ملک کا بدلتا سیاسی منظرنامہ

پانامہ لیکس نے عالمی سطح پر جو اہم انکشافات کیے وہ کسی عظیم سونامی یا بڑے زلزلے سے کم نہیں،


[email protected]

پانامہ لیکس نے عالمی سطح پر جو اہم انکشافات کیے وہ کسی عظیم سونامی یا بڑے زلزلے سے کم نہیں، ان انکشافات سے عالمی منظرنامے اور خبروں کے سمندر میں جو تلاطم، مد و جزر اور جوار بھاٹا پیدا ہوا اس کی طوفانی لہروں نے پاکستانیوں کے آف شور کمپنیوں سے بزنس کے حوالے سے حیرت انگیز انکشافات کرکے خبروں کی دنیا میں عظیم بھونچال پیدا کردیا۔ تاہم اکثر سیاسی و معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں کے نزدیک حکومتی وضاحتیں غیر تسلی بخش ہیں جس نے بحث و مباحثے کے نئے محاذ کھول دیے اور مزید تحقیق طلب سوالات کو جنم دیا ہے، نہ صرف سیاسی مخالفین اور اپوزیشن کے اراکین بلکہ قوم کو بھی ان سے جواب طلبی کا موقع ہاتھ آگیا، پانامہ لیکس میں حکمراں خاندان کے چند افراد سمیت 250 با اثر پاکستانیوں کے نام شامل ہیں ۔

حکمران سیاسی جماعت کے سربراہ زیادہ تنقید کے نشانے پر ہیں۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خود اقوام عالم اور دیگر ممالک کے سربراہان سے پاکستان میں بزنس اور سرمایہ کاری کی اپیل کرتے ہیں لیکن خود ان کے اپنے بزنس بیرون ملک ہیں، حالانکہ سربراہ مملکت ہونے کے ناطے یہ ان کا فرض اولین ہے کہ معاشی بحرانوں سے دوچار یہ ملک اور قرضوں میں جکڑی یہ بد قسمت قوم جس کا پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائش طور پر مقروض ہے۔

جہاں ماضی میں بھی قرض اتارو ملک سنوارو کے فلک شگاف نعرے بلند کیے گئے، جس ملک کے وہ خود بھی باسی ہیں جو ملک دنیا بھر میں ان کی اصل پہچان ہے اور جس ملک کو بظاہر وہ ایشیائی ٹائیگر بنانے کے متمنی نظر آتے ہیں وہاں بیرون ملک سے اپنا تمام سرمایہ پہلے خود کو کیوں نہیں لاتے اور حکومت مخلص ہے تو اسے چاہیے کہ نہ صرف اپنی بلکہ تمام امیر خانوادوں کی بیرون ملک دولت کو وطن عزیز میں واپس لے کر آئے اور یہ اس وقت حالات کے تناظر میں حب الوطنی کا اولین تقاضا بھی ہے، پہلا قدم حکومت خود اٹھائے، حکومت کی جانب سے اقوام عالم کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت کے ضمن اولین قدم وہ خود اٹھائے۔

آخر ہمارے ملک میں کس چیز کی کمی ہے؟ تمام قدرتی وسائل اور دنیا کی ہر نعمت سے اﷲ نے ہمیں مالا مال کیا ہے اگر کہیں کچھ کمی نظر آتی ہے تو وہ حب الوطنی کی کمی نظر آتی ہے ہم دنیا بھر کو دعوت دیتے اور بتاتے ہیں کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقیؔ'' لیکن ہم خود اس کی زرخیز زمین میں اپنے سرمائے کے بیج بونے اور درخت لگانے کے لیے تیار نہیں، کتنی حیرت کی بات ہے۔بہرحال وکی لیکس نے جس طرح دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا تھا اسی طرح آج پانامہ لیکس نے جوکہ دنیا کی تاریخ میں اب تک منظر عام پر آنے والی حجم کے اعتبار سے سب سے بڑی دستاویز ہے دنیا بھر کے ایوانوں میں ہلچل برپا کردی ہے، دنیا بھر سے مختلف ملزمان اس کے انکشافات کی زد میں ہیں اور دنیا بھر میں 82 ممالک اور جزیرے ایسے ہیں جہاں بددیانت سیاست دان ہوں یا جرائم پیشہ عناصر، ٹیکس چور ہوں یا بھتہ خور، اسمگلرز، منشیات فروش یا جسم فروشی کے گھناؤنے کاروبار کے سرغنے ہوں یا اپنے کالے دھن سفید میں بدلنے والے سب کے سب مکمل تحفظ کے ساتھ آزادانہ کاروبار کرسکتے ہیں اور آپ باآسانی (FSI) سے بھی محفوظ ہوجاتے ہیں۔

آپ کی معلومات رازداری کے ساتھ خفیہ رہتی ہیں اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں کسی ملک کا معاشی قانون لاگو نہیں ہوتا ان ہی علاقوں میں ایک ورجن آئس لینڈ بھی ہے جہاں موساک فونیسکا کی کئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ تمام ٹیکس چوروں کو یہاں مکمل تحفظ حاصل ہے اور تمام چوروں، لٹیروں کے لیے یہ جگہیں نہایت موزوں ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتیں، انھیں قانونی تحفظ اپنے وسیع تر مفاد میں ان ممالک کی جانب سے حاصل ہے جو خود دنیا میں قانون اور جمہوریت کے علمبردار تصور کیے جاتے ہیں۔

یورپ اور امریکا میں آف شور کمپنیاں قائم ہوئیں، ان کمپنیوں نے ان ممالک کی معاشیات اور دیگر معاملات میں اہم کردار ادا کیے، دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں آف شور کمپنیوں کے ہی ذریعے اپنے آپریشن چلارہی ہیں اور ہزاروں بدعنوان اور کرپٹ عناصر جو مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھتے ہیں اس قانونی رعایت سے فیض یاب ہورہے ہیں کیوں کہ دنیا کا کوئی بھی قانون ان کا احتساب کرنے سے قطعی قاصر ہے لیکن اب پانامہ لیکس کے بعد یورپی ممالک میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کوسات برس قید اور 5 لاکھ یورو جرمانہ ہوسکے گا، ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی قانون نہیں لیکن شاید اب ہمیں بھی اس ضمن میں قانون سازی کی جانب دنیا کے دیگر ممالک کی طرح توجہ دینی ہوگی۔

اگر پاکستان سے باہر سرمایہ کاری کرنے والے وہ تمام سرمایہ کار جنھوں نے اپنا سرمایہ آف شور کمپنیوں میں لگایا ہوا ہے اپنی تمام دولت پاکستان لے آئیں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایشیائی ٹائیگر بن جائے۔ پانامہ لیکس نے مجموعی طور پر ایک کروڑ چودہ لاکھ خفیہ دستاویزات جاری کیں جس میں انکشاف ہوا کہ مختلف ممالک کے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں اور دیگر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے ٹیکس چھپانے کی غرض سے خفیہ دولت بنائی اس میں 500 بھارتی بھی شامل ہیں، دنیا بھر سے 128 سینئر سیاست دان، سول بیورو کریٹس، سیاست دانوں کے خاندان اور چودہ ہزار کمپنیاں اور سوئزر لینڈ سمیت دنیا کے دس بڑے بینکس آف شور کمپنیوں کا سبب بنے جب کہ دنیا بھر کے 511 بینک اس خفیہ کاروبار میں ملوث ہیں۔

ان ہی میں موجودہ حکمرانوں کے خاندان کے چند افراد، سابق وزیراعظم، کچھ سیاست دان اور بڑے خاندانوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف آیا، وزیراعظم نے اپنے خاندان پر لگنے والے الزامات کے تناظر میں قوم سے خطاب میں ریٹائرڈ ججز پر مشتمل کمیشن بنانے کا اعلان کیا جو ان کے خاندان پر لگنے والے الزامات کی تحقیقات کرے لیکن اپوزیشن اور بعض سیاسی وقانونی ماہرین اور مختلف تجزیہ کاروں نے اس کمیشن کو رد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ آزاد جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کی سربراہی میں حاضر سروس ججز پر مشتمل ہونا چاہیے، نیز اس کمیشن کی تشکیل سے خود وزیراعظم کو دور رہنا چاہیے۔

الزامات ان کے خاندان کے افراد پر لگے ہیں لہٰذا کمیشن بھی وہ خود اپنی مرضی سے اپنی پسند کے افراد پر مشتمل تشکیل دیں یہ انصاف کے تقاضوں کے یقیناً برخلاف ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس نازک صورتحال میں فوری تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے خود کو بھی پیش کردیا ہے وہ کہتے ہیں کہ تحقیقات کا آغاز خود ان کی ذات اور شوکت خانم اسپتال سے کیا جائے کیوں کہ حکومت نے پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد خود اپنی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے شوکت خانم اسپتال میں مبینہ خورد برد کا الزام عائد کرتے ہوئے چندے کی رقم باہر ممالک کی کمپنیوں میں انویسٹ کرنے کا انکشاف کیا تھا۔

بہرحال پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد دنیا بھر میں ہلچل مچی ہوئی ہے اور مختلف ممالک نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات شروع کر دیں۔ ہمارے ملک میں بھی اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے اور ملکی سرمایہ نہ صرف بیرون ملک منتقل ہونے سے روکنے بلکہ منتقل سرمایہ واپس لانے کے لیے بھی جامع موثر قانون سازی ہونی چاہیے اور جلد از جلد ہونی چاہیے اور جلد از جلد ہونی چاہیے بصورت دیگر پانامہ لیکس نے بین الاقوامی سیاست کا منظر نامہ تو بدل کر رکھ ہی دیا ہے ہمیں تو اپنے ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی بدلتا معلوم ہورہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں