غریب مرتے رہے اور گندم منہ تکتی رہی

ہم تو انسان ہیں، اشرف المخلوقات ہیں، یہ حکمران اب اتنے ظالم بھی نہیں کہ خراب گندم ہم انسانوں کو کھلائیں۔


شبیر نے مجھے کہا کہ یار کاش میں بھی جانور ہوتا تو بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے ان سے اتنا دور تو نہ آنا پڑتا اور پھر جانور ہونے کا انعام بھی ہزاروں ٹن گندم کی صورت بھی مل جاتا۔

گندمی رنگ، سیاہ آنکھوں اور معصوم سے چہرے والا شبیر بلوچ میرے ساتھ والے کمرے میں رہتا ہے۔ 35 سالہ شبیر کا تعلق بلوچستان کے علاقہ جھل مگسی سے ہے۔ وہ پچھلے پانچ برسوں سے اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کررہا ہے اور ہر تین سے چار مہینے بعد اپنے گھر یعنی بلوچستان بچوں کو ملنے جاتا ہے۔ جمعرات کی صبح ہم دونوں میلوڈی میں ایک ہوٹل پر ناشتہ کررہے تھے کہ چائے پیتے ہوئے میری نظر اچانک ٹی وی پر پڑی جہاں خبر چل رہی تھی کہ بلوچستان میں جو آٹا عوام کو سستے داموں فراہم کرنا تھا وہ فلور ملز تک نہیں پہنچایا گیا جس کے سبب ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد گندم کی بوریاں خراب ہونے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر ثناء اللہ زہری نے انکوائری اور کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔

چونکہ ہمارا تعلق صحافت سے ہے تو فوری طور پر خبر کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لیے لوگوں سے رابطہ کیا جس پر معلوم ہوا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں گندم 2010ء سے 2013ء کے دوران خریدی گئی تھی جس کا مقصد غرباء میں سستے داموں تقسیم تھا لیکن سستی، کاہلی اور غیر ذمہ داری کے سبب یہ گندم گوداموں میں ہی پڑی رہ گئی جس کی وجہ سے اب ساری گندم خراب ہوگئی، اور اب وافر مقدار میں گندم خراب ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسے اب محکمہ امور حیوانات کے حوالے کردی جائیں، یعنی جو گندم انسانوں کے لئے خریدی گئی تھی اب وہ جانور کھائیں گے، بلکہ اِس سے بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ 40 ہزار بوریوں میں موجود گندم تو اِس قدر خراب ہوچکی ہے کہ وہ جانوروں کے کھانے کے قابل بھی نہیں رہی ہے۔

یہ خبر سن کر ہم حیران بھی ہوئے اور ان جانوروں کی قسمت پر رشک بھی آیا کہ بغیر کسی محنت کے اب گندم وہ کھائیں گے۔ اِس المیے کے بعد شک یقین میں بدل گیا کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کے مقابلے میں جانوروں کے شاید واقعی زیادہ ہیں۔ شبیر نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یار کاش میں بھی جانور ہوتا تو کم از کم بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے ان سے اتنا دور تو نہ آنا پڑتا اور پھر جانور ہونے کا انعام بھی ہزاروں ٹن گندم کی صورت بھی مل جاتا۔ اب دیکھو نا، میرا تعلق تو بلوچستان سے ہے اور گندم میرے، میرے بچوں اور ہزاروں غرباء کے لیے تھی، لیکن حکمرانوں کی نااہلی کے سبب گل سڑ گئی اور اب غریبوں کو نہیں دی جارہی، اور بھلا دیتے بھی کیوں کہ ہم تو انسان ہیں، اشرف المخلوقات ہیں، یہ حکمران اب اتنے ظالم بھی نہیں کہ خراب گندم ہم انسانوں کو کھلائیں۔



ہماری یہ باتیں ابھی جاری ہی تھی کہ ناشتہ ختم ہوگیا اور ہم واپس گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد میں تیاری کرکے اپنی ڈیوٹی کو چلا گیا۔ بطور رپورٹر میرا آج کا پہلا اسائمنٹ انسانی حقوق کی ایک کمیٹی کی کوریج تھا جس میں سندھ کے علاقے تھر میں انسانی اموات کے المیہ پر سندھ حکومت نے بریفنگ دینی تھی۔ بریفنگ کیا تھی حکام اپنی کوتاہی کا ملبہ بارش نہ ہونے اور جلدی شادیوں کے رجحان پر ڈال رہے تھے۔ سندھ حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ تھرپارکر میں خواتین دو سال میں تین تین بچے پیدا کرتی ہیں جس سے بچوں کی اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

چلیں ایک منٹ کیلئے سندھ حکومت کا موقف درست تسلیم کرلیتے ہیں اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تھر میں بڑھتی اموات کی اصل وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہی ہے، لیکن اِس صورت میں کیا اُن کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ اگر لوگ بچے زیادہ پیدا کررہے ہیں تو وہ اسی طرح لوگوں کو بھوکا، پیاسا چھوڑ دیں گے؟ لیکن بھلا کس سے شکات کی جائے اور کیوں کی جائے کہ یہاں کس کو فکر ہے عوام کی؟ ان کو پانی، روٹی، گندم، دوائی ملے نہ ملے، میرے حکمرانوں کا کیا جاتا ہے؟ چاہے خزانہ کی چوکیداری کسی چور میرا مطلب ہے ایسے سیکرٹری خزانہ کو دے دی جائے جس کے گھر سے کرپشن کے 63 کروڑ روپے برآمد ہوئے ہوں یا سستا آٹا فراہم کرنے کا دلاسہ دیکر وہی گندم جانوروں کو کھلا دیں، ان حکمرانوں کا کیا جاتا ہے؟



صرف تھر کی بات کیوں کی جائے، بلوچستان میں بھی غربت اِسی طرح بغیر کسی خوف سے ناچتی ہے کہ اُس کو معلوم ہے کہ اُسے روکنے والا کوئی نہیں کہ یہاں تو سب اپنے اپنے پیٹ کی فکر میں مصروف ہیں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے یہاں کے حکمراں تو بہت خوش نصیب ہے کہ اُن کی رعایا بہت زیادہ صبر شکر کرنے والی ہے، اور اگر اُنہیں صرف تین وقت کی روٹی اور پانی فراہم کردیا جائے تو یہ حکمرانوں کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجائے گی، لیکن ظالم یہ کام بھی ٹھیک سے کرنے میں بُری طرح ناکام ہیں۔

میں یہ سوچتا ہوا کمیٹی سے نکلا اور دفتر پہنچا تو ہمارے ایک ساتھی نے کمپیوٹر پر اونچی آواز میں موجود ہ وزیراعظم نواز شریف کی وہ تقریر چلا رکھی تھی جب ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ میاں صاحب حضرت عمر فاروقؓ کا ایک قول سنا رہے تھے کہ میرے دور حکمرانی میں اگر دریائے فرات کے کنارے بھوک سے کوئی کتا بھی مرگیا تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور میں جوابدہ ہونگا۔ وزیراعظم فرما رہے تھے کہ ہم اقتدار میں آکر حضرت عمرؓ والے دور کے مطابق کام کرینگے اور جہاں جہاں لوگ بھوک، افلاس کا شکار ہیں ان کے مسائل ختم کرینگے۔



لیکن یہ تقریر سن کے افسوس ہوا اور شدید افسوس ہوا کہ ہمارے حکمراں لوگوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے صرف اُن سے ہی جھوٹ نہیں بولتے بلکہ مذہب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے رب کو بھی ناراض کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ کی حکومت کو دو دن پہلے تین سال پورے ہوگئے ہیں اور ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 50 فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ تھرپارکر میں ایک سال کے دوران 900 سے زائد پاکستانی صرف اِس لیے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئے کہ اُن کو حکمرانوں کی طرف سے نہ خوراک فراہم کی گئی، نہ پینے کے لیے پانی دیا گیا اور نہ ہی جان بچانے کے لیے بہتر علاج کیا گیا۔ اب نہیں جانتا کہ نواز شریف حکومت میں آنے کے بعد حضرت عمرؓ کے قول کو سرے سے بھول گئے ہیں یا پھر دل میں سوچتے ہونگے کہ کہنے سے کیا ہوتا ہے، ووٹ ملنے تھے تو وہ مل گئے، اب اگلے انتخابات سے پہلے پھر یہ تقریر کرلیں گے، اور حکمرانی کا تاج سر پر سجالیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں