استبدادی گِرگٹ جدیدتحقیقات ونظریات

چونکہ مغربی نظام تمدن میںجنسی بے راہ روی کے نتیجے میں Divorced افراد کی تعداد بڑھ گئی تھی



BAHRAIN SWAT: حرام حلال اور Piggy Civilisation:اس میں کسی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ موجودہ انسان اپنے حالیہ ارتقائی مرحلے کے بھی اس اختتامی دور میں داخل ہوچکا ہے کہ جہاں وہ اپنی تاریخ کے صدیوں پرانے فوق الطبع وفوق المادہ نظریاتی انداز واطوارکو نئے مغربی نظام تمدن اور انتظام معاشرت کی جدید شکل میں ڈھالے ہوئے ہے جو کرہ ارض پر قومی تشخص میں بٹے تمام انسانی گروہوں میںمقبول ترین نظریات بنتے جارہے ہیں۔ ان نظریات میں مادی طور پر احاطہ عقل کی دسترس میں نہ آنے وا لے پہلوؤںکو مافوق الطبع اور مافوق المادہ تصورکیا جاتا ہے۔

تین چوتھائی یا ایک تہائی پانی وخشکی پر مشتمل کرہ ارض کی اجزائے ترکیبی وعناصرخمیری کے ترجمان جسم انسانی کی زندہ وجاوید دلیل موجود ہونے کے باوجود اسے گندھی ہوئی مٹی سے بنے، صاحب اسم الاسماء ہونے اور مسجود ملائکہ ماننے کی بجائے گوریلے کی وہ ترقی یافتہ نسل قرار دیا جاتا ہے، جس نے بقاء الاصلح کے نظریے سے متعارف کردہ (قیاسی وفرضی مادی) اصولوں کی روشنی میں حیوان ناطق کی شکل اختیارکرلینے کا ارتقائی مرحلہ طے کیا ہوا ہے۔

مضحکہ خیز پہلو یہ کہ انسان کو بندرکی ترقی یافتہ شکل(نسل) ماننے والے جدید نظریات کے تخلیق کاروں کوآج انسانوں کی اکثریت نے قابل تقلید محقق ، مدبر، منتظم،حکیم، دانا اورعالم انسانیت کی قیادت کا حقدار تسلیم کرلیا ہے۔ جس کے نتیجے میںیہ نظریات ''عناصر میں ظہورترتیب کوحیات اور انھی اجزاء کے پریشاں ہونے کو موت'' کی سوچ کے تحت دن بدن اپنے جوبن کی جانب گامزن بھی ہے ۔اسی سوچ کے عملی اظہار کے لیے دنیا کے کونے کونے میں بسے انسانی گروہوں سے متعلق تارکین وطن کی بہت بڑی افرادی قوت سے آباد کیے گئے ملک متحدہ ریاست ہائے امریکا میں ایک ایسا نظام تمدن رائج کردیا گیا ہے کہ جس میں Gayاورlesbo سمیت کئی ایک دیگر خراباتی ''کامیاب تجارب ''کے بعد اب ایک ہی چھت کے نیچے ایک عورت کو دو شوہروں کے ساتھ رہنے کا قانونی حق تسلیم کیا اور دیا جاچکا ہے اور وہاںاس روایت کی تیزی سے تقلید بھی کی جانے لگی ہے۔

چونکہ مغربی نظام تمدن میںجنسی بے راہ روی کے نتیجے میں Divorced افراد کی تعداد بڑھ گئی تھی اور ان کے ہر ایک خاندانی رشتے کے ساتھ Stepکے اضافے نے ہولناک اوربھیانک انداز کے نئے خرابات کو جنم دینا شروع کردیا تھا۔جس کے نتیجے میں مغربی مادہ پرست محققین ومنتظمین ِمعاشرہ کوگھریلو زندگی کا عملی طور تقریباََ خاتمہ نظر آنے لگا تھا جس کے نتیجے میں معاشرتی مسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ ریاستی وسائل اور حکومتی کاروبار بھی متاثر ہونے لگے تھے ۔

اس لیے''ایک عورت دوشوہر خوش وخرم گھرانہ'' کا نیا'' تجرباتی '' تصور رائج کردیا گیا ہے ۔ قابل فکر نکتہ یہ کہ یہ اصول انھوں نے Pigخنزیر کے طرز زندگی سے مستعار لیا ہے۔اس کے مدمقابل ایشیائی ممالک خصوصاََ مسلمان ممالک میں رشتوں کے تقدس کے لحاظ سے خنزیرPigایک غلیظ اور خبیث ترین علامت کے طور پہچانا جاتا رہا ہے ۔ جب کہ ایشیاء کے ہندوستان سمیت مغرب میں بہت بڑ ے پیمانے پرخنزیرکی افزائش کا وسیع اہتمام کر کے ان کے گوشت اور چربی کابہت بڑے پیمانے پراستعمال کیا جاتا ہے۔

ایسی صورتحال میں مادہ پرست محققین کوان کی محققانہ جگر سوزیو ں کے نتیجے میں انسان کوصحت مند سرگرمیوں اور تعمیری سوچ کی جانب مائل رکھنے کی سیکڑوں نہیں ہزاروں کرشماتی تحقیقاتی ادویات وخوراک کی شکل لیے مصنوعات کی موجودگی کے باوجود ان کو چھوٹی سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ''جناب ادویات وخوراک اپنی تاثیرکے لازمی وحتمی نتیجے کے طور پر انسانی طبیعت کو اپنی خصوصیات اپنانے کی جانب مائل رکھتی ہیں '' اورانھی خطوط کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا میں سب سے زیادہ افرادی قوت رکھنے والے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے صاحب عمل محققین ِمادہ ومافوق المادہ، منتظمین معاشرت وتمدن اورکامل حکیم ِ فطرت ِانسان وکائنات (انبیائے کرا م علیہ والسلام) نے ہزاروں برس قبل مشترکہ طور پر حلال اور حرام کی فہرست جاری کردی تھیں ۔

جب کہ آج خودمادہ پرست محققین،خنزیر کے گوشت کو انسا نی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دینے میں مصروف ہیں ، لیکن برسہا برس سے انھوں نے خنزیرکا جوگوشت اور چربی کھائی ہوئی ہے وہ اب ان کی نسلوں میں خون بن کر نہ صرف دوڑ رہا ہے بلکہ ان کے نظام تمدن کو دیکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ ان کی''خوراک '' نے انھیں اپنی خصوصیتوں کا حامل بھی بنا دیا ہے ۔لیکن حیرت میں ڈالنے والی بات ہے کہ خنزیر کو گھر میں پالنے کے تصور سے ہی لرزہ براندام مسلمان خنزیری خصوصیات کے حامل مغربی نظام تمدن کو نہ صرف اپنے ذہنوں اورگھروں میں پالے ہوئے ہیں، بلکہ اپنے بچوں کوSweet Piggy Toysگفٹ کرتے پھولے نہیں سماتے ۔

استبدادی ارتقاء اور بیچارہ گرگٹ: استبداد کے لازوال ولاثانی مشہورعالم نام فرعونیت کی ابتداء کی بابت مکمل معلومات تو تب حاصل ہوںگی جب اہرام مصر سے برآمد ہونے والی تحریرکو پڑھا جانا ممکن ہو گا، لیکن بحیثیت مسلمان، عیسائی اور یہودی اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تہذیب فراعین کا خاتمہ بقائے حیات وکائنات کے اساسی اصولوں (یعنی نظام ربوبیت) پر تحقیقات کرتے ہوئے دریائی ریلے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی گوشت کو صدیوں تک پانی میں پڑے رہنے کے باوجود گلنے اور سڑنے سے محفوظ رکھنے کے عملی مظاہرے دکھانے والے حضرت موسیٰ ؑنے کیا تھا ۔ تہذیب فراعین کے آغازکا وقت آج سے لگ بھگ 7000ہزارسال قبل بتایا جاتا ہے ، جب کہ اس تہذیب کا خاتمہ پندرہ سو قبل مسیح میں ہوا تھا ۔

اس لحاظ سے کرہ ارض پر استبداد پر مبنی پہلے طویل ترین عرصہ تک تابندہ رہنے والے نظام تمدن اور انتظام معاشرت کا سہرا تہذیب فراعین کے سر پہنایا جائے تو شایدکسی دیگر مادہ پرست تہذیب کی قدامت پر ایمان رکھنے والوںکواس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔یعنی جس وقت ارض فلسطین میں قوانین مادہ کو مسخر کرنے کے ساتھ ساتھ انتظام معاشرت وکائنات کے بنیادی محققانہ نتائج حاصل کرتے ہوئے لگ بھگ2000 قبل مسیح میں حضرت ابراہیم نظام تمدن وانتظام معاشرت کے محققانہ نفاذ کی غرض سے تہذیب بیت المقدس اور انتظام کائنات کے آفاقی نظریے کی بنیاد پرتہذیب خانہ کعبہ یعنی دو تہذیبوں کا قیام عمل میںلانے جا رہے تھے توتاریخ میں اس وقت تک تہذیب فراعین اپنے شباب پر تھی ۔

شاید کرہ ارض پرسب سے درخشاں ،طاقتوراور ترقی یافتہ تہذیب کے طور پر چاروں عالم اپنا دبدبہ قائم کیے ہوئے تھی ، جب کہ تحقیقات ابراہیمؑ کا حسن ا پنے پر نور چہرے پر سجائے حضرت یوسف ؑ نے مصر میں ثابت کیا کہ استبداد مادی بنیادوں پراپنے بہترین کارناموں میں لاثانی اور عظیم الجثہ مقبرے تو بنوا سکتاہے ،لیکن کاروبار معاشرت چلانے سے وہ یکسر قاصر ہے۔یہی وجہ تھی کہ لگ بھگ 1900قبل مسیح میں حضرت یوسف ؑ مصر میں وارد ہوئے تو استبدادی فراعین اتنے لبرل ہو چکے تھے کہ عملی طور پر فرعون کے غلاموں کو بھی غلام رکھنے کی اجازت تھی۔

موجودہ استبدادی واستعماری ترقی یافتہ تہذیب کے غلاموں کو بھی آج غلام رکھنے اور ہوشربا عمارتیں بنوانے کی اجازت ملی ہوئی ہے اورموجودہ استبداد اتنا لبرل ہوچکا ہے کہ وہ اپنے متعارف کردہ نظام تمدن کے لیے اپنے غلاموں کی نفری پر مشتمل امریکا جیسا ملک ماڈل کے طور پر تیارکرنے کے ساتھ ساتھ پانامہ، ہانگ کانگ کے بعد اب دبئی جیسے شہر آباد کر کے مختلف ممالک ہائے کرہ ارض میں پھیلے ان کے غلاموں کے آرام وآسائش کے لیے جنت ارضی جیسا سماں باندھ دیا گیا ہے اور اس جنت ارضی کے مزے لوٹنے کے لیے ان غلاموں پر ریاستوں میں لوٹ کھسوٹ کرتے رہنے کی بنیادی شرط لاگو ہے جسے وہ انتہائی ایماندارانہ انداز میں ادا کرتے ہوئے مزے لوٹنے میں مگن ہیں ۔ حیرت انگیز بات کہ کرہ ارض کے موجودہ استبدادی واستعماری ہرے بھرے شجر پر مذہب ، سائنس ، فلسفہ،جمہوریت ، سیکولر ازم، نیشنل ازم ، لبرل ازم،کمیون ازم ،سوشل ازم، ترقی پسندی، وسیع النظری اور استبدادی سیاسی تقاضے کے نام کی ڈالیوں پر بیٹھے ان غلاموں کی جانب سے بہ یک وقت یکساں طور پر ہر ڈال پر مطلو بہ رنگ اور ڈھنگ اختیارکر لینے کی صلاحیت نے تو بیچارے گرگٹ کو بھی شرمندہ ہونے پر مجبورکیے رکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں