پاکستان کے بھولے بھالے عوام
بعض حاسد قسم کے لوگ پاکستانی عوام کے بارے میں نت نئی بدگمانیاں پھیلاتے رہتے ہیں۔
بعض حاسد قسم کے لوگ پاکستانی عوام کے بارے میں نت نئی بدگمانیاں پھیلاتے رہتے ہیں۔ ایسے شر پسند عناصر کبھی ان پر کرپشن کی سرپرستی کا الزام عاید کرتے ہیں تو کبھی انھیں مجرمانہ غفلت کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے، زیادتی ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ کر لیں کہ پانامہ لیکس نے پوری دنیا کو مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ لوگ مظاہرے کرنے لگے ہیں اور اپنے منتخب سیاسی لیڈروں کو مستعفی ہونے پر مجبور کر رہے ہیں۔
آئس لینڈ جیسے مہذب ملک کے دارالحکومت ریکجا ویک میں مشتعل مظاہرین نے دو گھنٹے کے اندر اندر پورے شہر کا ٹریفک درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ صرف اس لیے کہ پانامہ لیکس میں وہاں کے وزیراعظم کا نام بھی آگیا ہے۔ مگر قربان جائیں پاکستانی عوام پر کہ ان معصوم ڈھگوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
باوجود ان خبروںکے کہ وزیراعظم کی آل اولاد پچھلے کئی سال سے کالے دھن کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ وغیرہ دھوتی چلی آئی ہے، کسی شہر میں 10بندوں کا مظاہرہ بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا، کیوں؟ صرف اس لئے کہ ہمارے عوام بلا کے مہذب، صابر، شاکر اور دلیرہیں۔ وہ اس قسم کے چھوٹے موٹے معاملات میں قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے۔ یہ پیارے لوگ وطن عزیز کے وسیع تر مفاد کی خاطر اس سے کئی کئی گنا بڑے صدمات بھی برداشت کرلیتے ہیں۔
مگر بعض حاسد قسم کے لوگ ہمارے عوام کو ہمیشہ گھٹیا، خودغرض، لالچی اور بزدل ہی شمار کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے ۔ یعنی آپ خود دیکھئے کہ اگر حسین نواز کسی بھی اور ملک میں ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے اس قدر ولا یوڑ اقبالی گفتگو کرتا تو اس کا کیا حشر ہوتا۔ کوئی بعید نہیں کہ مشتعل مظاہرین کسی مشہور سے چوک میں بیچارے برخوردار کے کان ہی پکڑوا دیتے۔ اور جتنا وہ بھاری بھرکم ہے، اس کیلیے کان پکڑنا یعنی مرغا بننا ازحد مشکل بلکہ ناممکن ہوتا۔ لیکن آفرین ہے اس صابر شاکر قوم اور امن پسند عوام پر کہ انھوں نے پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ بھائی صاحب یہاں کی اشرافیہ آخر کب تک ہمیں بیوقوف بناتی رہے گی؟
اور تو اور نجم سیٹھی والا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ اگر کسی بھی دوسرے ملک میں کرکٹ کا مدارالمہام ایک ایسے شخص کو بنایا جاتا جس کا واحد میرٹ حکمرانوں کے ساتھ کچھ پر اسرار سا ذاتی تعلق ہوتا اور جو اپنی جملہ نالائقیوں کے سبب قومی کرکٹ کا وہ حشر کرتا جو آجکل ہے، تو اس کی مزید ٹنڈ کر دی جاتی مگر پاکستانی عوام کا غم و غصہ جھاگ کی مانند یوں بیٹھا کہ اب کھڑا ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ حالانکہ اگر مال روڈ پر چار بوسیدہ ٹائر بھی جلا دیئے جاتے تو سیٹھی صاحب کب کے فارغ ہو چکے ہوتے۔ مگر وہ اپنی سیٹ پر قائم دائم ہیں۔ البتہ ہماری اطلاع کے مطابق ان کی فراغت کے فیصلے ہواؤں پر لکھے جا چکے ہیں۔
ادھر شہریارخان بھی اپنا مردہ خراب کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً 100 سال کے ہو جانے کے باوجود اپنے عہدے کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ٹیم کی پے درپے شکستوں کی وجہ سے آپ کے ہاتھ پیر، منہ ، سر اور دیگر اعضا بری طرح سوج چکے ہیں۔
ذرا چلتے چلتے پرویز مشرف کے بچ نکلنے والا معاملہ بھی دیکھتے جائیے۔ حکومت ایک ہی بات کرتی چلی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے کہنے پر ہم نے مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی ہے جبکہ سپریم کورٹ بار ہا واضح کر چکی ہے کہ مذکورہ کیس میں حکومتی موقف نہایت کمزور اور بے جان تھا چنانچہ مشرف کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔
ذرا غور کیجئے کہ ہمارے عوام نہ صرف سعادت مند ہیں بلکہ سمجھدار بھی ہیں۔ وہ نواز شریف کی مجبوریوں کو کس کس حد تک سمجھتے ہیں، سبحان اللہ۔ چنانچہ نہ تو انہوں نے پوچھا اور نہ ہی نواز شریف نے بتایا کہ آخر وہ کون ہے کہ جس کے کہنے پر پرویز مشرف کو جانے دیا گیا، حالانکہ یہ بات تو یہاں کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے۔
اب اگر آپ پھر بھی پاکستانی عوام کو برا بھلا کہیں گے تو یہ آپ کی مرضی ہے حالانکہ ان بیچارے بے زبانوں کو توتمغہ حسن کارکردگی دینا چاہیے۔ اس سے زیادہ یخ بستہ جذبات کے حامل کوئی اور عوام ہوسکتے ہیں بھلا؟