جہلم کا مختار
آج جہلم کے گلزار کا نہیں، جہلم کے مختار کا ذکر ہوگا۔ گلزار بھی خوب ہے
آج جہلم کے گلزار کا نہیں، جہلم کے مختار کا ذکر ہوگا۔ گلزار بھی خوب ہے، مختار بھی کم نہیں۔ 6 اور 7 جنوری کی درمیانی رات 2 بجے جہلم کا فکر انگیز شاعر مختار جاوید لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کرگیا، اس کو اپنے جانے کے بارے میں خوب پتا تھا، اس لیے وہ ایسے شعر کہہ رہا تھا۔
زندگی موت کی امانت تھی
درمیان سے نکل گیا ہوں میں
کوئی اوپر بلارہا ہے مجھے
اور اڑتا ہی جارہا ہوں میں
آغاز کا نہیں یہ ہے انجام کا سفر
رخصت کی ہے گھڑی، سفرِ واپسی میں ہوں
ایک سال پہلے مختار جاوید سے میری ملاقات ہوئی تھی، حکیم راحت نسیم خود بھی کئی کتابیں لکھ چکے ہیں، انھی کے گھر چند احباب جمع تھے۔ مختار جاوید سے ہونے والی پہلی ملاقات مجھے یاد آرہی ہے۔ تب تو سمجھ نہ پایا تھا۔ آج ان کے اشعار سمجھ میں آرہے ہیں۔ ان کی خاموشی میں ادراک و آگاہی کی منزلیں، آنکھوں میں بے ثبات دنیا کے گزرے مہ و سال کی دھول، چہرے پر شکوے، شکایتوں کی لکھی تحریریں، یہ شکوے شکایتیں انھیں خود ہی سے تھیں یا زمانے سے:
ہم سے ہوتے نہ وہ گناہ کبھی
جو ہوئے نیکیاں کمانے میں
موت جینے نہیں دیتی اس کو
زیست کرنا جسے آجاتا ہے
اگر نہ زیست پر اتنا غرور کرتے لوگ
تو اپنی موت سے پہلے کبھی نہ مرتے لوگ
ہماری آدمیت ہے گراں تو
اٹھاؤ زندگی، لے جاؤ دنیا
مختار جاوید کو خود سے یا زمانے سے شکایتیں کیا تھیں، وہی جو ہر صاحب احساس کو ہوا کرتی ہیں، اس نے اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کو بھی شاعری بنایا ہے، وہ خاموشی سے نہیں گزرا، اس نے گواہی دی ہے کہ میں زندہ ہوں، اس کے شعر بتارہے ہیں کہ وہ زندوں کی طرح زندہ رہا:
منزل کی جستجو میں بڑی بھول ہوگئی
وہ شخص راہزن تھا، جسے راہ بر کیا
ضمیر بیچنے والوں کے خوب دام لگے
مقابلے میں کئی اہل زر نکل آئے
سردار تو ہر جنگ میں رہتے ہیں سلامت
کٹتے ہیں قبیلوں کے جواں مرد زیادہ
پتا چلا ہی نہیں چال کا پرندوں کو
وہ ذائقہ تھا شکاری کے آب و دانے میں
وہ تو جگنو چلے آتے ہیں چراغاں کرنے
ورنہ آنگن کا دیا روز بجھا رہتا ہے
تھام کر ہاتھ ڈبو دیتے ہیں
ڈوبتے وقت بچانے والے
قبول ہے ہمیں زنداں کی زندگی لیکن
اماں ملے کسی دشمن کے ہاں پسند نہیں
باہر نظام عدل کی تشہیر کی گئی
اندر ہر ایک ظلم روا کردیا گیا
کون یہ بندگی کھولے گا
کون دیوار سے ٹکراتا ہے
ہم اپنے دیس میں پردیس کاٹنے والے
پڑے ہیں گھر میں مگر خواب گھر کے دیکھتے ہیں
تیرگی اتنی زیادہ تھی کہ ہم
رات جگنو کو ستارہ سمجھے
ہاتھ کٹنا چاہیے اس شخص کا
ہاتھ میں جس شخص کے تلوار ہے
ہوا نے زور جہاں اپنا آزمانا تھا
دیا مجھے بھی اسی موڑ پر جلانا تھا
مختار کی شاعری میں یہ درد، یہ کسک، یہ کھلا اظہار اس لیے ہے کہ اس کے شہر جہلم کے ذرا پرے کامریڈ مرزا محمد ابراہیم کا ٹھکانہ ہے ''ہوائیں خاص ادھر سے ادھر کو آتی ہیں'' وی وی گری اور مرزا ابراہیم ایک ساتھ مزدور تحریک میں شامل ہوئے، وہ ہندوستان کا صدر بنا، ادھر مرزا ابراہیم کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ جہلم سے لاہور کی طرف چلیں تو مولانا ظفر علی خاں کا شہر وزیر آباد ہے، جہلم سے لاہور آتے جاتے، خیالات شاعری بنتے ہوںگے۔ یوں سخنوری جاری رہی۔ مختار کے ہاں غزل کا روایتی رنگ بھی ہے اور کامیاب بات یہ ہے کہ برتاؤ اور ڈھنگ مختار کا الگ سے ، خالص اپنا محسوس ہوتا ہے۔
چاند دیکھے جو تمہاری جانب
چاندنی اور بھلی ہوجائے
تمہارے وعدہ فردا کی کل نہیں آئی
ہر ایک کل سے نئی کل کے انتظار ملے
ترے قریب تو پہنچوں قریب تر نہ سہی
تری گلی نہ ملے، تیری رہ گزار ملے
یہ شعر بھی دیکھیے، سامنے کا دکھ ہے، کتنے ہی سانحات ہورہے ہیں، ہم روز سنتے ہیں:
بیٹیاں ماں باپ کے ہر جبر کو
مامتا، شفقت سمجھ کر سہہ گئیں
اپنی اہلیہ کے انتقال پر کہا:
جو گھر ہمارا گھر تھا، وہ بھی تمہارے بعد
کہنے کو میرا گھر ہے، مگر میرا گھر نہیں
اور مختار جاوید کا آخری شعر بھی سن لیں:
قضاء کے کھیل میں جب عمر جیت جاتی ہے
تو سانحہ بھی نظارا دکھائی دیتا ہے
سوچ رہا ہوں چھوٹے شہروں میں کیسے کیسے بڑے شاعر ہوتے ہیں۔ حق مغفرت کرے۔ (آمین)