتا ہے اس رسالے کے ذریعے انھوں نے دو نسلوں کے تخلیقی ذہنوں کی آبیاری اور رہنمائی کی۔ آج کے بیشتر اہم لکھنے والوں نے نہ صرف اس عہد ساز رسالے سے اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز کیا بلکہ تا عمر اس سے وابستہ بھی رہے۔
احمد ندیم قاسمی نے کئی ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن زیادہ شہرت انھیں بطور شاعر اور افسانہ نگار کے ملی ان کی کل شائع شدہ کتابوں کی تعداد 40 سے زیادہ ہے ان کے بہت سے افسانوں کو ڈراموں کی شکل میں بھی پیش کیا گیا جس میں ''قاسمی کہانی'' کے نام سے پیش کی جانے والی سیریز خاص طور پر قابل ذکر ہے جہاں تک شاعری کا تعلق ہے وہ نظم' غزل اور نعت تینوں اصناف میں اپنے دور کے نمایندہ شاعر رہے اور اردو شاعری کا کوئی تذکرہ ان کے نمایاں ذکر کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جا سکتا یہ اور ان جیسے بہت سے دیگر اشعار آج کی طرح آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک حوالے کے طور پر زندہ اور پایندہ رہیں گے۔
دشمن بھی جو چاہے تو مری چھائوں میں بیٹھے
میں ایک گھنا پیڑ سر راہ گزر ہوں
وہ اعتماد ہے مجھ کو سرشتِ انساں پر
کسی بھی شہر میں جائوں' غریب شہر نہیں
میں تو اس وقت سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو ہے' تو ٹپکا کیسے؟
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیمؔ
وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا
پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی!
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
اقبال کے بعد جو شہرت اور مقبولیت فیض احمد فیض کو حاصل ہوئی اس کی کوئی دوسری مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ان کا شعری سفر چار دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے اپنی پہلی کتاب ''نقش فریادی'' سے۔ جو بلند معیار انھوں نے قائم کیا اس کا گراف کبھی نیچے نہیں آیا ان کے لہجے کی ملائمت اور بیشتر موضوعات کی جذباتی اور فکری شدت نے مل کر ایک ایسی فضا قائم کر دی تھی کہ ان کا شعر بغیر کسی تعارف کے بھی صاف پہچانا جاتا تھا آگ اور پانی کے اس میل اور کھیل کو جس خوش اسلوبی اور گہرائی کے ساتھ انھوں نے پیش کیا وہ انھی کا حصہ ہے وہ بیک وقت شاعر انقلاب بھی تھے اور شاعر رومان بھی۔
ان کے پڑھنے کا مخصوص انداز اور نیم شکستہ لہجہ آج بھی ان لوگوں کی سماعتوں میں جادو جگاتا ہے جنھیں ان کا کلام ان کی زبان سے سننے کا موقع ملا ہے وہ جس خوبصورتی سے اساتذہ کے کلام اور زمینوں سے استفادہ کرتے تھے اس کا ڈھنگ سب سے انوکھا اور نرالا تھا مثال کے طور پر اس غزل کو ذہن میں لائیے جس کی بنیاد اس شعر پر قائم کی گئی ہے کہ
لائو تو قتل نامہ مرا' میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
ان کی پوری پوری نظمیں لوگوں کو ازبر ہیں ان کا انتخاب الفاظ اور تمثال کاری ایسی ہے کہ قاری نظم کے ساتھ ساتھ جیسے بہتا چلا جاتا ہے
شام کے یہ پیچ و خم، ستاروں سے
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
اور پھر یہ سحر کار لائنیں کہ
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
اسی طرح ان کی غزلوں کے بے شمار اشعار بھی اہل ذوق کے دلوں اور زبانوں میں محفوظ ہیں۔
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
کہاں گئے شب ہجراں کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
20 نومبر کے دن کے ساتھ اردو ادب کے ان دو عظیم تخلیقی فن کاروں کی متضاد کیفیت کی حامل یادیں وابستہ ہیں ان کے حوالے سے اقبال کا ایک شعر اس وقت بار بار ذہن پر دستک دے رہا ہے سو اسے آپ کی نذر اور اپنے ان دونوں عظیم بزرگوں کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے میں اپنی بات اسی پر ختم کرتا ہوں کہ
گل اس شاخ سے ٹوٹتے ہی رہے
اور اسی شاخ سے پھوٹتے بھی رہے