میثاق جمہوریت کے مزید متوقع ثمرات

تبدیلی اس امرکا نام ہے کہ عدل و انصاف خود غریب وکمزورکی دہلیز تک پہنچے


[email protected]

جس دن ہمارے ملک میں آئین اور قانون کی حقیقی بالادستی قائم ہوگئی اور ایک غریب وکمزورکی طرح امیر اورطاقتور بھی اپنے جرم کی پاداش میں قانون کے شکنجے میں باآسانی جکڑا جائے گا اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا، عدل و انصاف اور مساوات کا دور دورہ ہوگا، اس دن حقیقی معنوں میں وطن عزیز میں تبدیلی کا سفر شروع ہوگا۔

تبدیلی اس امرکا نام ہے کہ عدل و انصاف خود غریب وکمزورکی دہلیز تک پہنچے، حکمران وقت بھی جرم کا مرتکب ہو تو اسے عدالت کے کٹہرے میں بلاامتیاز کھڑا کیا جائے اور جج بلا خوف وخطر اور تمام تر مصلحتوں سے آزاد اور دباؤ سے بالاتر ہوکر درست اور انصاف پر مبنی فیصلہ کرے خواہ وہ حکمران وقت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، حکمران وقت غریب عوام کے سامنے اپنے اعمال وکردار کا جوابدہ ہو،اس کے تمام اثاثوں، مال ودولت وجائیداد کاروبار اور ٹیکس کے گوشواروں کی تمام تر تفصیل عوام پر روز روشن کی طرح عیاں ہو، اس کی حب الوطنی کا معیار یہ ہو کہ زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں صرف پاکستان اس کی پہچان ہو۔

اس کا تمام پیسہ، کاروبار، رہائش، ٹیکس کی ادائیگیاں نیز تمام تر مفادات کسی غیر ملک کی بجائے اس وطن سے صرف اور صرف اس وطن سے ہی وابستہ ہوں، جو کڑے سے کڑے وقت میں بھی ساتھ نبھائے، ملک و قوم کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ نہ جائے، جو ایک عام آدمی کی طرح زندگی بسرکرے، پرتعیش نہیں بلکہ سادہ زندگی، اس کا محل نہیں ایک عام گھر ہو اور وہ عام گھر اور اس کا علاقہ بھی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ نہ ہو، جتنے گھنٹے ایک عام آدمی گرمی اور پسینے کا عذاب برداشت کرتا ہے وہ بھی کرے، بیمار پڑے تو سرکاری اسپتال میں جہاں بیس کروڑ عوام کا علاج ہوتا ہے اس کا بھی علاج ہو، عام آدمی کی طرح قطار میں لگے، بغیر پروٹوکول دھکے بھی کھائے، عام پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکرے۔

اس کو غروروتکبر اور احساس برتری چھوکر بھی نہ گزرے، نرم گداز مخملی بستروں کی بجائے چٹائی یا فرش پر سوئے، زرق برق لباس کی بجائے پیوند لگے کپڑے بھی میسرآجائیں تو خدا کا شکر ادا کرکے فخر سے زیب تن کرے، اس کے وزرا کی فوج ظفر موج نہ ہو، تنخواہیں اوردیگر مراعات آسمان سے باتیں کرتی نہ ہوں بلکہ صرف گزارے لائق واجبی وظیفہ ادا کیا جائے، جب سرعام گزر ہو تو ان کے لیے سڑکیں بند نہ کرائی جائیں ، میرٹ کا نظام ایسا شفاف ہو کہ سفارش قبول ہو نہ ہی رشوت کا راج چلے، غریب عوام کی لوٹی ہوئی بیرون ملک تمام تر دولت ملک میں واپس لائے، ایسا نظام بنائے کہ غیر قانونی طریقے سے کسی صورت بھی ملک کی دولت بیرون ملک کبھی منتقل نہ کی جاسکے۔

ایسا حکمراں جو مسلسل جھوٹ سنتی اس قوم سے اب کھرا سچ بولے،ایسا حکمراں جس کی تمام تر خوشی و غم، جینا و مرنا ہر حال میں بس اس ملک و قوم کے ساتھ ہو جس دن ایسا ہوگیا اس دن صحیح معنوں میں تبدیلی واقع ہوگی اور پورے اخلاص، سچائی اور لگن کے ساتھ تمام چھوٹے بڑے مسائل اور چیلنجز حل ہوجائیں گے۔ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پرگامزن ہوجائے گا۔ فی الحال تو ایسی مثالیں تاریخ اسلام کے اوراق میں محفوظ ہیں یا چند جدید مہذب معاشروں میں کچھ جھلک دکھائی دیتی ہے، ہمارے لیے انھیں اختیار کرنا مشکل ضرور ہے تاہم ناممکن ہرگز نہیں ہے بس تھوڑا اخلاص نیت اورحب الوطنی کے جذبے سے آشنائی کی ضرورت ہے۔

ہمارے وطن عزیز کو قیام کے روز اول ہی سے مختلف مسائل اور چیلنجز سے گھرے ہوئے 70 برس ہونے کوآرہے ہیں لیکن ہمیں آج بھی اندرونی مسائل اور بیرونی چیلنجزکا سامنا ہے، پانامہ لیکس کے انکشافات اگر ملک میں اندرونی ہلچل مچانے کے لیے کافی ہیں تو دوسری جانب بیرونی ہاتھ یعنی دشمن تاک لگائے بیٹھا ہے اور ہماری تباہی و بربادی کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ایسے موقعے پر بڑی دانش مندی کے ساتھ اس بحران کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بدعنوانی کا یقینا خاتمہ ضروری ہے تاہم خیال رہے کہ ملک کی سلامتی، آئین اور جمہوری نظام پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، سیاسی نظام کا تسلسل قائم رہے، اندرونی طور پر اصلاحات کے ایک ایجنڈے پر اتفاق رائے کے قیام کے ضمن میں حکومت کی خامیوں اور نقائص پر کڑی تنقید کی جاسکتی ہے تاہم بیرونی چیلنجز سے ہوشیار رہنے اور نبرد آزما ہونے کے لیے ہمہ وقت وطن عزیز کی وحدت وسالمیت کے ضمن میں محاذ آرائی کے بجائے تعاون کی راہ اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پانامہ لیکس کے بعد ملکی وبین الاقوامی سطح پر حالات پہلے جیسے نہیں رہے اور عالمی سطح پرگہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، یہ پانامہ لیکس ہی کی بدولت رونما ہونے والی تبدیلی کا اثر تھا کہ وزیر اعظم نے فوری طور پر قوم سے خطاب کرکے اپنے خاندان پر لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کی اور اپنے خاندان کے افراد کی آف شورکمپنیوں کے ضمن میں صفائی پیش کرنے اور کمیشن بنانے کا اعلان کیا، تاہم تحریک انصاف کے سربراہ نے اس کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس کی سربراہی میں فوری کمیشن کا مطالبہ کرتے ہوئے 24 اپریل کو رائیونڈ مارچ و دھرنا وزیر اعظم کے مستعفی ہونے تک جاری رکھنے اور اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے کے عزم کا اظہار کیا۔

اپوزیشن کی جانب سے مختلف مطالبات سامنے آرہے ہیں،کوئی انکوائری کمیشن چاہتا ہے، توکوئی پارلیمانی کمیشن کا خواہاں ہے، کوئی احتساب کمیشن چاہتا ہے، تو کوئی فوجی عدالتوں سے تحقیقات کروانے کا آرزو مند ہے۔ جمہوریت کے تقاضے کہیے یا باہمی مفادات ، بہرحال مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب ہو رہے ہیں اور پیپلز پارٹی اعلان کرچکی ہے کہ مفاہمت کے نام پر وہ حکومت کو گرنے دے گی اور نہ ہی کسی دھرنے کا حصہ بنے گی۔ بلاشبہ یہ ملک بار بار حکومتوں پر شب خوں مارے جانے کا متحمل نہیں ہوسکتا تاہم مفاہمت اگر یکے بعد دیگرے باریاں لینے اور لوٹ ماروچور بازاری کے اس کھیل کا نام ہے جو گزشتہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور ملک کو معاشی طور پر کھوکھلا، خزانے کو ہر بار خالی، قوم کو بیرونی بھاری قرضوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے مسلسل دبا رہا ہے۔

یقینا ایسے کسی مفاہمتی کھیل کی حمایت نہیں کی جاسکتی ہے،کوئی بھی سیاسی قوت جمہوریت کو ڈی ریل کرنا نہیں چاہتی لیکن لوٹ مارکو جمہوریت کا نام نہیں دیا جاسکتا، یہ مفاہمت ہی کا کمال ہے کہ ان جماعتوں نے اپنی بقا اور مفاد کے لیے جمہوریت کے نام پر ملک و قوم کو اٹھارویں ترمیم کا تحفہ دیا جس کی بدولت جمہوریت سے زیادہ حکومت اور حکومتی ہرجائز و ناجائزکام کو تحفظ حاصل ہوا اور ہر صورت میں صدر سے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار چھین لیا گیا۔ ان حالات میں سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ قوم کو مزید سرپرائزز بھی ملنے کی امید ہے اور یہ سب بھی یقینا حسب سابق ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی اور آئین و قانون کی سربلندی نیز جمہوریت کی بقا کے لیے ہی ہوگا؟ ہمیشہ کی طرح ذاتی مفادات سے قطعی بالاتر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں