سب پانامے ہیں

پانامہ لیکس! یہ کس بلا کا نام ہے، غریب آدمی کیا جانے۔ پہلے ہی بڑی بلاؤں نے غریب کو گھیر رکھا ہے،


Saeed Parvez April 11, 2016

پانامہ لیکس! یہ کس بلا کا نام ہے، غریب آدمی کیا جانے۔ پہلے ہی بڑی بلاؤں نے غریب کو گھیر رکھا ہے، اسے کیا پتا کہ یہ پانامہ لیکس کیا شے ہے۔ غریب بے چارے کو تو پاجامہ کی فکر ہے کہ وہ بھی نہ کہیں چھن جائے، اسے کیا غرض پانامہ سے وہ تو پاجامہ سنبھالے دوڑ رہا ہے، روز جیتا ہے، روز مرتا ہے اور اسی جینے مرنے میں ہی ایک دن مر جاتا ہے۔

کبھی سر کٹی لاش کی صورت، کبھی ناقابل شناخت، کبھی سوختہ لاش، بازو کٹے ہوئے، ٹانگیں کٹی ہوئی، حرمت سے محروم، کبھی بلوچستان کے پہاڑوں پر، کبھی دریاؤں کے بہاؤ میں۔ غریب آدمی کا پانامہ لیکس سے کیا واسطہ تعلق، اسے کیا پتا پانامہ لیکس کیا ہوتا ہے! پانامہ لیکس تو اربوں کھربوں کا کھیل ہے۔ یہ ارب پتی کھرب پتی ہی جانتے ہیں کہ پانامہ لیکس کس بلا کا نام ہے۔ غریبوں کا خون نچوڑا جاتا ہے، انھیں بھوکا رکھا جاتا ہے، ان سے جبریہ مشقت لی جاتی ہے، ذرا سست پڑنے پر کوڑے پڑتے ہیں، راتوں کو زنجیریں پہناکر قید رکھا جاتا ہے۔ انھیں اتنا کھانا دیا جاتا ہے کہ بس سانس چلتا رہے۔

غریب زمین کا سینہ چیرتے ہیں، خزانے دوسرے لے جاتے ہیں۔ کھیتوں میں ہل چلانا، بیج بونا، پانی لگانا، فصل کا دھیان رکھنا، یہ سب غریب ہاری کسان کا کام اور فصل پک کر تیار ہوجائے تو دوسرے اٹھا کر لے جائیں۔ جالب نے 1962 میں کہا تھا۔ نہ حالات بدلے، نہ یہ کلام بھول سکا۔

جب شباب پر آکر کھیت لہلہاتا ہے

کس کے نین روتے ہیں کون مسکراتا ہے

کس کی محنتوں کا پھل داشتائیں کھاتی ہیں

جھونپڑوں سے رونے کی کیوں صدائیں آتی ہیں

پاکستان کے 250 افراد کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔ پاکستان کی بہت بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی شہید بے نظیر بھٹو کا نام بھی پانامہ میں شامل ہے۔ باقی اس پانامے میں سبھی ''منّے دنّے'' خاندان شامل ہیں۔ جن کے نام شامل نہیں ہیں، وہ بھی کہیں اور کسی دوسری شکل میں ''پانامے'' چلا رہے ہیں۔

محمد نواز شریف، محمد شہباز شریف کے نام اس پانامے میں شامل نہیں ہیں۔ او بھائی! یقین مانو میں سچ کہہ رہا ہوں پاکستان میں سیاستدانوں کے نام گنوانا شروع کروں تو ''یہ سب پانامے ہیں'' جن کے فارم ہاؤسز ہیں، گھوڑوں، گائے، بھینسوں کے اصطبل ہیں، کھیت کھلیان ہیں، محل ماڑیاں ہیں، ''کالی بگی'' ہیبتناک گاڑیاں ہیں، خوفناک چہروں والے جدید اسلحہ بردار گارڈز ہیں۔

ابھی دو دن پہلے کی بات ہے، میرے چھوٹے بیٹے کی ننھی منی سی کار ایک سیاہ ہیوی ویٹ گاڑی سے ہلکا سا ٹچ ہوگئی، گارڈز نے اسلحے سیدھے کرلیے، بیٹے کو روکا، اسے ڈرایا دھمکایا، بیٹے نے معافی مانگی، گارڈز نے کہا ''وہ اندر گاڑی میں مالکن بیٹھی ہیں ان سے معافی مانگو'' بیٹے نے مالکن کی خدمت میں پیش ہوکر ان سے معافی مانگی اور مالکن مسکرا دی، یوں جان چھوٹی اور بیٹے کی کار پر جو ڈینٹ پڑا وہ ہزار ڈیڑھ ہزار کا خرچہ الگ ہوا۔

یہ مجاور جنھوں نے بزرگوں کے، اﷲ کے نیک بندوں کے نام پر خانقاہیں بنا رکھی ہیں اور یہ ہر حکمران کے در پر سجدہ ریز نظر آتے ہیں، یہ مذہب کی آڑ میں کروڑ پتی مولانا حضرات، یہ ملک سے بھاگے ہوئے مفرور سیاست دان، یہ کیوں بھاگے ہوئے ہیں، یہ ملک میں آئیں، خیر ملک بھی ان کا، دنیا بھی ان کی۔ جب چاہے آئیں، جب چاہے جائیں۔ یہ سب کے سب ''پانامے'' ہیں۔ ان پاناموں کا آپس میں مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔ ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔ انھی پاناموں نے ابتدا ہی سے ملک پر قبضہ کر رکھا ہے۔

دولت ان کے پاس، اسلحہ ان کے پاس، اللہ کی زمینیں ان کے پاس، زمینوں میں چھپے خزانے ان کے پاس، علمائے سو کے فتوے ان کے پاس، بکاؤ قلم کار، دانشور ان کے پاس۔ سب کچھ تو ان کے پاس ہے۔ اور ان کے مقابل نہتے غریب، مفلوک الحال عوام ہیں، اور انھی غریبوں نے ان ''کالے بگے'' لٹیروں کے خلاف لڑائی لڑنا ہے۔ جالب عمر بھر سلگتا رہا:

بابا مرگیا ایں، تے مروا گیا ایں

سانوں وس تو کیناں دے پا گیا ایں

حسن ناصر، دادا امیر حیدر، مرزا ابراہیم، باچا خان، گل خان نصیر، اجمل خٹک، میر غوث بخش بزنجو، حبیب جالب، خالد علیگ، حسن حمیدی، لعل بخش رند، صبا دشتیاری ، ارشاد مستوئی ، نذیر عباسی، میرپور ماتھیلو کے مقام پر جنرل ضیا کی گولیوں کا نشانہ بننے والے سیکڑوں جانثار، بابڑہ کے جاں نثار اور سب بھی۔ یہ ہمارا قبیلہ ہے۔ خالد علیگ بڑے بے باک شاعر، صحافی، ساتھ ایمان کے اپنی قبر میں اتر گئے، لانڈھی کے بوسیدہ گھر میں زندگی گزاری اور لانڈھی کے مضافات میں ریڑھی کے قبرستان دفن ہوگئے۔ حکمرانوں نے علاج معالجے کی پیشکش کی، خالد علیگ نے ٹھکرا دی۔ 5 لاکھ کی پیشکش کی، ٹھکرا دی۔ ان کا امر شعر ہے:

ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے

ہاتھوں میں قلم رکھنا' یا ہاتھ قلم رکھنا

خالد علیگ صاحب نے آخری دنوں میں یہ شعر کہہ کر سب کو دکھی کردیا تھا:

میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا، ہار بھی چکا

اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون

خالد علیگ دیکھ رہے تھے کہ سب جا رہے ہیں سایہ دیوار کی طرف ''ہمیشہ کی طرح لوگ'' وزرا کے ساتھ اسٹیج پر فخریہ تصاویر بنواتے نظر آرہے تھے۔

چھوڑو قصہ ''لوگوں'' کا۔ جس کا جو کام ہے وہ کرے گا، اسے کرنے دو۔ صبح کے رستے پر چلنے والے، یقین اور ایمان کے ساتھ چلتے رہیں گے۔ اور ایک دن ضرور منزل پالیں گے۔

پانامہ لیکس کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ غریبوں کے لیے قدم قدم پانامہ لیکس کھڑے ہیں۔ ہم ان کے گھیراؤ میں ہیں۔ ہم نے ان کا گھیرا توڑنا ہے۔ ہم نے تھکنا نہیں جدوجہد جاری رکھنا ہے۔ پانامہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ پانامے آپس میں کھیل رہے ہیں۔ ان کا تماشا دیکھو، اور اپنی جدوجہد کو اور تیز کرو۔ یہ جاگیردار دیہاتوں کے بعد شہروں میں بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ ہم کو دیہاتی و شہری جاگیرداری کا خاتمہ کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں