محنت کی عظمت
عالمی دنوں کے جمعہ بازار میں بہت کم دن ایسے ہیں جنھیں صحیح معنوں میں ’’عالمی‘‘ کہا جا سکتا ہے
عالمی دنوں کے جمعہ بازار میں بہت کم دن ایسے ہیں جنھیں صحیح معنوں میں ''عالمی'' کہا جا سکتا ہے۔ سفید فام اور کرسچین عقیدے کی حامل قوموں اور تہذیبوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر بہت سے ایسے دن بھی مختلف حوالوں سے عالمی قرار دے دیے ہیں جن کے بارے میں انسانوں کی غالب اکثریت ان سے اتفاق نہیں رکھتی۔ مثال کے طور پر مشترکہ خاندانی نظام یعنی Joint family System کے حامل بیشتر معاشروں کے لیے مدرز ڈے اور فادرز ڈے قسم کے دن اس لیے بے معنی ہو جاتے ہیں کہ ان کے لیے تو ہر دن ہی والدین سے محبت اور ان کی خدمت کا دن ہوتا ہے۔
کم و بیش یہی صورتحال ویلنٹائن ڈے کی ہے کہ اس کے تاریخی پس منظر کا تعلق صرف چند مخصوص علاقوں اور تہذیبوں سے ہے مگر باقی دنیا میں مغربی تمدن کی اندھا دھند تقلید کرنے والوں کی ایک محدود اقلیت نے اسے بھی ایک عالمی دن کے طور پر منانا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح بہت سے ''دن'' ایسے ہیں جن کی حیثیت علامتی ہوتی ہے۔ عام طور پر ان کا تعلق عوام سے زیادہ حکومتوں اور عالمی برادری کے بین الاقوامی طور پر مشترکہ اور طے شدہ مقاصد سے ہوتا ہے۔ جیسے صحت، تعلیم، کتاب یا شاعری کے عالمی دن وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
مگر یکم مئی ایک ایسا دن ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں ریاستہائے متحدہ امریکا کے شہر شکاگو میں رونما ہونے والے ایک خاص واقعے کے حوالے سے مزدوروں کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے اور چونکہ مزدور ساری دنیا میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں اس لیے اسے صحیح معنوں میں ایک عالمی حیثیت مل گئی ہے اور مزدوروں کے حقوق اور محنت کی عظمت کے حوالے سے اسے ہر جگہ جوش و خروش اور باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔
اٹھارویں صدی میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب نے سرمائے اور محنت کے اشتراک کو ایک نیا روپ دیا۔ اس وقت مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام عالمی معیشت کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے ایجاد کر رہا تھا اور کوئی قابل ذکر مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے صنعتی مزدور اس کے ہاتھوں سے کٹھ پتلیوں کی طرح کھیل رہے تھے۔
اسلامی نظام معیشت سیاسی زوال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور سوشلزم اور کمیونزم ابھی تھیوری کی سطح پر صورت پذیر ہونے کے ابتدائی دور میں تھے۔ اندریں حالات مزدور اور اس کے حقوق کا نہ کوئی محافظ تھا اور نہ پرسان حال۔ سرمایہ داری کا دیو استبداد غریب، پسماندہ اور لاچار قوموں کے ساتھ ساتھ خود اپنے مجبور اور مزدور طبقات کا خون بھی بے دردی سے چوس رہا تھا اور صورتحال علامہ اقبال کے بقول کچھ یوں تھی کہ؎
بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات!
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات!
دست دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات!
ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ بنات!
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
''خواجگی'' نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات!
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
نظم ''خصر راہ'' کے ان چند اشعار میں اقبالؔ نے اس بہت گہرے، پیچیدہ اور اہم مسئلے کو جس خوب صورتی اور آسانی سے بیان کیا ہے وہ ان ہی کا حصہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دنوں میں تیسری دنیا تو کیا پہلی دنیا کے دانشوروں کے لیے بھی سرمایہ و محنت کی یہ کشمکش ایک پہیلی کی طرح تھی جس کا کوئی سرا ان کے ہاتھ میں نہیں آ رہا تھا۔ مزدور کی محنت کے اسی ظالمانہ استحصال کو میر تقی میرؔ نے کوئی ڈیڑھ صدی قبل اس طرح سے بیان کیا تھا کہ؎
امیر زادوں سے دلّی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں ان ہی کی دولت سے
لطف کی بات یہ ہے کہ اس شعر میں ''دولت'' زراندوزی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور اس میں ''بدولت'' کا کنایہ بھی پایا جاتا ہے یعنی ''ان کی وجہ سے'' یکم مئی 1884ء کو شکاگو کی سڑکوں پر جس طرح مزدوروں کا خون بہایا اس سے ایک نئی صبح کی ابتدا ہوئی۔ آج ساری دنیا اس دن کو محنت کی عظمت کے حوالے سے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھتی اور سراہتی ہے لیکن کتنے ہیں جن کا دھیان سرمایہ و محنت کی اس جدید شکل کے ہنگامہ سے صدیوں پہلے کہی ہوئی اس تاریخ ساز بات کی طرف بھی جاتا ہے کہ ''مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری اسے ادا کر دو''