’ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘
یہ البتہ پیشکش کی گئی ہے کہ متفقہ ٹی اوآرز کی تیاری کے لیے ، حکومت، اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے
پانامہ لیکس پرہنگامہ تھمنے میں نہیں آ رہا ۔ وزیراعظم سمیت جن افراد کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں، ان کو زیر تفتیش لانے کا مطالبہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن کی 9 پارٹیوں نے حکومت کے مقابلے میں اپنے ٹی او آرز پیش کر دیے ہیں ۔ حکومت نے اپوزیشن کے ٹی آراوز کو مسترد کر دیا ہے ۔
یہ البتہ پیشکش کی گئی ہے کہ متفقہ ٹی اوآرز کی تیاری کے لیے ، حکومت، اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کو تیار ہے ۔ یہ مذاکرات کب ہوتے ہیں، نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ، اس بارے میں یقینی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے ؛ لیکن یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ پارٹیاں بھی جو پارلیمنٹ میں موجود نہیں ، پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن کے شانہ بہ شانہ نظر آئیں گی۔
یہ بھی افتخار محمد چوہدری کی خوش قسمتی تھی کہ اعتزازاحسن کی صورت میں انکوایک ایسا وکیل صفائی میسر آ گیا ، جو سیاسی اور قانونی مہارت کے ساتھ ساتھ اخلاقی ساکھ بھی رکھتا ہے ۔ پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کے بدترین مخالف بھی اعتزازاحسن کے کردار پر انگلی نہیں اٹھاتے ہیں ۔ ججز بحالی تحریک کے دوران میں ایک مرحلے پر بے نظیر بھٹو ، افتخار محمد چوہدری کو ناپسند کرنے لگی تھیں ۔اعتزازاحسن کو بھی ان کے پیچھے سے ہٹ جانے کے لیے کہا گیا ۔ اعتزازاحسن نے مگر شائستگی سے انکار کر دیا ۔
2008 ء الیکشن سے پہلے نواز شریف بنفس نفیس اعتزازاحسن کے گھر گئے اور باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے پیش کش کی کہ ان کے مقابلہ میں ن لیگ اپنا امیدوارکھڑا نہیں کرے گی۔اعتزاز احسن نے یہ پیش کش واپس کردی اور وکلا تحریک کے فیصلہ کے تحت الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ پیپلزپارٹی برسراقتدار آ گئی ۔ آصف علی زرداری ، جو پارٹی کو چیئرمین کے علاوہ ان کے ذاتی دوست بھی ہیں ، صدر بن گئے ۔ وہ بھی افتخارمحمد چوہدری کو بطور چیف جسٹس بحال کرنے کے حق میں نہیں تھے ۔
افتخار محمد چوہدری دوسری مرتبہ بھی بحال ہو گئے تو بجا طور پر ان سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب وہ اپنے ماضی کی تلافی کریں گے اور بے لاگ انصاف کریں گے ، لیکن انھوں نے یہ تاریخی موقع ضایع کر دیا۔ پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، جس نے ایگزیکٹو آرڈر سے انکو بحال کیا تھا ، انکو اس بنا پر گھر بھیج دیا گیا کہ انھوں نے ان کے کہنے پر صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکومت کو خط کیوں نہیں لکھا ۔ پھر نوازشریف کی درخواست پر فی الفور پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف میمو گیٹ کمیشن تشکیل دے دیا گیا ۔
برخلاف اس کے ، نوازشریف کے خلاف اصغر خان کیس کو جھاڑ پونچھ کر دوبارہ ایف آئی اے کی فائلوں میں دبا دیا گیا۔ لیکن جس کیس نے افتخار محمد چوہدری کی ساکھ کو بری طرح متاثرکی، وہ ان کے بیٹے ارسلان افتخار کا کیس تھا ۔ افتخار محمد چوہدری نے بھی اپنے دفاع میں جو قانونی موقف اختیار کیا ، وہ یہ تھا کہ ان کا بیٹا ارسلان افتخار عاقل وبالغ ہے ، اور اپنے قول وفعل کا خود ذمے دار ہے ۔ اس نے اگر کرپشن کی ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے ، مگر اس کی پاداش میں چیف جسٹس کے عہدے سے الگ نہیں ہوں گے ۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے بیٹے کی کہانی میں وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بیٹوں کے لیے بڑا سبق ہے ۔وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ پانامہ لیکس کا بحران معمولی بحران نہیں ہے ۔ یہ بحران ان کی موجودہ حکومت ہی نہیں ، ان کی مستقبل کی سیاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ اگر وزیراعظم نوازشریف کے ہاتھ صاف ہیں اور وہ ا س بحران سے نکلنا بھی چاہتے ہیں تو انکو بغیر کسی تاخیر کے ، اپوزیشن کے ٹی اوآرز تسلیم کرکے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کی تحقیقاتی کارروائی شروع ہونے دینا چاہیے ۔
یہ بحران اگر طول پکڑتا ہے اور یہ تاثر مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ حکومت وزیراعظم اور ان کے بیٹوں کے خلاف منصفانہ تحقیقات کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان آخر کار وزیراعظم ہی کو ہو گا۔ نکتہ یہ ہے کہ عوامی نقطئہ نظر سے وزیراعظم کے خلاف کیس یہ نہیں کہ ان کا یا ان کے بچوں کا نام پانامہ لیکس میں آیا ہے ، بلکہ ان کے خلاف کیس یہ ہے کہ ان کی حکومت پانامہ لیکس کی منصفانہ انکوائری کو ہر قیمت پر روکنا چاہتی ہے ۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تاثر ان کی موجودہ حکومت اور ان کی مستقبل کی سیاست کو اس طرح قصہ ماضی بنا سکتا ہے ، جس طرح کہ افتخار محمد چوہدری کی عدالت اور سیاست قصہ ماضی ، بلکہ نمونہ عبرت بن چکی ہے ۔ شاعر نے کہا تھا ؎
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے