مصوری کے ذریعے میرا اپنے معاشرے کے لوگوں سے رشتہ بنتا ہے پروفیسر میاں اعجاز الحسن

ایوب اور بھٹو کے ادوار آرٹ کے لیے مثالی تھے، ممتاز مصور اور دیرینہ سیاسی کارکن پروفیسر میاں اعجاز الحسن سے مکالمہ


ایوب اور بھٹو کے ادوار آرٹ کے لیے مثالی تھے، ممتاز مصور اور دیرینہ سیاسی کارکن پروفیسر میاں اعجاز الحسن سے مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

ALLAHABAD: پروفیسرمیاں اعجاز الحسن ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں ۔وہ ایک نامورمصور،آرٹ کے استاد ونقاد اور لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ سرگرم سیاسی رہنما بھی ہیں۔آپ کی کتاب'پینٹنگز اِن پاکستان'کو آرٹ میں دلچپسی رکھنے والوں نے بہت سراہا ۔ممتاز نقاد مظفر علی سید نے اپنے تبصرہ میں اس کتاب کو ایک تہذیبی دستاویز قرار دیا ہے۔

ان اہلیہ بیگم مسرت حسن نے ان کے کام کو ایک کتاب ijaz ul hassan: five decades of paintings میں یکجا کیا ہے جو آرٹ کے شائقین کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ۔پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم رہے اور اس راہ میں کئی پر خار مقام بھی آئے ۔ اعجاز الحسن نے اپنی تصویروں کے لیے ایسے موضوعات چنے جن کا تعلق عام انسانوں سے ہے ۔کچھ دن قبل ایک شام ان کے ساتھ تفصیلی نشست ہوئی جس کا احوال قدرے اختصار کے ساتھ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

کچھ اپنے بارے میں بتائیے؟
میں پاکستان بننے سے تقریباً چھ سال پہلے پیدا ہوا۔ ددھیال اندرون لاہور میں آباد تھاجبکہ میرا ننھیال ساندہ کلاں جو دریا کے ساتھ کرشن نگر کے بعدایک بہت ہی خوبصورت گاوں تھا ، وہاں مقیم تھا۔ اس زمانے میں وہاں باغات تھے۔ ساتھ راوی بہتا تھا۔ میری پیدائش ساندہ کلاں ہی کی ہے۔

آبائی شہر لاہور ہے لیکن بلوچستان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ میرے دادا پہلی جنگ عظیم میں برٹش آرمی میں تھے۔ اس جنگ میں انہیں عراق بھی جانا پڑا۔ (مسکراتے ہوئے ''ویسے تو انگریزوں کا ساتھ دینا کوئی اچھی بات نہیں تھی'')۔دادا واپس آئے تو کوئٹہ میں رہنے لگے۔

والد بھی کوئٹہ میں پیدا ہوئے اوروہیں پر سنڈیمن اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ (اب تو اس کا نام کوئٹہ گرائمرسکول کر دیا گیا ہے لیکن لوگ اسی پرانے نام سے جانتے ہیں)والد صاحب آخر وقت تک بہت ہی کم گو اور خود میں گم رہنے والے آدمی تھے۔ سنڈیمن میں تعلیم کے دوران وہ بہت سرگرم کھلاڑی رہے۔اس اسکول کی فٹ بال ٹیم کوئٹہ سے نکل کر پورے برصغیر پر چھا گئی۔ انہوں نے اس زمانے کی ایک بہت مشہور ٹیم مون بگھان کو کلکتہ میں فائنل میں ہرا دیا۔ میں اس زمانے کے والد کے دوستوں سے ملا بھی ہوں ۔بہت اچھے لوگ تھے۔ میرے دادا ہر سال گرمیاں کوئٹہ میں اور سردیاں یہاں اندرون شہر(لاہور)گزارتے تھے۔

تعلیم کی ابتداء کیسے ہوئی ؟
میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔والد ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ تقسیم ہند سے پہلے جہاں بھی میرے والد کا تبادلہ ہوتا تھا تو میں ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ میں کچھ عرصہ بغداد الجدید میں رہا ۔ وہاں بھاولپور میں بھی پڑھتا رہا۔ قصور میں بھی تقسیم سے پہلے ایک سکول ہوا کرتا تھا وہاں بھی کچھ عرصہ پڑھا۔غرض میں اسی طرح مختلف جگہوں پر پڑھتا رہا۔ چونکہ والد کے تبادلے ہوتے رہتے تھے اس لیے کسی دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ مجھے کسی بورڈنگ میں ڈالنا چاہیے۔ اس وقت اچھا بورڈنگ اسکول صرف ایچیسن کالج میں تھا مجھے وہاں داخل کرایا گیا۔گرمیوں کی چھٹیاں ہم سب کوئٹہ گزارتے تھے۔کوئٹہ میںپلازہ سنیما ہوا کرتا تھا ۔ جو بھی نئی فلم کراچی میں لگتی ،وہاں سے کوئٹہ پہنچتی تھی اور پھر کہیں جا کر لاہور میں لگتی تھی۔ اس لیے جب کبھی میں لاہور آتا تو دوستوں سے کہتاکہ تم نے فلاں فلم دیکھی ہے تو وہ ہکا بکا رہ جاتے تھے۔

مجھے بچپن سے کھیل کود کا بڑا شوق تھا۔کالج میں فٹ بال اور ایتھلیٹکس ٹیموں کا کپتان بھی رہا۔ فُل اسکول بلیزر بھی مجھے ملا۔ آخر میں مجھے تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں رہنے کی وجہ سے گولڈ میڈل(گوڈلے میڈل) بھی ملا۔

پینٹنگ کے شوق کی ابتداء کیسے ہوئی؟
مجھے پینٹنگ کا شوق وراثت میںملا ہے۔میرے والد نے سینئر کیمبرج میں پینٹنگ کا مضمون لیا ہوا تھا ۔ بعد میں وہ پینٹنگ تو نہیں کرتے تھے لیکن ان کا پینٹ باکس میں نے دیکھا جس میں سوکھے ہوئے رنگ تھے۔ شاید دس بیس سال سے وہ اسی طرح پڑے ہوئے تھے۔ ایک برش تھااور کچھ چھوٹے سائز کے واٹر کلرز پیپرز تھے۔ ان کی بنائی ہوئی ایک دو تصویریں بھی مجھے یاد ہیں۔

ایک تصویر گدھے کی تھی جبکہ دوسری میں ایک کاٹیج سے عورت کو نکلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اس کا حلیہ وکٹورین عہد کی خاتون جیسا تھا ، سر پر ٹوپی ہے اور ہاتھ میں اس نے ایک پھولوں سے بھری ہوئی ٹوکری اٹھائی ہوئی ہے اور ایک پھولوں سے بھرے راستے سے چلی آرہی ہے۔ میں نے شروع میں انہی واٹر کلرز میں پانی ڈال کر تصویریں بنانا شروع کیں۔ ان سوکھے ہوئے واٹر کلرز کی خوشبو ابھی تک نہیں بھولی۔ میں شروع میں سیدھے سادے پھول بناتا تھا۔ پرندے بنانے کا بہت شوق تھا۔ خاص طور پر بگلے بہت بناتا تھا۔

آپ نے دس بارہ سال بورڈنگ اسکول میں گزارے اس کے بعد کی تعلیمی سفر کی کیا کہانی ہے؟
ایچی سن کے بعد میں گورنمنٹ کالج چلا گیا۔ وہاں میں نے فائن آرٹس کا مضمون لیا اور پینٹنگ کے لیے مجھے پنجاب یونیورسٹی جانا ہوتا تھا جہاں اینا مولکا(Anna Molka Ahmed ) پڑھاتی تھیں۔میرے آرٹ کے استادوں میں سے ایک سردار محمد تھے جو بڑے نامور مصور ہیں۔ معین نجمی صاحب تجریدی اور جدید آرٹ کے حوالے سے بہت معتبر نام ہیں۔ خالد اقبال صاحب بعد میں پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بھی رہے اور نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل بھی رہے۔ مجھے معین نجمی صاحب نے بہت متاثر کیا۔اس زمانے میں پیپر بھی بڑا ہوتا تھا اور ہم بہت تجربے کرتے تھے۔ میرا اس کے بعد ان سب اساتذہ کے ساتھ زندگی بھر بہت تعلق رہا۔

بیرون ملک تعلیم کے بعد پاکستان میں عملی زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟
60 ء میں پاکستان واپس آگیا۔زاہدان کے راستے کوئٹہ اور پھر کوئٹہ سے بذریعہ سڑک لاہور آیا۔ کچھ دوستوں کے مشورے پر انگریزی پڑھانے کے لیے گورنمنٹ کالج سے وابستہ ہو گیا اور وہاں تین چار مہینے پڑھایا۔ میرا لاہور سے باہر ملازمت کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ میں اپنے والدین کو اب چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ایک دن نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل شاکر علی نے کہا کہ تم کیوں ہمارے پاس پڑھانے نہیں آتے؟میں نے سوچا یہ تو بڑی اچھی پیشکش ہے کہ پڑھائیں گے بھی اور ساتھ تصویریں بھی بنائیں گے۔ وہاں مجھے فوراً سینئر کلاس ون سٹیٹس کے تحت شعبے کا سربراہ لگا دیا گیا۔ میں نے وہاں کئی نئی چیزیں متعارف کروائیں ، بچوں کو دنیا بھر کی مصوری سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ انہیں تصویروں کے تجزیے کی جانب بھی راغب کیااور اب میرے کئی شاگرد اس وقت آرٹ کے میدان میں کامیابی سے سرگرم ہیں ۔

تقسیم ہند کے وقت آپ کی عمر پانچ یا چھ سال ہوئی ہو گی ، اُس دور کو آج کیسے یاد کرتے ہیں؟
اس وقت کی بہت سی یادیں ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہیں تاہم تقسیم ہند کے حوالے سے میرا موقف ذرا الگ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں مشرقی پنجاب میں فسادات شعوری طور پر کروائے گئے۔ اس میں صرف کانگرس یا کچھ مخصوص لوگوں کا ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے۔ تقسیم تو صرف پنجاب اور مشرقی پاکستان کی ہوئی ہے ۔ پہلے امرتسر میں آگ لگائی گئی جس کے ردعمل میں یہاں بڑے پیمانے پرآگ لگی۔ ان دنوں میں، قصور میںتھا ۔ والدکی سرکاری رہائش گاہ اسٹیشن کے ساتھ تھی۔ میں اوپر چھت پر چڑھ کر وہ سب مناظر دیکھتا تھا۔

ہماری طرف کے پلیٹ فارم پر بلوچ رجمنٹ تھی جبکہ دوسری طرف گورکھے تھے۔ گاہے آر پار فائرنگ بھی ہو جاتی تھی۔ میرے والد ان دنوں آنے جانے والوں کی محفوظ آمد ورفت کو یقینی بنانے میں لگے ہوئے تھے۔

وہ بہت ہی سرگرم انسان تھے۔ وہاں پر ہمارے گھر میں ہر وقت کم سے کم پچاس افراد موجود ہوتے تھے۔ ان میں سکھ بھی ہوتے تھے، ہندو بھی اور دیگر بھی جو اُس پار جانا چاہتے تھے۔ مجھے ان کے افسردہ وخوفزدہ چہرے نہیں بھولتے ۔ میری والدہ خود ان کے لیے کھانا پکاتی تھیں۔ فیروزپور سے آنے والی ٹرینوں میں لاشیں بھی دیکھیں۔ میں سمجھتا ہوں بعد میں منفی کہانیوں ہی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور ویسے بھی بری کہانی زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ ہم نے تقسیم کے بعد ساری توانائیاں بھارت کو غلط ثابت کرنے میں لگائیںاور انہوں نے بھی یہی کچھ کیا۔

ستیش گجرال ایک مشہور پینٹر ہے۔ وہ بول نہیں سکتا۔ نیشنل کالج آف آرٹس کا طالبعلم ہے۔ تقسیم کے وقت میکسیکو پڑھنے گیا ہوا تھا۔ اس کا خاندان جہلم سے تھا۔ وہ اپنی کتاب(The partition of India)میں بیان کرتا ہے کہ اس وقت واہگہ کا سیکٹر بند تھا اس لیے جتھے آر پار بیاس کے اوپر بنے بوٹ برج کے ذریعے جاتے تھے۔ستیش کے رشتہ دار بھی اس بوٹ برج پر چڑھے۔



اتفاق سے دوسری جانب سے بھی ایک جتھہ بوٹ بر ج پر چڑھ چکا تھا۔ دونوں جانب ہجرت کرنے والے پریشاں حال لوگ تھے۔ دونوںطرف کے لوگ ایک دسرے کو دیکھ کر وہیں رک گئے۔پھر ڈرتے ہوئے رک رک کر آگے چلنے لگے ۔ جب وہ ایک دوسرے کے قریب پہنچے تو آگے والوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ایک طرف سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے پاس کھانے پینے کا کچھ سامان ہے؟یہی سوال دوسری طرف سے بھی پوچھا گیا۔یہ وہ المناک مناظر ہیں جو ستیش اپنی خود نوشت میں دکھاتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ ایک چیز پر بہت زیادہ اصرار کرنے سے اصل چیز مسخ ہو جاتی ہے۔اگر آپ اس کو دس بار مختلف انداز میں دہرائیں گے تو وہ ایک استعارہ بن جائے گا۔ 'کھول دو' منٹو کا افسانہ ہے ۔میں نے وہ اسکول کے زمانے میں پڑھا۔ منٹو نے استعارہ نہیں بنایا بلکہ اس نے تو ایک واقعہ بیان کیا ہے لیکن اس کو اتنا دہرایا گیا کہ مجموعی تأثر یہ بنا کہ مشرقی پنجاب سے آنے والی ہر عورت کو یہاں بے آبرو کیا گیا۔ یہ استعارہ بن گیا جو منٹو کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔میں جب یہ بات کرتاہوں تونام نہاد لبرل کہتے ہیں یہ آپ کیا بات کر رہے ہیں؟ میں انہیںکہتا ہوں کہ آپ لوگ کمرے میں بیٹھ کر لبرل ازم کی باتیں کرتے ہیں، کبھی آپ کسی دوسرے کے لیے دھوپ میں بھی جا کر کھڑے ہوئے ہو ؟بس اپنی آزادیوں کے لیے شور مچاتے رہتے ہو۔

یہاں ایک وضاحت کردوں کہ میں ان لوگوں کا قطعی طور پر حامی نہیں جنہوں نے پاکستان کی صورت کو مسخ کیا ہے اور اسے عوامی جمہوریہ سے ایک مذہبی قسم کی ریاست بنا دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کانگریس کے رویے سے وجود میں آیا۔آپ دیکھیں تو سہی کیبنٹ مشن پر نہرو کے بھی دستخط ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے پٹیل کو کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی دوذاتی وجوہات تھیں ۔ ایک یہ کہ اگر یہ ہو گیا تو پھر میرا کیا بنے گا ،واہ واہ تو لیبر پارٹی کی ہو گی کیونکہ اس کے محرک وہی تھے۔دوسری وجہ یہ کہ نہروکو پٹیل وغیرہ نے ڈرایا کہ اگرو ہ یہ سب حقوق صوبوں کو دے گا تو پہلا وزیراعظم ہونے کی صورت میں اسے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری بات یہ مسلم ہندو کی کرتے ہیں ۔کیبنٹ مشن میں قائداعظم کے ساتھ درجن کے قریب تو دیگر اقلیتیں تھیں۔یہ ہندو مسلم مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ تو اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ تھا۔ ہم نے جس وجہ سے علیحدگی اختیار کی، وہ ہم بھول گئے ۔ ہم نے تو یہاں آکر ون یونٹ بنائے۔

دنیا میں اٹھنے والی مصوری کی تحریکیں ایک طرح سے ترقی یافتہ ممالک کے آرٹ کے رجحانات کی نقالی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا۔کیا اس سے کچھ حاصل ہوا؟
پنجابی کا محاورہ ہے ''جیدے گھر دانے، اودھے کملے بھی سیانے'' میرا خیال ہے کہ ماڈرن ازم سکول نہیں بلکہ ایک رویہ ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ میں ماڈرن آرٹسٹ ہوں مگر وہ جنوں بھوتوں پر یقین رکھتا ہو تو آپ اسے کیسے ماڈرن کہیں گے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی رومی ٹوپی پہن کر چکر لگانے لگے اور خود کو صوفی سمجھنے لگے۔ ماڈرن ازم ایک نیا سائنسی اورمنطقی(میکانیکی نہیں) رویہ ہے۔ بہت سارے یورپین آرٹسٹوں نے دو بڑی جنگوں کے بعد سوچا کہ اب یہ عالمی اشرافیہ تقلید کے قابل نہیں ہے۔ ہم فاشزم کو منفیت میں دیکھتے ہیں۔

ان لوگوں کا موقف تھا کہ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کیا کرنا ہے البتہ یہ ضرور پتہ ہے کہ کیا نہیں کرنا۔ اس ریجیکشن میں سے بہت سی زرخیز تحریکیں نکلیں۔ سوشلسٹ نظریات کے کئی رویے نکلے۔ وجودیت نکلی (یورپ میں وہی نکل سکتی تھی)۔ انارکسٹ بھی نکلے جو اب بھی ہیں۔ انارکسٹ کا مطلب اب دہشت گردی سے جڑ گیا ہے حالانکہ انارکسٹ تو وہ ہوتا ہے جو ہر وقت سوالات اٹھاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں ماڈرن فکر ہر چیز کو تنقیدی زاویے میں دیکھنا چاہتی ہے اور مستقل بنیادوں پر نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے یعنی اپنے حالات کی تفہیم اور حقائق اور واقعات کا حال ، ماضی اور مستقبل کے ساتھ کوئی ربط پیدا کیا جائے۔ اب خالد اقبال کی مصوری دیکھیں ۔آپ کو کہیں بھی رومانوی غبار دکھائی نہیں دیتا۔ کھلی اور روشن تصویر ہوتی ہے۔ اس کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ وہ تعصب سے ماورا اور جمہوریت پسند آدمی ہے۔

جہاں تک نقل کی بات ہے تو میں نئے آرٹسٹوں کو کہتا ہوں ''یار! کسی اور کی نقل کرو گے تو کچھ سیکھو گے۔ نقل ہی کرنی ہے تو پکاسو کی کر لو، لیونارڈوڈونچی کی کرلو۔ بار بار اپنی ہی نقل کرنے سے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ یہ خودپسندی کی انتہاہے اور انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ میرا خیال ہے ایک اچھا فنکار ڈاکو کی طرح ہوتا ہے ۔ اسے ادھر ادھر جہاں بھی کوئی اچھی چیز نظر آتی ہے وہ اٹھا کر جیب میں ڈال لیتا ہے۔ جو آرٹسٹ یہ نہیں کرتا وہ سوکھے ہوئے چشمے کی طرح ہو جاتا ہے۔

مغرب کے برعکس پاکستان میں کوئی مصور سلبریٹی کیوں نہیں بن پاتا؟
یورپ میں آرٹسٹ کم ہیں سٹارز زیادہ ہیں۔ سٹار کی زندگی دو چار دن کی ہوتی ہے ۔ اسے مارکیٹ استعمال کرتی ہے اور کچھ عرصے بعد اس کا نام تک نہیں ہوتا۔ اس لیے میں یہاں کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ پہلے اپنی دھرتی پر پاؤں جمالیں اور پھر چاہے ساری دنیا کو اپنے کندھوں پراٹھا لیں۔ اگر یونہی بھاگتے دوڑتے رہے تو ناکام ہو جاؤ گے۔پکاسوکہتا ہے کہ مصر کے مصور لافانی ہیں اس لئے کہ وہ ہمیں آج تک یاد ہیں۔ آج کے کئی بڑے بڑے مصور اپنی زندگی ہی میں مر جاتے ہیں۔ اگر آپ نے کوئی کنواں کھودا ہے تو اس کاپانی سو دوسو سال تک لوگ پئیںتب تو بات ہے ۔ خود ہی کھودا پیا اور چلے گئے یہ تو کمال نہ ہوا۔

ہمارے ہاں اب بچوں کے لیے معیاری ادب نہیں تخلیق ہورہا،پہلے بچوں کے لیے بہترین قلم کار کہانی لکھتا تھا اورتصاویر اس عہد کے اعلیٰ پائے کے مصور بناتے تھے؟ اس انحطاط کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟

ہمارے محکمہ تعلیم کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے ضلعی اسکولوںمیں اگر اچھی تصویریں لگ جائیں، اچھے شعر لکھ دیے جائیں۔ اس سے بچوں کی تخلیقی صلاحتیوں کو جلا ملے گی لیکن میرا خیال ہے کہ حکومت کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہے۔ حکومت پر دباؤ ضروررکھنا چاہیے مگر اپنی سطح پرکام کر لینا چاہیے ۔ آرٹسٹ ایسوسی ایشنز کو اس جانب خود قدم اٹھانا چاہیے۔ ہمارے بچوں کے قاعدے کتنے ردی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کی تخلیقی انداز میں تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔میری رائے ہے کہ ہر ضلع میں آرٹس کونسل بنائی جائے اور وہاں آڈیٹوریم بنایا جائے جہاں بچوں کے درمیان تقریری مقابلے بھی ہوں، ڈرامے بھی ہوں۔ مقامی کرافٹ کی نمائشیں بھی ہوں ۔ یہ حکمران چاہتے ہی نہیں ہیں کہ ایسی جگہیں بنائی جائیںجہاں لوگ اکھٹے ہوں۔

آپ کی نظر میں پاکستان میںکون سا دور آرٹ کے لیے سازگار رہا؟
میر ے خیال میں آرٹ کے لیے پاکستان میں دو ادوار بہت زرخیز رہے ہیں۔ پہلا ایوب خان کا دور تھا۔ اسی وقت نیشنل کالج آف آرٹس بنا۔(میرے خیال میں اسے نیا بننا چاہئے تھا، انہوں نے پرانے میو اسکول کو ہی نیشنل کالج آف آرٹس بنا دیا تھا)۔ایوب خان خود آرٹس میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے عبدالرحمٰن چغتائی کی فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی نمائش میں وہ خود آئے تھے۔وہ فیلڈ مارشل تھے اب تو وزیر بھی نمائشوں میں نہیں آتے۔اس زمانے میں بیوروکریٹ بھی بہت پڑھے لکھے اور باذوق تھے۔ الطاف گوہر ایک ایک مصور سے واقف تھے۔



آغا حمید گورنمنٹ کالج میں راوی کے ایڈیٹر بھی رہ چکے تھے۔ وہ کیبنٹ سیکریٹری تھے۔ کراچی آرٹس کونسل بھی اسی زمانے میں بنی ۔ رائٹرز گلڈ بھی اسی دور میں قائم ہوا۔ اس وقت محکمہ فلم اینڈ پبلی کیشنز ہوتا تھا،جس میں جلال الدین احمد وغیرہ کام کرتے تھے۔ سیاست کی بات الگ ہے تاہم آرٹس کے اعتبار سے وہ بڑا زرخیر وقت تھا۔دوسرا ذوالفقار علی بھٹو کا دور اچھا تھا ،ان ہی کے دور میں کلچر کی وزارت قائم کی گئی۔ پہلی بارنیشنل پالیسی آف آرٹس بنائی گئی۔ میں اس کی قائمہ کمیٹی کا رکن تھا۔ انہوں نے چاروں صوبوں میں آرٹس کونسلیں بنائیں۔اس کے بعد آٹھ ڈسٹرکٹ آرٹ کونسلیں بنیں جن کے بعد آج تک ایک بھی نئی نہیں بن سکی۔

ضیاء الحق کے دور کے ساتھ آپ کی بہت سی تلخ یادیں ہیں۔وہ دور آرٹ خاص طور پر مصوری کے لیے کیسا رہا؟
میرے لیے تو وہ دور زرخیز ترین رہاہے۔ ہماری تصویروں پر پابندی ہوتی تھی تو ہم رات کو بڑے بڑے جارحانہ پوسٹر بنا کر لگاتے تھے۔ ہر پندرہ دن کے بعد ہم سارے لاہور میں ایک ہزار پوسٹر لگا دیتے تھے۔ یہ اساتذہ اور طلباء کی مشترکہ کاوش ہوتی تھی۔ ایک دن ہماری نمائش چلتی،اگلے دن پولیس وہ سب کچھ ضائع کر دیتی تھی۔ ہم نے کئی خفیہ پمفلٹ مُہمیں چلائیں۔ جالب کی شاعری کواسی دور میں تقویت پہنچی۔ میری رائے میں جس آرٹ کودربار کی سرپرستی حاصل ہو وہ کسی بھی وقت بادشاہ کا رویہ بدلنے سے نقصان کا شکار ہو جاتا ہے۔ضیاء کی طرف سے کیلی گرافی کی مصوری کا دعویٰ غلط ہے ۔ اس کے دورمیں مصوری سخت گیری کی طرف گئی۔

آج کل عمومی مشاہدہ ہے کہ آرٹ کے طالبعلم اپنے حلیے پر بہت توجہ دیتے ہیں ۔ اپنی ظاہری ہیئت کو عجیب وغریب بنا کر رکھتے ہیں۔ اخلاقی بے راہ روی کی شکایات بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔اس رجحان کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ہِپی( hippy) کی مثال لے لیجئے۔ اُس وقت ساری دنیا میں ان کا رجحان تھا ، کسی نے چواین لائی(Zhou Enlai ) سے پوچھا کہ یہ ان لوگوں نے کیا حلیہ بنا رکھا ہے تو اس نے کہا یہ سرمایہ دار معاشرے کے خلاف احتجاج کا ان کا اپنا ایک انداز ہے۔ ایسے ملک میں جہاں کھلی سڑکوں پر کیمرے کے سامنے لوگ مار دیے جاتے ہوں اس معاشرے میں یہ کہنا کہ ہمارے بچے تمیز سے کھانا نہیں کھاتے ، عجیب سا لگتا ہے۔ کئی بچے ایسے ہیں جو یہاں عجیب حلیے رکھتے ہیں گھر جا پھر اسی روایتی انداز میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اسے سماج کے مسئلے کے طور پردیکھنا چاہیے۔

میرا موقف یہ رہا ہے کہ استاد کا فی میل اسٹوڈنٹ کے ساتھ کوئی رومانوی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ میرا مطلب ہے انہیں آپس میں شادی نہیں کرنی چاہیے۔ کیمبرج میں اگر کوئی استاد ایسا کرتا تو اگلے د ن اسے یونیورسٹی چھوڑنا پڑتی تھی۔ اب بھلا یہ کیسا ہوگا کہ لڑکی کو پتہ نہ ہو کہ یہ میرا خاوند ہے یا استاد ہے۔ میری اس رائے میں کوئی قدامت پسندی نہیں بلکہ یہ اصولی بات ہے۔ آپ اپنے والد کے سامنے میز پر پاؤں رکھ کر نہیں بیٹھتے۔ہاں ایک اور بات ہے کہ ہماری بچیاں اب اپنے بارے میں بہت محتاط ہیں۔انہیں اس بات کا بہت پتہ ہے کہ اگر وہ جسمانی تعلق قائم کریں گی تو نقصان انہی کو اٹھانا پڑے گا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی بچیوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ والدین کو ان کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ دفتر کا غصہ ان پر نہیں نکالنا چاہیے ۔

فن برائے فن اور فن برائے مقصدیت کے نعرے ماضی میں بھی لگتے رہے اور اب بھی کبھی کبھار اس قسم کی بحثیں ہونے لگتی ہیں ۔آپ کا نظریۂ فن کیا ہے؟
یہ جو بحث ہے کہ فن برائے مقصد یا فن برائے فن۔ اب ان میں سے کسی کو بھی لے لیں ۔ جیسے فن برائے فن ، یہ بھی تو ایک طرح کا عقیدہ ہی ہے۔ یہ بحث ہی فضول ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو بھی آپ بنائیں اس میں توازن ہو۔

ریئل ازم اور علامت دونوں آپ کی تصویروں میں برابر نظر آتے ہیں؟ علامتی مصوری کو کیسے دیکھتے ہیں؟
میں اپنے بارے میں بات کروں۔ مثال کے طور پر میں آپ کو کوئی لطیفہ سنا دوں لیکن اگر کوئی بزرگ آ جائیں تو ان کے سامنے میں وہی لطیفہ آپ کو نہیں سنا پاؤں گا۔نظم گو اگر یہ کام کرے تو قابل قبول نہیں کیونکہ اس کے پاس تو اظہارکے بیسیوں پیرائے ہیں لیکن تصویر میں تو آپ ایسا نہیں کر سکتے۔
ضیاء الحق کے دور میں صورت حال یہ تھی کہ یاتو آپ تصویر نہ بنائیں اگر بنائیںتواشاروں ہی میں بات کریں ۔ لیکن میں نے استعارے کو Virtueنہیں بنایا ۔ یہ جو سملبزم (Symbolism) آئی ہے یہ مغرب کے نہایت رجعت پسند مصور وں اور شاعروںکا کیا دھرا ہے۔اس کے بعدانقلابیوں نے اس کو بڑے زور دار انداز میں بھی استعمال کیا۔ اب صلیب کو دیکھ کرانسان ادب سے کھڑا ہو جاتا ہے اور سارا پس منظر سامنے آ جاتا ہے ۔علامت کا اصول یہ ہے کہ وہ ایسی نہیں ہونی چاہیے کی کوئی نقاد سمجھائے۔ علامت سب کی سمجھ میں آنی چاہیے ۔

علامت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس سماج میں قابل فہم ہو۔ یہ درست ہے کہ علامتوں کے بغیر نہ تو شاعری ہو سکتی ہے اور نہ ہی مصوری۔ یہاں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ فلاں بہت بڑا شاعر ہے اس لیے کہ بہت کم لوگوں کو سمجھ میں آتا ہے۔ میں ایسے لوگوںسے کہتا ہوں کہ یار میں بھی ایک ایسے شاعر کو جانتا ہوں جو کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آتا، وہ تو اس سے بھی بڑا شاعر ہے۔ عام آدمی کو جالب سمجھ میں آتا ہے۔ آپ نے جس سماج کے لیے تصویر بنانی ہے آپ کو اس کی علامتوں اور اشاروںکو ،ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ ہمارا سمندر فلوریڈا کے سمند ر سے مختلف ہے اس کا رنگ الگ ہے، ہمارے پرندے مختلف ہیں۔ ہماری گلہری مختلف ہے۔ عموماً ہمارے قاعدوں میں امریکن گلہری کی تصویریں ملتی ہیں ۔ یہاں قاعدوں پر ٹیولپ بنا دینے سے بچوں کوکیا سمجھ آئے گی ۔وہ تو ترکی کا پھول ہے۔

آپ کی مصوری کے موضوعات میں میں سبزے اور درختوں کی کثرت ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
ایک تو یہ ہے کہ سبزہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ میرے ننھیال والے زمینداری کرتے تھے۔ ان کے باغ بھی تھے اور ہر روز ہم دریا کے پاس چہل قدمی کر تے تھے۔ اس زمانے میں راوی کے کنارے بے تحاشا شکار ہوتا تھا ۔ میرے ماموں ہر روز کچھ نہ کچھ شکار کر کے لاتے تھے۔ سامنے شرقپور نظر آتا تھا۔ وہاں پر ہماری کشتیاں تھیں ۔ لوگ ہر سال حضرت خواجہ خضر کے نام کی گجریلے کی دیگیں بنا کر پانی میں مچھلیوں کے لیے ڈالا کرتے تھے۔ شب برات کو دریا کے ساتھ ساتھ کناروں پردیے روشن کیا کرتے تھے۔ظاہر ہے بچپن میں اس طرح کا ماحول میں دیکھا جس کا اثر اب میری تصویروں میں نمایاں نظر آتا ہے۔

بہت سے لوگوں کو شکوہ ہے کہ ترقی کے نام پر لاہور کو اجاڑا جا رہا ہے، اس کا حقیقی حسن ماند پڑ رہا ہے،آپ کیا کہتے ہیں؟
میں نے جو لاہور دیکھا ہوا ہے وہ اب نہیں رہا۔ وہ سب درخت بھی کاٹ دیے گئے جو مجھے یاد تھے۔آپ آج بھی میرے ساتھ چلیں تو میں آپ کو بتا دوں گا کہ کس کس جگہ سے کون کون سے درخت کاٹ دیے گئے۔ یہاں کی زرخیز زمین کو کالونیاں بنانے والے مسلسل برباد کر رہے ہیں۔ ان نئی بننے والی کالونیوں کا کوئی مرکز ہی نہیں ہے ۔ ہر کالونی میں مرکزی ہسپتال ،مسجد ، گراؤنڈ،کلب ، پولیس سنٹر، اسکول غرض سب کچھ ہونا چاہیے۔ اب یہ آبادیاں تونہیں ہیں ،یہ راستے ہیں۔

اگر نواب کالا باغ اس شہر کی خوبصورتی کے تحفظ کے لیے بھٹے بند کرا سکتے تھے تو آپ باہر سے آنے والی آبادی کو کیوں نہیں روک سکتے۔اب لاہور میں کثرت سے ایسے لوگ آباد ہو رہے ہیں جو یہاں کے نہیں ۔ مجھے ان سے کوئی شکوہ نہیں لیکن اگر آبادی کی منتقلی کا یہ سلسہ نہ رکا تو کیا آپ پورے پاکستان کو لاہور میں بسا لیں گے؟ حکومت کو چاہیے کی دیہی علاقوں کی ترقی کے لیے کام کرے۔ مجموعی طور پر سب حکومتوں نے اس میں غفلت برتی ہے ۔

آپ نے کہا کہ مصوری کا مقصد ابلاغ ہے توکیا تجریدی آرٹ کا مخاطب عام آدمی ہو سکتا ہے؟
دیکھیں ایک طبقاتی نظام میں موجود تہوں میں جو خوراک اوپر کی تہہ کھاتی ہے وہ نچلی سطح کے لوگ تو نہیں کھاسکتے ۔اوپر کے لوگ اگر فور ویلر خریدتے ہیں تو نیچے والا شخص تو سائیکل بھی نہیں خرید سکتا۔ آرٹ کا بھی یہی نظام ہے۔آسودہ حال لوگ پینٹنگز خریدتے ہیں اور آرٹسٹ بھی بیچتے ہیں۔ آپ ان پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم نے ضلعی سطح کو ئی آرٹ گیلریاں نہیں بنائی جس سے عوام کا آرٹ سے مضبوط رشتہ قائم ہوسکے۔

میں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے جو آرٹسٹ عام آدمی تک رسائی حاصل کرتا ہے وہ بہت بڑا آرٹسٹ ہوتا ہے۔ جیسے دوستوفیسکی جب فوت ہوا تو پچاس ہزار لوگ اس کے جنازے میں تھے۔ ٹالسٹائی ہمیشہ ایک صوفی آدمی کے روپ میں رہا۔ وہ ایک دفعہ کسی ریلوے اسٹیشن میں گیا تو انسانوں کا جم غفیر ادھر امڈ آیا۔ٹالسٹائی اور چیخوف وغیرہ پہلی پود تھی جس نے فرانسیسی کی بجائے روسی زبان میں لکھنا شروع کیا تاکہ زیادہ انہیں لوگ پڑھ سکیں۔

حکومت خاص طور پر حکومت پنجاب کو آرٹ اینڈ کلچر کی پالیسی بنانی چاہیے اور اس کا بجٹ رکھنا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں ایک سکریٹری چیئرمین آف پنجاب آرٹ کونسل ہوتاہے ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ ایک بیوروکریٹ کا اس عہدے سے کیا کام ۔ سکریٹری انفارمیشن کلچر کے فنڈزکو وزیراعظم اوروزیراعلیٰ پنجاب کو خوش کر نے کے لیے ایڈورٹائزنگ میں خرچ کر دیتا ہے حالانکہ یہ آرٹسٹوں کا پیسہ ہے۔ حکومت ڈی جی پی آر کے ردی لوگوں کو آرٹس کونسلوں میں بھیج دیتی ہے۔ ان میں جو اچھے لوگ ہیں انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔میڈیا کا بڑا حصہ بھی اب کلچر مافیا کو پروموٹ کرتاہے ۔ اخبار کا کام ہے جو ہوا ہے اس کی خبر دینا۔یہ درست نہیں کہ دو آدمیوں کے چوٹ لگ جائے وہ تو خبر ہے لیکن دو مر جائیں تووہ خبر نہیں۔

طویل عرصے بعد فوج نے اپنے ادارے سے کرپشن ختم کرنے کا آغاز کیا ہے اس کے بعد سے ملکی سیاست بھونچال کا شکار ہے آپ مستقبل قریب میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھتے ہیں؟
یہ سوال ہر شخص کے ذہن میں ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ فوج نے ہمارے ملک پر نصف سے زیادہ عرصے تک حکومت کی ہے اور یہ بہت منفی تجربہ تھا۔جو پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اس کی بڑی وجہ فوج ہی ہے۔ جیسے ون یونٹ کا بننا، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن اور اس کا الگ ہونا۔

موجودہ صورت حال میں مجھے لگتا ہے کہ آرمی کا رویہ سول سوسائٹی کے ساتھ بہت دوستانہ نہیں ہے۔ خاص طور پر انہوں نے بہت سے اینٹی پیپلز پارٹی اقدامات کئے ہیں۔ دوسری طرف اگر یہ کلین اپ ہوتا ہے تو دوسری جماعتوں سے بھی کوئی امید نہیں ہے۔ مذہبی پارٹیاں تو باہر سے پیسے لے کر کام چلاتی ہیں۔ ہماری پارٹی گھٹنے گھٹنے کرپشن میں دھنسی ہوئی ہے۔میں تو کہتا ہوں پیپلز پارٹی تو مجھے چھوڑ کر بھاگ گئی ہے اور وہ اب صوبائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔

راحیل شریف کایہ اقدام ایک واضح پیغام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ثابت ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم نے کرپشن کی ہے تو ایک صورت یہ ہے کہ کوئی نیا وزیر اعظم لایا جائے۔ میرا خیال ہے شریف خاندان نے اپنے اندر تو ایسی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم پر کیس چلتا ہے تو انہیںاس دوران چلے جانا چاہیے۔اگر وہ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں تو واپس آ جائیں ۔ اس عرصے میں گورنمنٹ توڑنے کی بجائے مجموعی اتفاق رائے سے نیا وزیراعظم بنایا جائے۔اگر یہ لوگ اس کے راستے میں مشکلات پیدا کرتے ہیں تو ایک نئی عبوری حکومت بنا دی جائے اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔

آرٹسٹ سکون چاہتا اور ہماری سیاست تو ہمیشہ ہنگامہ خیز رہی ہے، آپ اس کا حصہ ہوتے ہوئے کیسے آرٹ کو وقت دے پائے؟
میں سمجھتا ہوں سیاست میں آنے کے بعد ہی مجھے موضوع ملنے لگے ہیں ورنہ میں بھی وہی روایتی کام کرتا رہتا ۔جو چیزیں مصور نہیں کر پاتا وہ لکھ لیتا ہوں ۔ میں سیاست اور آرٹ میں کوئی اختلاف نہیں سمجھتا۔

آرٹسٹ کے سامنے اس وقت دو راہیں ہیں۔ ایک تو وہی سرمایہ داری کی تقسیم کرنے والی فطرت کہ کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی انجینئر ہے تو کوئی کچھ اور ہے ۔اس کے برعکس ہمیں معاشرے کواکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ صورت حال میں پرانی پروفیشنل اکائی کو توڑ کر نیا فنکار ابھر رہا ہے جو زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی سرگرم ہے۔ وہ مجسمے بھی بناتا ہے شہری ہونے کے ناتے اس کے دوسرے شہریوں کے ساتھ کئی طرح کے تعلق بھی ہیں۔ بلھے شاہ سے بڑھ کون سیاسی ہو گا جو لوگوں کے اتحاد کی بات کرتا ہے۔ شاہ حسین جس نے دُلا بھٹی کو گھر میں جگہ دی۔وہ مغلوں کے خلاف تھا۔ شاہ حسین کی شاعری عورت سے ہی شروع ہوتی ہے۔دیکھیے '' مائے نی میں کینوں آکھاں'' مطلب یہ کہ وہ سماجی شعور رکھتے تھے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ آرٹسٹ اپنی ذات میں مگن ہوتے ہیں ،یہ فضول بات ہے۔

کچھ اولاد اور شریک حیات کے بارے میں بتائیے؟
بڑا بیٹا میاں احمد حسن کارڈیالوجسٹ ہے اور اب امریکا میں مقیم ہے۔بچپن میں والد کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں شامل رہا یہی وجہ ہے بیرون ملک ہوتے ہوئے بھی اس کی پاکستانی سیاست میں بہت دلچسپی ہے۔ بیٹی مِنیٰ حسن نے اکنامکس اینڈ گورنمنٹ لندن یونیورسٹی سے پڑھی ہے ۔کچھ عرصہ 'فرائیڈے ٹائمز' میںکام کیا۔ پھر وہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ساتھ وابستہ رہی اورا ب شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں۔ تیسرے بیٹے طارق حسن نے پہلے مشی گن میں اکنامکس پڑھی اور لندن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد ہاروڈ سے اس نے ایل ایل ایم کیا ۔اب ان کی لاہور ہی میں اپنی لاء فرم ہے۔

بیگم ڈاکٹر مسرت حسن بھی مضبوط سیاسی پس منظر کی حامل ہیں۔وہ خود پنجاب اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ ان کے دادامیاں عبدالعزیز مال واڈا لاہور کے پہلے میئر تھے۔بڑے جی دار شخص تھے۔جب انگریزوں کے ولی عہد پرنس آف ویلز نے یہاں آنا تھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا کوئی رسمی استقبال نہیں کرے گا ۔ اور یہ سن کر وہ لاہور آیا ہی نہیں ۔ دوسرے ادھر میوزیم اور ٹولنٹن مارکیٹ کے درمیان ایک مجسمہ ہوتا تھا جس کی تختی پر لکھا تھا'' آپ پر قلم کے ذریعے حکمرانی کی جائے یا شمشیر کے زور پر'' انہوں نے وہ توڑ دیا حالانکہ اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی۔ مال روڈ پر لگے پیپل کے درخت انہی کے دور میں لگے ہیں ۔ وہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ علامہ اقبال کے دوست تھے ۔ ''شکوہ'' کا ٹائیٹل بھی انہی تجویزکیا تھا۔میری زندگی کی بہت ساری کامیابیاں ایسی ہیںجو مسرت کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔

کیمبرج میں گذرے شب وروز
میری والدہ کا خیال تھا کہ میں انگلش لٹریچر پڑھوں۔ والد بہرحال اس پر اتنا اصرار نہیں کرتے تھے۔ میں ذرا متذبذب تھا کہ شوق پورا کروں یا کچھ آگے پڑھوں۔بہر کیف میں نے گورنمنٹ کالج سے ایم اے انگریزی کیا۔ اس کے بعد خواہش ہوئی کہ کیوں نہ ولایت جاکر آرٹ پڑھا جائے۔ میرے والد بہت عظیم آدمی تھے۔مجال ہے یہ بات سن کر ان کے چہرے پر کوئی شکن آئی ہو۔ انہوں نے مجھے بھیج دیا۔ اس زمانے میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے۔ اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو کبھی نہ بھیجتا۔

پہلے سال تو وہاں میرا بالکل بھی جی نہیں لگا ۔ ان کے پینٹنگ پڑھانے کے انداز سے میں متنفر ہو گیا اور چھوڑنے کا ارادہ کر لیا۔ شاید انہیں بھی اس کا اندازہ ہو گیا تھا ،اس لیے انہوں نے میری چھٹی کرا دی۔ میں وقتی طور پرخوش ہوالیکن پھر خیال آیا کہ گھر سے آیا ہوا ہوں ،ایسے ہی کیسے واپس چلا جاؤں۔



میں نے کیمبرج میں ایک بار پھر انگریزی پڑھنے کے لیے اپلائی کر دیا۔ کیمبرج کا انگریزی کا شعبہ بہت مضبوط تھا۔ دس پندرہ دن بعد مجھے انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا۔ وہ بڑا ہی دلچسپ انٹرویو تھا۔ مجھے وہ کمرہ یاد ہے جس میں کچھ پروفیسر بے ترتیبی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے بالکل بھی احساس نہیں ہوا کی یہ انٹرویو کا ماحول ہے۔ ان میںسے ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا مسٹر حسن!ہمیں آپ کے بارے میں ہم متجسس ہیں اسی لیے آپ کو یہاں آنے کی تکلیف دی، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ ایک آرٹس سکول چھوڑ کر ہمیں کیوں جوائن کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا مختصر یہ ہے کہ انہوں نے مجھے نکال دیا ہے۔اس پر وہ بہت ہنسے۔

ایک دلچسپ بات یہ کہ وہاں کالج آپ کو پڑھاتا نہیں ۔ آپ کو اپنے سپروائزر کے تحت کام کرنا ہوتا ہے وہ آپ کے لیے کتابیں تجویز کرتا ہے یعنی متعلقہ چیزوں تک رسائی کو آسان بنا دیتا ہے۔اس طرح اس خاص موضوع کی بہت اچھی تیاری ہو جاتی تھی۔ جو کام یہاں کرنے میں ہمیں ایک ٹرم لگتی تھی وہاں ہم ایک ہفتے میں سمیٹ لیتے ہیں۔

جب رومانٹنک شاعری کے لیکچرز ہورہے تھے تو ہمیں بتایا گیا کہ رومانٹنگ شاعری میں جو انسان دوستی ہے،اس کا بنیادی محرک مزدور تحریکیں ہیں۔اس وقت پہلی بار نظموں کے حقیقی پس منظر کا مطالعہ کیا۔ وہاں پر مجھے کیٹس کی اوڈز(Odes) دیکھنے کا موقع ملا ۔ انہوں اصل مسودہ کھول کر میرے سامنے رکھ دیا۔ مطلب یہ کہ اسٹوڈنٹس کو ہر طرح کی سہولت میسر ہے۔ میں نے دیکھا کہ ان اوڈز میں قطع برید کا عمل نظر آتا ہے۔ دراصل آرٹ ہوتا ہی وہ ہے جس میںمحنت نظر آئے ۔

میں نے وہاں تھیٹر بہت دیکھا۔ہم تین چار لوگ لند ن جاتے اور صبح چار بجے تک پلے دیکھ کر واپس کیمبرج آ جاتے تھے۔ آرٹ میں جب آپ کا تخیل شامل ہوتا ہے تو رنگوں کے ساتھ ساتھ آپ کو خوشبو کا احساس بھی ہونے لگتا ہے۔ میں نے وہاں کے تھیٹر میںاسی قسم کی چیز محسوس کی۔ برناڈشا اور چیخوف وغیرہ کے کھیل دیکھے۔ اس تجربے نے میرے ذہن کی بہت سی راہیں کھولیں۔

ان دنوں اینٹی بم موومنٹ بھی چلی ہوئی تھی اور ہِپی(hippy) کی تحریک بھی زوروں پر تھی۔ اس کے ساتھ اینٹی وار تحریک شروع ہوگئی تھی۔ سٹیفن سپنڈر ان دنوں مشہور انگریزی رسالے 'اِن کاؤنٹر' کے ایڈیٹر تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ یہ رسالہ تو سی آئی اے سپانسرڈ ہے تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔اس زمانے میں سی آئی اے نے یہ روش اختیار کی ہوئی تھی کہ اہم لوگوں کو پروموٹ کیا جائے ۔ اس کا مقصد سرمایہ داری کا ایک انتہائی پڑھا لکھا چہرہ دکھانا تھا۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کی سرد جنگ کے دوران سی آئی نے کس طرح آرٹ کو استعمال کیا۔انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہاں تو بڑی آزادی ہے جبکہ روس میںپابندیاں ہیں اور وہاں پروپیگنڈہ آرٹ ہے۔ گویا جو آرٹ عوام کو موضوع بناتا ہے وہ پروپیگنڈا اور جو اپنی ذات کی تشہیر کر رہا ہے وہ آزادی کا عکاس آرٹ ہے۔

''مس سنگر کو اپنی ماں کی طرح یاد کرتا ہوں''
جب میں بورڈنگ میں داخل ہوا تو شروع کے دنوں میں ماں کی بہت یاد آتی تھی لیکن بعد میں میں اس ماحول کا عادی ہوگیا۔ میں اس موقع پر مس سنگر (Miss Singer)کو ضرور یاد کروں گا۔ وہ بورڈنگ میں ایل جی ہاؤس میں ہماری ڈورمیٹری کی انچارج تھیں۔ بہت ہی شفیق خاتون تھیں۔ میں امی ماں کو اکثر چھیڑتے ہوئے کہتا تھا کہ آپ نے تو مجھے بورڈنگ بھیج دیا ہے اب میری ماں وہی مس سنگر ہے۔

میں مس سنگر کو اب بھی اپنی ماں کی طرح یاد کرتا ہوں۔مس سنگر نے ہمیں چھوٹی بڑی ہر چیز سکھائی۔ صبح جاتے وقت وہ ہمارے ناخن ، کان ، ہاتھ وغیرہ دیکھتی تھیں کہ صاف ہیں یا نہیں۔ صاف رومال ساتھ لے کر جانے کی تاکید کرتیں۔ایک بار مجھے اسکول ٹائم کے دوران ڈورمیٹری میں جانا پڑا تو دیکھا کہ جہاں ہمارے چینجنگ رومز ہیں ان کے پاس مس سنگر ایک سٹول پر بیٹھی ہوئی ہیں اور نیچے انہوں نے درزی بٹھا رکھے ہیں۔ کوئی کپڑوں کو بٹن لگا رہا ہے توکوئی سلائی صحیح کر رہا ہے ۔ اس زمانے میں مجال ہے ہمارا کوئی بٹن ٹوٹاہو یا لباس میں کوئی عیب ہو۔

انہوں نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ کھانا کیسے کھانا ہے ۔ کانٹا منہ میں ڈالنا ہے تو منہ بند کر کے باہر نکالنا ہے۔ہفتے بھر کی چیزیں(پنسل ،شارپنر وغیرہ) جنہیں ہم چِٹ تھنگز کہتے تھے ،ایک چھوٹی سے کھڑکی سے وصول کرتے تھے۔ہم جب وہ چیزیں لینے جاتے تو مس سنگر اس وقت تک وہ اشیاء ہاتھ سے نہیں چھوڑتی تھیں جب تک ہم شکریہ ادا نہ کرتے ۔ اس تربیت نے مجھے ساری زندگی بہت فائدہ دیا۔یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے مجموعی طور پر ہمیںلوٹا لیکن ان میں مس سنگر جیسے کئی بڑے لوگ بھی تھے جنہوں نے ہمیں بہت محبت اور محنت سے پڑھایا۔ n

دلچسپیاں
نثر اور ڈراموں میں بہت دلچسپی لیتے ہیں ۔ فکشن میں آگ کا دریا پڑھا ہے ، شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی کو اردو کا عظیم ناول کہتے ہیں ، کرشن چندر، منٹو ، انتظار حسین کے افسانوں کو بھی سراہتے ہیں۔ ماضی میں جو کچھ تاریخ اور آرٹ پرپڑھا ہے اب اس سب کے ایک مربوط مطالعے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خاص طور پر ایشین آرٹ کے حوالے سے غلط بیانیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں مقصود ہے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کرجنوبی ایشیا کی ایک سادہ تاریخ لکھنا چاہتے ہیں۔ شاعری کے بارے میں کہتے ہیں ایسا کوئی نہیں جس نے زندگی بدل کر رکھ دی ہو۔ساحر لدھیانوی کو بہت متاثر کن شاعر سمجھتے ہیں جس کی چھاپ ان کے بقول فیض میں بھی ملتی ہے ۔

اعجاز الحسن کو فلموں کے کردار تو یاد ہیں مگر نام یاد نہیں ۔'جس فلم میں بھی مدھو بالاہوتی وہ ضرور دیکھتے تھے۔ دلیپ کمار ، اے جے کاردار کی فلمیں اور مغل اعظم کا نام لیتے ہیں۔ پاکستان کی فلموں میں علاؤالدین کی '' کرتار سنگھ'' کو لاجواب قرار دیتے ہیں۔پاکستانی فلم ''امراؤ جان ادا' کے آخری مناظر کو بہت یاد کرتے ہیں ، کہتے ہیں وہ یونانی ڈرامے کی طرح تھی ۔ نور جہاں کی ''کوئل'' کی بہت تعریف کرتے ہیں ، ساٹھ کی دہائی تک کی تقریباً سبھی انگریزی فلمیں دیکھ رکھی ہیں۔ گائیکوں میں سب سے پہلے روشن آراء کا نام لیتے ہیں '' وہ ایسے گاتی تھی جیسے جنت کی کوئی چڑیا گا رہی ہو''استاد نزاکت علی خان،استادسلامت علی خان کو بڑے ناموں میں شمار کرتے ہیں۔ ''نور جہاں موسیقی کا معبد تھیں۔ پٹھانے خان اور ریشماں کا میرا خیال ہے ، کوئی بدل نہیں'' طفیل نیازی کے '' ایے چڑیا ں دا چنبھا'' کو بہت سراہتے ہیں۔ عالم لوہار کا بہت محبت سے ذکر کرتے ہیں۔

کہتے ہیں تقسیم کے فوراً بعد جدت پسندی کا رجحان تھا۔ اب تو شور شرابہ مگر موسیقی نہیں ہے۔عنایت حسین بھٹی کا بہت محبت سے نام لیتے ہیں ْ''نصرت فتح علی، فریدہ خانم جیسا کون گا سکتا ہے ''، اقبال بانو ایک منفرد گلوکارہ تھیں،انڈیا میں تو بڑے غلام علی خان، شہنائی پر استادبسم اللہ خان اور پنڈت بھیم سین جوشی ،کو سنا ہے۔ طبلہ نوازاستادشوکت حسین کے بہت معترف ہیں۔کہتے ہیں پہلی بار دیکھا کہ ایک آدمی طبلے پر مجسّمے کی طرح بیٹھا تھا اورصرف انگلیاں تھرکتی تھیں۔

ایک بار علماء کے ایک وفدکے ساتھ مدرسے کی تعلیم کے مشاہدے کے لیے ترکی اور مصر گئے۔ وہاں ایک گھر میں ہم ٹھہرے۔ جہاں میزبان باپ بیٹا اکٹھے رہتے تھے۔ بیٹے نے اسلامی مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد میوزک میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی تھی۔ وہاں چلتے پھرتے جب اذان کی آواز کانوں میں آتی تو جہاں بھی ہوتے وہیں بیٹھ جاتے۔اس کے صوتی حسن کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ استفسار پر انہیں بتایا گیا کہ وہاں صبح کی اذان صبح کے راگ میں ہوتی ہے اور رات کی درباری میں ہوتی ہے۔' خدا کی قسم وہ اذان یہاں ہو رہی ہو تو سڑکوںپرکاریں رک جائیں'یہ ایک عجیب روحانی تجربہ تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔