کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالکپانچواں حصہ
امریکی ڈالر کے مقابلے میں جس ملک کی کرنسی کی قیمت کم ہو جاتی تھی
امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران یورپی ملکوں کے مالیاتی و معاشی بحران کے دوران کاغذی ڈالر داخل کر کے سونا حاصل کر لیا تھا جس پر ان ملکوں کے معاشی بحران نے شدت اختیار کر لی۔ یورپی ممالک میں کرنسیوں کے تبادلے اور تجارت ختم ہو چکی تھی۔ اس وقت امریکا واحد ملک تھا جو 20.67 ڈالر فی اونس سونا کے معیار پر کھڑا تھا۔ یورپی ملکوں نے اعتماد کے ساتھ ڈالروں میں کاروبار کرنا شروع کر دیا تمام یورپی ملکوں میں بے تحاشا امریکی کاغذی ڈالر داخل ہو چکے تھے۔ امریکا نے ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں مقرر کرنا شروع کر دیا اور اس کے بدلے سونا لے رہا تھا اور اپنی سرپلس اشیا کی ایکسپورٹ بڑھا کر مزید سونا اکٹھا کر لیا۔ Currency Devaluation Minus Economic Development عالمی معیشت میں یہ ہتھکنڈہ پہلی بار سامنے آیا۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں جس ملک کی کرنسی کی قیمت کم ہو جاتی تھی اس ملک کی ایکسپورٹ کم اور امپورٹ بڑھ جاتی تھی یورپی ملکوں کے لیے اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قیمت کو بڑھانا ضروری ہو گیا۔ اس کے لیے امریکا نے ان سے سونا لینا شروع کر دیا تھا۔ امریکا نے عالمی تاریخ میں پہلی بار 15 دسمبر 1923ء کو Exchange Equalization Fund کا ادارہ قائم کر کے باقاعدہ یورپی ملکوں کے مالیاتی سسٹم کو ڈالرائز کر دیا۔ یہ EEF کا ادارہ یورپی ملکوں کی کرنسیوں پر ڈالر ٹیکس لگا کر ان کی معیشتوں کی تجارت اور بجٹ کو خسارے میں بدل کر پھر ان خساروں سے نکلنے کے لیے امریکا نے ادارے EEF سے قرضے دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے 1940ء میں موجودہ آئی ایم ایف کا ادارہ اور ورلڈ بینک بنانے کے پلان پر عمل شروع کر دیا تھا۔ اور 27 دسمبر 1945ء کو EEF کی جگہ IMF اور ورلڈ بینک کے ادارے بنا لیے گئے۔ امریکا نے EEF کے پلیٹ فارم سے یورپی ملکوں کو اچھی طرح لوٹا تھا۔ اس کے بعد دسمبر 1945ء کو پوری دنیا کے ملکوں کو امریکی سامراج کا معاشی غلام بنانے کا عمل شروع کر دیا۔ ممبر ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں آئی ایم ایف مقرر کرنے لگا۔
پاکستان کا روپیہ جون 1955ء کو 3.340 روپے کا ڈالر تھا۔ ملک کے حکمرانوں نے جولائی 1955ء کو سامراجی ادارے کے کہنے پر روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 43 فیصد کم کر دی۔ اس سے بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ مسلسل شروع ہو گیا۔ پھر دوبارہ مئی 1972ء میں حکمرانوں نے 4.762 سے 11.031 روپے کا ڈالر کر دیا۔ روپے کی قیمت میں یہ کمی 132 فیصد تھی۔ اسی نسبت سے بجٹ اور تجارتی خسارہ بڑھ گیا۔ اس کے بعد سامراجی ادارے نے پاکستان کو ان خساروں سے نکلنے کے لیے مہنگے قرض دینے شروع کر دیے اور پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے نام پر حکمرانوں نے عوام کی قوت خرید پر بوجھ بڑھانا شروع کر دیا۔ اس طرح آج کرہ ارض پر جتنے ممالک معاشی غلام ہیں ان ملکوں کے عوام غیر اعلانیہ سامراجی ڈالر ٹیکس اور ملکی حکمرانوں کو ''ملکی ٹیکس'' اپنی قوت خرید سے ادا کر رہے ہیں۔
فلسفی ماہر قانون خادم تھیہم کہتا ہے کہ ''ڈالر سے جڑی تمام معیشتیں اس وقت تک خساروں کا شکار رہیں گی جب تک ڈالر کی قید سے آزادی نہیں حاصل کر لیتیں''۔ سامراجی امریکا ایک طرف ترقی پذیر ممالک کو جمہوریت کا سبق سکھاتا ہے لیکن حقیقتاً یہ معاشی غلام ملکوں کے عوام کو ملکی اشرافیہ کا جمہوری غلام بنانے میں اشرافیہ کی بھرپور مدد کرتا ہے۔ امریکا نے جس جس جگہ عوام اور ملکوں میں تضاد دیکھا، اس تضاد کو بڑھا کر ایسے ملکوں کو ان کے اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد کرنے کے طریقے پر ''پراکسی وار'' کر رہا ہے۔
شام میں چند ہزار باغیوں کو مدد کر کے امریکا نے اس پورے خطے کو آگ میں جھونک دیا۔ جس کے نتیجے میں اس خطے کے عوام یورپی ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور پھر یورپی ملکوں نے ایسے تباہ حال لوگوں کو اپنے ملکوں میں اپنی ضرورت کے مطابق جذب کر لیا۔ کیونکہ یورپی ملکوں کو ان ملکوں کے تازہ نوجوان خون کی ضرورت تھی۔ ایک طرف سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں معاشی غلام ملکوں کے عوام کی قوت خرید کو ہڑپ کر رہی ہیں دوسری طرف جمہوری آقا، ''جمہوری غلام عوام'' کا خون ٹیکسوں کے ذریعے نچوڑ رہے ہیں۔
یہ سب انسانی ذات کی خدمت کے دعویدار ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنا سامراجی امریکا اور یورپی ملکوں کے حکمرانوں نے کرہ ارض پر بسنے والے اربوں انسانوں کا خون نچوڑا ہے شاید کوئی درندہ بھی ایسا نہ کر سکا ہو گا۔ اب عوام کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ ''عوام جمہوری غلامی'' کی زنجیروں کو کاٹ دیں اور معاشی آزادی ان ظالموں سے چھین لیں کیونکہ لا آف یونیورس میں معاشی آزادی اور جمہوری آزادی ہی عوام کا حق ہے اور یہ ''عوامی انقلاب'' کے ذریعے ہی ممکن ہے۔'' راقم خادم تھیہم کے نظریات سے اتفاق کرتا ہے۔
لیکن آج کے دور میں اشرافیائی طبقے کی اشرافیائی جمہوریت کی تبلیغ میڈیا میں دانشور طبقہ بڑے زور و شور سے کرتا ہے۔ عوام کو حقیقت سے دور کر دینے کی سازش میں اشرافیہ کا شریک کار ہے۔ سرمایہ دارانہ سسٹم میں عوام کی خوشحالی کا خواب تو موجود ہوتا ہے۔ لیکن نتیجتاً عوام کی خوشحالی کی نفی ہو جاتی ہے۔ سرمایہ داری میں ''شخصیت پرستی'' اور ''زر پرستی'' صدیوں سے موجود ہے۔ محلے کی سطح پر اشرافیائی نمایندگی محلے میں موجود ایسا شخص کرتا ہے جس کی رسائی تھانہ کچہری اور بااختیار و اقتدار اشرافیہ تک ہوتی ہے۔
محلے کے لوگ اس ایجنٹ سے اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلے شیئر کرتے ہیں۔ اس طرح کڑی در کڑی عوام اوپر سے لے کر نچلی سطح تک ایک زنجیر میں جکڑے رہتے ہیں۔ عوام وعدوں، خوابوں میں زندہ رہنے کے عادی ہیں۔ حالانکہ زمینوں، کارخانوں، فیکٹریوں کے مالک عوام ہیں۔ سرمایہ دارانہ سسٹم میں صلاحیت کی بنا پر کسی فرد کو حق نہیں ملتا ہے بلکہ صلاحیتوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے ''زر'' کی دیوار کھڑی کر دی گئی یعنی سرمایہ پرست نوسرباز، بے رحمی سے، زر اکٹھا کر کے وہ کچھ خرید سکتے ہیں جو کوئی بھی باصلاحیت انسان خرید نہیں سکتا ہے۔
پورا معاشرہ اوپر سے نیچے تک زرپرست بنا دیا گیا ہے۔ اوپر اونچی کرسیوں پر بیٹھے Dragon یا Monster اپنی رسائی تک اپنے جیسے سرمایہ پرست بناتے ہیں پھر یہ اپنے سے نچلے دائرے تک ڈریگون بناتے ہیں۔ اس طرح زرپرستی ایک فقیر تک نیچے نچلی سطح تک پہنچی ہوئی ہے۔ سرمایہ داری سسٹم کی سب سے بڑی خامی سرمائے پر سرمایہ بڑھانا ہوتا ہے۔ صنعتکار اگر یہ سوچ کر صنعتکاری کر لے کہ اس نے زیادہ سے زیادہ عوام کو سستی اشیا دینی ہیں تو پھر یہ سرمایہ داری کے خلاف ہو جاتا ہے۔ (جاری ہے)