تم کسی کام کے نہیں۔۔۔۔۔

چینی ریستورانوں سے روبوٹ ویٹرز کی چُھٹی


ع۔ر April 12, 2016
چینی ریستورانوں سے روبوٹ ویٹرز کی چُھٹی فوٹو : فائل

KARACHI: حالیہ برسوں کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں میں روبوٹوں کا عمل دخل تیزی سے بڑھا ہے۔ یہ خود کار مشین وہ کام بھی انجام دے رہی ہیں جو صرف انسانوں سے مخصوص تھے۔

روبوٹکس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی) میں ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر یہ پیش گوئیاں تواتر سے کی جارہی ہیں کہ آنے والے دور میں خود کار مشینیں انسان پر غلبہ پالیں گی اور روزمرہ زندگی کے ہر شعبے میں روبوٹ ہی متحرک نظر آئیں گے ۔ ان پیش گوئیوں کے حقیقت میں بدل جانے کا آئندہ سو برس تک بھی کوئی امکان نہیں کیوںکہ روبوٹوں کی صلاحیتوں کے سلسلے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جارہا ہے۔ وہ اتنے باصلاحیت نہیں کہ انسان کا مقابلہ کرسکیں۔ اس سلسلے میں روبوٹ ویٹروں کی مثال دی جاسکتی ہے جن کی 'چھٹی' کردی گئی ہے!

بیرا گیری دوسرے بے شمار کاموں کی طرح انسانوں ہی سے مخصوص ہے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل کئی چینی اور جاپانی ریستورانوں میں روبوٹ ویٹر متعارف کروائے گئے تھے۔ عام ملازموں کی جگہ یہ خود کار مشینیں ملازم رکھنے سے مالکان کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنا، اور گاہکوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے علاوہ مالی بچت بھی کرنا تھا کیوںکہ روبوٹ خریدنے پر ایک ہی بار خرچا ہوتا تھا جب کہ ملازموں کو ہر ماہ تنخواہ دینی پڑتی ہے۔ مگر چند ہی ہفتوں کے بعد مالکان روبوٹوں سے جان چھڑانے پر مجبور ہوگئے۔

چین کے جنوبی شہر گوانگ ژو کے تین ریستورانوں میں روبوٹ بیرا گیری کررہے تھے ۔ دو ریستوران بند ہوگئے ہیں اور تیسرے ریستوران کے چھے روبوٹ ویٹروں میں سے پانچ فارغ کردیے گئے ہیں۔ روبوٹوں کی جگہ پھر سے پرانے ویٹر رکھ لیے گئے ہیں۔ روبوٹوں سے جان چھڑالینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انتظامیہ نے کہا کہ خود کار مشینوں کی خدمات حاصل کرنے کے بعد بیرا گیری سے متعلق مسائل بڑھ گئے۔ ریستوراں کے اندر چلتے پھرتے روبوٹ گاہکوں کو ضرور متوجہ کرتے ہیں مگر پیشہ ور ذمہ داریاں نبھانے میں یہ ماہر نہیں۔ انھیں گاہکوں سے آرڈر لے کر ان کے لیے کھانا چُننے اور مشروبات فراہم کرنے کے لیے پروگرام کیاگیا تھا مگر خود کار مشینیں سہولت کے ساتھ یہ کام انجام نہیں دے سکتیں۔

ایک ریستوران کی منتظم مس لیانگ کا کہنا تھا کہ روبوٹ ویٹر عام ویٹروں کی طرح مستعد اور کام کرنے میں پھرتیلے نہیں۔ پھر ان میں انسانوں جیسی صلاحیتیں بھی نہیں۔ یہ نہ تو گاہکوں سے صحیح طرح آرڈر لے سکتے تھے اور نہ ہی انھیں گلاس میں پانی انڈیل کر دے سکتے تھے۔ ان خامیوں کی وجہ سے گاہکوں کو مطمئن کرنے میں مشکل پیش آنے لگی تھی۔ ابتدائی دنوں میں لوگوں کی بڑی تعداد روبوٹوں کی وجہ سے کھانے کے لیے آتی تھی مگر رفتہ رفتہ تعداد میں کمی آنے لگی کیوں کہ ان کے آرڈر کی تکمیل میں تاخیر ہونے لگی تھی۔ اس لیے بہتر یہ سمجھاگیا کہ روبوٹوں کو ملازمت سے نکال دیا جائے۔

ابتدا میں روبوٹ ویٹروں کو روبوٹکس اور منصوعی ذہانت کے ملاپ سے وجود میں آنے والا شاہکار قرار دیاگیا تھا مگر ان کی ناکامی ظاہر کرتی ہے کہ ٹیکنالوجی فی الوقت انسانی دماغ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مشینوں کو انسان بننے میں کتنا وقت لگے گا اور وہ اس سطح تک پہنچ بھی پائیں گی یا نہیں اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں