اور اب سانحہ لاہور

ہر بار یہی سننے میں آتا ہے کہ بھاگتے دہشت گردوں نے ایک اور بزدلانہ کارروائی کر ڈالی ہے


[email protected]

KARACHI: جب ہماری قیادت نے اس امر پر متفق ہونے کے بعدکہ اب دہشت گردوں سے کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں کیے جائیں گے اور یہ طے پایا کہ آخری دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کے مکمل خاتمے تک آپریشن کیا جائے گا توآخرکیا وجوہات تھیں کہ پنجاب میں آپریشن کا آغاز سانحہ لاہور کے بعد ہوا؟ لاہور نے جب 72 جگرگوشوں کا نذرانہ پیش کیا اور 340 معصوم زخمی ہوئے تب وطن و امن دشمنوں کے خلاف کارروائی کا خیال آیا؟

اس کارروائی کی ضرورت تو روز اول ہی سے تھی اور ہمارے قانون نافذکرنے والے اور حساس ادارے پنجاب بھر میں انتہا پسند قوتوں، دہشت گردوں، سلیپر سیلز اور سہولت کاروں، انھیں فنڈز فراہم کرنے والوں سے خود بخوبی واقف بھی تھے نیز 27 مارچ کی شام جب لاہور پر قیامت ڈھائی گئی تو ہمارے حساس اداروں کے پاس پہلے ہی سے اطلاعات تھیں کہ لاہور میں کسی بھی اہم مقام کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود دہشت گردوں نے گلشن اقبال پارک جیسی معروف ترین عوامی تفریح گاہ میں قیامت صغری برپا کردی اور باآسانی برپا کردی، شہریوں کے لیے حفاظتی اقدام کسی طور نظر نہیں آئے۔

ہر بار یہی سننے میں آتا ہے کہ بھاگتے دہشت گردوں نے ایک اور بزدلانہ کارروائی کر ڈالی ہے جب کہ حالات و واقعات اور انکشافات اس سے قطعی مختلف معلوم ہو رہے ہوتے ہیں یہ کارروائیاں تو بھاگتے نہیں چھاتے ہوئے دہشت گردوں کی معلوم ہو رہی ہوتی ہیں۔ ان کی دیدہ دلیریاں بڑھتی جا رہی ہیں جب چاہتے ہیں ملک کے کسی صوبے، کسی شہر، کسی مقام کو آسانی سے زیر زبر کرکے رکھ دیتے ہیں۔

حکومت ہر واقعے کو خودکش حملہ قرار دے کر خود کو بے بس و مجبور ظاہر کردیتی ہے کیونکہ پوری دنیا میں یہ عام خیال پایا جاتا ہے کہ خودکش حملہ روکنا کسی کے بس کی بات نہیں اور ترقی یافتہ ممالک بھی فدائی حملوں کی روک تھام کے آگے بے بس و مجبور ہیں لیکن کیا واقعی ہر حملہ خودکش ہی ہوتا ہے؟

گلشن اقبال پارک کے حملے کو ابتدا میں خودکش قرار دیا گیا لیکن ہونے والا عظیم جانی نقصان صاف ظاہر کر رہا تھا کہ صرف ایک دہشت گرد اپنے جسم پر اتنا وزنی بارود باندھ کر کیسے چل کر پارک میں داخل ہوگیا کہ 72 معصوم شہید اور 340 زخمی ہوگئے؟ بہرحال حملہ خودکش ہو یا پلانٹڈ یہ بھاری جانی نقصان ہر صورت حکومتی نااہلی اور ہمارے اداروں کی کھلی ناکامی ہے، اتنے وعدے اتنے دعوے سب دھرے کے دھرے، واقعے کے بعد (ن) لیگ کے رہنما میڈیا پر مختلف وضاحتیں پیش کرتے دکھائی دیے۔

یہ بھی غیر ذمے داری کا ایک اور مظاہرہ تھا، خود وزیر اعظم کا قوم سے خطاب بھی محض رسمی ثابت ہوا کوئی نئی بات، نیا جملہ، نیا فقرہ، نیا منصوبہ جو بے قرار، مضطرب و بے چین دلوں کے لیے حقیقی سکون کا باعث ہوتا سننے میں نہیں آیا۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ہندوستانی ہاتھ اور ''را'' کی مداخلت کا کوئی ذکر کیا نہ ہی پنجاب میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے باقاعدہ آغاز ہی کا کوئی تذکرہ چھیڑا البتہ ان کی جانب سے یہ یقین دہانی کہ ''جب تک ان عناصر کو خاموش نہیں کرایا جائے گا حکومت خاموش نہیں رہے گی'' یہ کوئی نئی بات، نیا اعلان نہیں۔

تاہم دیر آید درست آید، سانحہ لاہور کے بعد ہی سہی پنجاب میں بھی دہشت گردی کے خلاف بالآخر آپریشن کا آغاز کردیا گیا اور دہشت گردوں، سہولت کاروں اور مالی معاونین کے گرد گھیرا شروع ہوگیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام تر سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام تر زمینی حقائق کے پیش نظرکڑے فیصلے کیے جائیں اور آپریشن کے دائرے کو مزید وسیع تر کرتے ہوئے تیز ترین کیا جائے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن کے اعلان کے بعد اب تک مختلف علاقوں سے سیکڑوں دہشت گردوں اور ان کے معاونین کو گرفتار کیا گیا اور ان کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی بالآخر پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کارروائی کی ہدایت کردی ہے، اگرچہ آپریشن کا آغاز پورے پنجاب کی سطح پر کیا گیا ہے تاہم جنوبی پنجاب جہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں وہاں اس آپریشن کی توجہ کو خصوصی طور پر مرکوز رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

وطن عزیز میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے پیچھے جو ہاتھ تھا وہ اب مکمل طور پر بے نقاب ہوچکا ہے اور یہ ہاتھ برسوں سے اپنا کام دکھا رہا ہے لہٰذا حکومت اور فوج کی جانب سے بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ لائسز ونگ (را) کے اہم ایجنٹ اور بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو کے معاملے سے قانونی طور پر نمٹنے اور وطن عزیز میں بھارتی مداخلت کے مسئلے کو اقوام متحدہ سے لے کر ہر عالمی و علاقائی فورم پر اٹھانے کا عندیہ یقینا احسن اقدام ہے۔

بھارت نے پاکستان کے وجود کو روز اول ہی سے کبھی تسلیم نہیں کیا اور غیر مستحکم نیز منقسم کرنے کی سازشیں، شورشیں اور ریشہ دوانیاں برابر جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی جاسوس کا بلوچستان سے گرفتار ہونا وطن عزیز میں بھارتی مداخلت کا کھلا ثبوت ہے اور خود جاسوس کل بھوشن یادیو نے پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت، علیحدگی پسندوں کو منظم کرنے، راہداری منصوبے کو ناکام بنانے، پاکستانیوں کی گمشدگی و اسمگلنگ اور متعدد دھماکوں کی پشت پناہی کا اقرار کیا ہے۔

لہٰذا ان تمام حالات کے تناظر، بھارتی مداخلت اور خطے میں تیزی سے بدلتی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو افغانستان اور ایران سے اپنے تعلقات بھارت کے مقابلے میں مزید مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کے خوف ناک عفریت سے نبرد آزما ہے اور ہماری بہادر افواج نے قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر دہشت گردوں کا انفرااسٹرکچر تباہ کرکے ان میں سے ہزاروں کو ہلاک اور باقیات کو کونے کھدروں میں چھپنے پر مجبور کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی دیگر اداروں کو اس نہج پر متحرک کیا جائے کہ ہر چھوٹے موٹے کام کے لیے فوج کی ضرورت نہ پڑے۔ حکومت خود اپنی موجودگی کا بھی احساس دلائے۔

سانحہ لاہور پر امریکا نے پاکستان سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے میں پاکستان کو ہر ممکن مدد کی پیش کش کرتے ہوئے یقین ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اس جنگ میں ضرور کامیاب ہوگا۔ بہرحال امریکا کو نہیں بھولنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی بننا ہی پاکستان میں دہشت گردی کی نشوونما کا اصل سبب بنا اور پاکستان میں دہشت گردی افغانستان میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں ہی رونما ہوئی ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن تھا اور طالبان کو ہم نے خود دشمن بنالیا یک نہ شد دو شد۔ پھر ان دونوں کے گٹھ جوڑ اور امریکی محبت کے نتیجے میں جو بھاری قیمت ہم نے ادا کی ہے اس کی قسطوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور خدا جانے کب ختم ہو۔ افسوس ہم نے پرائی جنگ خود مول لے لی۔ پھر اس کا خمیازہ بھی خود ہی بھگت رہے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں