بک فیسٹیول اور مشاعرے
وطن عزیز میں لائبریریوں اور کتابوں کی دکانیں دیکھ کرلگتا ہے جیسے آپ بہار کے آخری دنوں میں کسی باغ کو دیکھ رہے ہوں۔
متحدہ عرب امارات میں اردو مشاعروں کی روایت تو خاصی پرانی ہے کہ 1980 کے لگ بھگ یہاں ایسے مشاعرے باقاعدگی سے منعقد ہونا شروع ہو گئے تھے جن میں پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے شاعروں کو مدعو کیا جاتا تھا خود میرا پہلا غیر ملکی سفر بھی اسی طرح کے ایک مشاعرے کا مرہون منت تھا۔
یہ غالباً 1982 کی بات ہے چند برس بعد جب پی ٹی وی کے پروڈیوسر سلیم جعفری مرحوم دبئی ٹی وی سے وابستہ ہوئے تو دو تین بڑے مشاعروں کے بعد انھوں نے زندہ اور سینئر اہم شاعروں کے جشن منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر مقبول ہو گیا کہ آج بھی دنیا بھر میں ان کی ریکارڈنگز بے شمار اہل ذوق گھرانوں میں پائی جاتی ہیں۔
سلیم جعفری کی زندگی میں ہی ان مشاعروں کا دائرۂ دوحہ قطر تک وسیع ہو گیا اور بزم فروغ اردو ادب کے ملک معیب الرحمن (مرحوم) اور محمد عتیق صاحب کے تعاون سے یہ ایک سالانہ بھر پور ادبی تقریب کی شکل اختیار کر گئے۔ سلیم جعفری (مرحوم) کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور ہماری منہ بولی بھابی نے اس روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی مگر ملک معیب الرحمن کی اچانک وفات اور پھر ان کی اپنی بیماری اور وفات کے باعث یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اگرچہ اس دوران میں اور اس کے بعد مختلف ادب دوست گروپس نے کئی ایک مشاعروں کا اہتمام کیا ہے جن میں سے بعض بہت کامیاب بھی رہے لیکن عدم تسلسل کی وجہ سے یہ کسی باقاعدہ روایت کا حصہ نہ بن سکے۔
یہ ساری تفصیل دراصل پس منظر ہے ان دو تقریبات کا (جن کی بنیاد دراصل دو مشاعرے ہی ہیں) جو 14 سے 18 نومبر تک شارجہ اور دبئی میں ہو رہی ہیں اور جن کے میزبان بالترتیب پاکستان پبلشرز ایسوسی ایشن اور پاکستان سوسائٹی دبئی ہیں کوئی ایک ماہ قبل برادرم آغا نثار اور الفیصل بکس کے فیصل صاحب نے اطلاع دی کہ اس بار شارجہ میں ہونے والے عالمی کتاب میلے میں پاکستان کو ''خصوصی شمولیت'' کا اعزاز دیا گیا ہے جس کی ایک وجہ غالباً یہ ہے کہ گزشتہ برس یہ شرف بھارت کو ملا تھا معلوم ہوا کہ پبلشرز ایسوسی ایشن کے احباب نے پاکستان کے امیج کو اجاگر کرنے کے لیے بڑی محنت اور محبت سے بہت سے پروگرام ترتیب دیے ہیں جن میں 15 نومبر کی شام ایک عدد مشاعرہ بھی رکھا گیا ہے۔ ویلکم بک پورٹ والے برادر قمر زیدی اس کے انتظامات میں پیش پیش ہیں اتفاق سے میری اور انور مسعود کی ان سے براہ راست بات چیت ہوئی اور ہم دونوں لاہور کے منتظمین کی معرفت ان سے رابطے میں رہے اور وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں کہ
Two is a company and three is a crowd
تو ابلاغ کے کچھ مسائل کی وجہ سے آخر آخر میں 16 نومبر کی شام کے حوالے سے کچھ کنفیوژن پیدا ہو گیا کہ ہمیں یہ تاریخ خالی بتائی گئی تھی۔ ہم نے اس کے لیے پاکستان سوسائٹی کے احباب کو گرین سگنل دے دیا جو دبئی میں پاکستانی تقریبات کے لیے ایک باقاعدہ، وسیع اور جدید ہال کی تعمیر کے لیے مقامی حکومت اور کمیونٹی کے اشتراک سے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے اور ان کا مجوزہ مشاعرہ بھی اسی فنڈ ریزنگ مہم کا ایک حصہ تھا۔ برادرم نواز نیازی کی وہاں موجودگی کا فائدہ یہ ہوا کہ انھوں نے بھائی قمر زیدی اور دیگر منتظمین کو بر وقت اس صورت حال سے آگاہ کر دیا اور یوں بات غلط فہمیوں کے دائرے سے نکل کر افہام و تفہیم کی حدود میں داخل ہو گئی اور ہم سب ایک متوقع بدمزگی سے بچ گئے۔
یہ واقعہ میں نے اس لیے بھی بیان کیا ہے کہ ہم لوگ تعلیم یافتہ ہونے یا کہلانے کے باوجود بھی اب تک تنظیم، مشورت، پلاننگ اور سلیقے کے ضمن میں دنیا کی ترقی یافتہ تو کیا اپنے جیسی قوموں سے بھی بہت پیچھے ہیں عام طور پر اس کی وجہ وسائل کی کمی بتائی جاتی ہے لیکن میری ذاتی رائے میں اس کا تعلق تربیت کی کمی اور ہمارے عمومی اجتماعی رویے ہیں جن کی بنیاد ٹھوس حقائق سے چشم پوشی کرنا اور بے جا جذباتیت سے کام لینا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے 1982 میں جب پہلی بار دبئی، العین اور ابو ظہبی میں چند دن گزارے تھے تو اس وقت یہ علاقے آج کے مقابلے میں اس قدر مختلف، بنجر اور کم آباد تھے کہ اب اس کا تصور بھی ممکن نہیں رہا تب سے اب تک مجھے کم از کم پندرہ بار متحدہ عرب امارات جانے کا موقع ملا ہے اور ہر بار یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ اس جگہ کو پہلی بار دیکھ رہے ہیں ''الجزائر ہوٹل'' کے اردگرد (جس میں ہم تیس برس پہلے ٹھہرے تھے) کم از کم تین اطراف میں سو سو گز کے فاصلے پر کوئی دوسری عمارت نہیں تھی اور سڑک اور عمارت کے درمیان کا سارا راستہ مٹی اور ریت سے بھرا ہوا تھا اب وہ علاقہ نہ صرف یہ کہ پہچانا نہیں جاتا بلکہ پورے دبئی شہر کو دیکھ کر غالب کے قصیدے کا ایک شعر بار بار یاد آتا ہے کہ
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
اس دوران میں وہاں ادبی اور غیر ادبی دوستوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان سب سے ملاقات کے لیے ایک ہفتے کا قیام اس قدر کم پڑ جاتا ہے کہ جتنے احباب سے ملنے کا موقع نکل سکتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ ان کے گلے شکوے ہوتے ہیں جن سے باوجود کوشش کے ملاقات نہیں ہو پاتی اور یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی آخری نتیجہ کچھ اس طرح نکلتا ہے کہ
دنیا کے اس شور نے امجد کیا کیا ہم سے چھین لیا
خود سے بات کیے بھی اب تو کئی زمانے ہو جاتے ہیں
یا پھر یہ کہ
آپس کی کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں کہ بیٹھیں گے کسی دن
جہاں تک کتاب اور اس سے محبت کا تعلق ہے چند برس قبل تک خلیجی ممالک میں اس پر بے شمار طرح کی پابندیاں عائد تھیں اور کتابوں کی دکانیں بھی خال خال ہی نظر آتی تھیں لیکن اب نہ صرف ایئر پورٹ سے لے کر شہروں کے مرکزی بازاروں تک شاندار اور تازہ ترین اور بین الاقوامی کتابوں سے بھری ہوئی دکانیں موجود ہیں بلکہ جگہ جگہ بہترین سہولیات سے مزین لائبریریاں بھی موجود ہیں۔ اس بک فیسٹیول کا انعقاد بھی کتاب سے اسی محبت اور اس کی مقبولیت کا آئینہ دار ہے دوسری طرف جب وطن عزیز کی لائبریریوں، اشاعتی اداروں اور کتابوں کی دکانوں پر نظر پڑتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے آپ بہار کے آخری دنوں میں کسی باغ کو دیکھ رہے ہوں جس کے سارے رنگ ایک ایک کر کے اڑتے جارہے ہیں، اب کتابوں کی بیشتر دکانیں گفٹ شاپس کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں اور کتابوں کے گوشے سمٹتے سمٹتے اس طرح نظر آنے لگے ہیں جیسے کسی نو دولتیے گھر میں گائوں سے آئے ہوئے غریب رشتے دار اور اگر سرفراز شاہد کے اس شعر میں ''بہو'' کو جدید مارکیٹ اکانومی کا استعارہ سمجھ لیا جئے تو ان کتابوں کی تصویر کچھ اس طرح سے بنے گی۔
جب سے بہو کا راج ہے شوہر کے والدین
گھر میں پڑے ہیں فالتو سامان کی طرح
اللہ ہم سب کا حامی و مددگار ہو۔