اہل دانش کے لیے سخت آزمائش

ارباب کلیسا نے اہل علم و دانش پر عرصہ حیات تنگ کردیا کسی کو دھمکایا تو کسی کو مروایا


[email protected]

معرکہ مذہب وسائنس اورخدا کے بغیرکائنات کے تصورکو پروان چڑھانے میں اہل سائنس سے زیادہ خود اہل مذاہب (تحریف شدہ مذاہب و مصاحف کے نام نہاد ٹھیکیدار) ذمے دار رہے، جنھوں نے غیر الہامی وخود ساختہ آیات کی روشنی اور یونانی فکروفلسفہ و منطق کے تناظر میں عظیم سائنسی حقائق کو جانچنے، پرکھنے اور پھر شعوری طور پر تمام طاقت و قوت کو (محض اپنے ذاتی مفاد اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے) بروئے کار لاتے ہوئے اور مظالم کے پہاڑ توڑتے ہوئے اصل حقائق کو مسخ و فسح کرتے اور فسق و فجور کو عام کرتے ہوئے اہل سائنس پر انسانیت سوز شقی القلبی کی ایسی لرزہ خیز اور قابل مذمت تاریخ رقم کی جس کی بدولت مذہب سے بیزاری اور اہل مذہب سے وحشت و نفرت قدرتی و فطری امر تھا۔

ارباب کلیسا نے اہل علم و دانش پر عرصہ حیات تنگ کردیا کسی کو دھمکایا تو کسی کو مروایا، کوئی پابند سلاسل ہوا تو کوئی مصلوب، کسی کو مقدموں میں گھسیٹا گیا تو کسی کو نذر آتش کیا گیا۔یورپ میں جب علمی احیاء کا آغاز ہوا اور عقلیت کا دور دورہ ہوا تو اہل سائنس کے خلاف قدامت پسندوں کے معاندانہ رویہ کی بدولت وہ کشمکش شروع ہوئی جس نے دنیا پر ناخوشگوار اثرات مرتب کیے، اہل علم وسائنس نے ان غلط نظریات کی تردید کی جو طبعی علوم سے مذہب میں منتقل کرلیے گئے تھے۔

اس طرز عمل نے مذہبی حلقوں میں ایک قیامت برپا کردی کیوں کہ یہ وہ عہد تھا کہ جب عوام الناس کو جان بوجھ کر تعلیم سے باز رکھا جاتا تھا اور علمی و فکری میدانوں میں مکمل تقلید پسندی کا دور دورہ تھا، بائبل مقدس اور ارسطو و بطلموس جیسے قدیم فلسفیوں کے نظریات و افکار کو تمام علوم کا سرچشمہ قرار دیا جاتا تھا، آزادانہ غوروفکر اور تحقیق وجستجو کی قطعی اجازت نہ تھی، لہٰذا ارباب کلیسا کو یہ عملی انقلاب ایک آنکھ نہ بھایا، اہل کلیسا نے جو اقتدار اور طاقت کے مالک تھے مخالفت کرنے والوں پر مظالم کی انتہا کردی، ہزاروں اہل دانش پر ارتداد کا فتویٰ لگاکر نہایت سخت سزائیں دی گئیں، حکمت و دانائی کا سرعام قتل عام ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق 1481 سے 1808 تک ارباب کلیسا نے تقریباً تین لاکھ چالیس ہزار افراد کو مختلف سزائیں دیں۔

ان میں بتیس ہزار وہ تھے جنھیں دہکتی آگ کی نذر کیا گیا انھی زندہ جلائے جانے والوں میں اٹلی کا ماہر فلکیات اور طبیعیات دان برونو بھی شامل ہے جو صرف اس وجہ سے مجرم گردانا گیا کہ اس نے دوسری دنیاؤں اورکرۂ ارض کے علاوہ دیگر سیاروں پر آبادی کا تصور پیش کیا وہ خلا میں مزید سیاروں پر آبادی کا قائل تھا یہ یقینا اہل دانش کے لیے سخت آزمائش اور فکری اضطراب و کشمکش کا دور تھا۔ برٹرینڈ رسل لکھتا ہے کہ ''نشاۃ الثانیہ کے دنوں میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ صحیح رائے وہ ہے جسے کسی قدیم (عالم) نے پیش کیا ہو، لیکن ایسی کوئی بھی رائے جسے کسی قدیم (عالم) نے پیش نہیں کیا کسی احترام کے قابل نہیں ہے'' لہٰذا گلیلیو اورکوپر فیکس کو بھی عقل سلیم کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اہل کلیسا اپنے احکامات خدا کے نام سے جاری کرتے اور اپنے تسلیم کردہ نظریات کے خلاف کوئی بات سننے اور برداشت کرنے پر تیار نہ تھے۔

جب کہ اہل علم ودانش کے نظریات، تجربات، مشاہدات اہل کلیسا کے خود ساختہ اور تقلید پر مبنی تصورات سے متصادم ہورہے تھے، لہٰذا نشاۃ الثانیہ کے بعد اہل سائنس کا قدرتی و فطری رد عمل یہ سامنے آیا کہ انھوں نے مذہب سے بے رغبتی و بیزاری کا اظہار کیا اور لوگ مذہب سے بد ظن ہونے لگے، جو زیادہ پرجوش تھے انھوں نے مذہب کو کلیتاً مسترد کردیا اور ہر اس دعویٰ کی تکذیب کردی جس کی مجربہ و مشاہدہ سے تصدیق نہ کی جاسکتی تھی۔ یوں مادہ اور مادی مظاہر کے سوا ہر وجود رد کردیاگیا، سائنس دانوں نے اپنے قدامت پسند دشمنوں سے پورا پورا بدلہ لیا، یہ ضد اور رد عمل اور کشمکش کا دور تھا ۔

جس میں عقل سے زیادہ انتقام کے جذبات کا عمل دخل تھا اور یہ انتقام مذہبی قدامت پسندوں کی انتہا پسندی کا نتیجہ تھا اس صورتحال نے مادیت اور الحاد کے فروغ کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔جب کہ مسلم عہد میں علمی وسائنسی ترقی اور نشاۃ ثانیہ علم وحکمت کے اعتبار سے دیگر اقوام سے قطعی مختلف رہی یہاں تک کہ مسلمان پوری دنیا میں میدان سائنس کے امام قرار پائے خود یورپ نے اپنے چراغوں کی روشنی مسلمانوں کے علم و حکمت کے چراغوں سے ہی لی۔

اسلام کی پہلی وحی ''اقرأ'' اس انقلابی دعوت کا آغاز تھا جس نے علم وآگہی کے فروغ اور ارتقا میں زبردست کردار ادا کیا، احادیث میں علم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حصول علم مرد و عورت کے لیے لازم قرار دیاگیا، فرمایا کہ علم حاصل کرو خواہ چین ہی جانا پڑے، علم حاصل کرو جھولے سے قبر تک یہ بھی فرمایا کہ حکمت مومن کی متاع گم گشتہ ہے، نزول قرآن سے علمی دنیا میں جس نئے دور کا آغاز ہوا ، اس کے نتیجے میں حصول علم کے لیے جن اسلامی تحریکات کا آغاز ہوا ان کے نتیجے میں مسلم دنیا میں ایسے حالات کبھی رونما نہیں ہوئے جیسے یورپی نشاۃ الثانیہ کے وقت دنیا نے دیکھے، سائنس میں مادیت کے رجحان کا سدباب اور خدا کے بغیرکائناتی تصور کا موثر جواب جس خوش اسلوبی کے ساتھ اور مدلل انداز میں اسلام نے پیش کیا کسی دوسرے مذہب کو نصیب نہ ہوسکا۔

اسلام ہمیشہ علمی کاوش کا سرپرست اور قوت محرکہ رہا ہے نیز سائنس کی تعلیم اسلامی تعلیم ہی کا حصہ ہے دونوں میں کوئی تصادم نہیں۔ خدا کے قول یعنی آسمانی کتب اور فعل یعنی یہ کائنات اور اس سے مظاہر فطرت و قدرت میں تضاد ناممکن ہے لہٰذا مذہب اگر الہامی ہو اور سائنسی تحقیق و نتائج اگر درست حقائق پر مبنی ہوں تو کبھی باہم متصادم نہ ہوں۔ یہ ایسا واضح ہے کہ اختلاف کی گنجائش قطعی نہیں، اسلام اس کا بین ثبوت ہے قرآن میں جن سائنسی حقائق کو ساڑھے چودہ سو برس قبل بیان کیا گیا انھیں آج جدید سائنس تسلیم کررہی ہے۔جب سے دنیا وجود میں آئی ہے یہاں ایک سے ایک اور زبردست اعلیٰ دماغ انسان پیدا ہوتے رہے ہیں۔

ایسے اہل عقل ودانش اور فلسفی گزرے ہیں جن کی فکر رسا کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی شخصیت گزری ہو جوکائنات اور انسانیت کے اس اہم ترین اور بنیادی سوال یعنی وجود باری تعالیٰ کی تلاش سے دو چار نہ ہوئی ہو، مذہبی عقائد ہوں یا علم منطق جس قدر سوچ بچار بڑھا پیچیدگی میں اضافہ ہوا کیوں کہ ذہین سے ذہین انسان کو بھی محدود عقل ملی ہے اور خود قرآن کہتا ہے کہ تمہیں بہت کم علم دیا گیا، خود سائنس میں علم طبیعیات کا ایک مسلمہ اور اٹل اصول یہ ہے کہ اگر کسی سائنسی اصول کے تحت کسی شے کا ''نہ ہونا'' ثابت نہ کیا جاسکے تو وہ لازماً موجود ہوتی ہے چاہے وہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے گویا عقل کا نام ہے کہ خدا کے وجود سے انکار کرنا عقل کی غلط ترجمانی کرنا ہے اگر شروع میں مادہ تھا تو وہ مادہ کہاں سے آیا؟

اس ضمن میں اٹھائے جانے والے سوالات ایسے ہیں جن کا کوئی آخری حل یا سرا نہیں ہے اور یوں تمام انسانوں کی عمریں ختم ہونے کے بعد بھی اس خود ساختہ مسئلے کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ انسانی عقل سائنس اور مذہب دونوں کی اولین بنیادوں کو سمجھنے سے قاصر اور بے بس ہے اس سب کے باوجود سائنس بڑے بڑے حقائق پر مشتمل ہے اور اس کی بدولت انسان نے زبردست مادی ترقی کی ہے اس طرح مذہب نے بھی اپنی تعلیمات کے ذریعے انسان کو اخلاق سکھایا ہے اور اسے حیوان کے درجے سے بلند کیا ہے، مذہب کی خاطر اگر جنگیں ہوئیں تو یہ مذہب ہی ہے کہ جس نے دنیا میں امن وامان اور سکون کو یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا بالخصوص اسلام دنیا میں امن و سلامتی کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں