تھرپارکر میں تاریخی مقامات اور اُن کی حالت زار

مذہب سے بالاتر تمام تاریخی مقامات خطہ کی تہذیب اور تاریخ کی امانت ہیں، جنکی حفاظت اور دیکھ بھال ہم سب کا قومی فریضہ ہے


مزمل فیروزی March 31, 2016
تاریخی مقامات کی قدر اور حفاظت جس دل جمعی اور ذمہ داری سے کرنی چاہیئے، وہ ہمارے ادارے اور آثار قدیمہ کے ماہرین انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔

تھر وسیع و عریض ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم بھی ہے۔ یہاں ایسے بہت سے تاریخی مقامات موجود ہیں جنہیں طوفانوں اور زلزلوں نے نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ عوام الناس کی آنکھوں سے پوشیدہ ان مقامات کو منظر عام پر لانے کے تحت ہم نے اپنی جاگتی آنکھوں سے انکا تفصیلی مشاہدہ کیا، جبکہ دوسرا دن ننگر پارکر سے متصل علاقے میں گزارا۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش عمر کوٹ ہے۔ ان کے والد شہنشاہ ہمایوں ایران جاتے ہوئے یہاں قیام کیا کرتے تھے۔ جب شہنشاہ اکبر نے تخت سنبھالا تو اپنی جائے پیدائش کا حق ادا کرتے ہوئے تھرپارکر کو تمام ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ تھرپارکر میں مختلف مذاہب کے پیروکار حکمران رہے ہیں، موجودہ کھنڈرات اور آثار قدیمہ جس میں جین دھرم، بدھ مت کے مندر، گوؤ شالے اور بوڈھیسر کی مسجد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہاں تمام مذاہب نے اچھا وقت گزارا ہے۔ صحرا کے تاریخی مقامات آج بھی شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔



تھر کے قدیم شہروں میں کاسبو، کیرتھی، ویر واہ، بوڈھیسر، امر کوٹ اور پاری نگر شامل ہیں جبکہ مٹھی، اسلام کوٹ، ڈیپلو، چیل مہار ایک اندازے کے مطابق ایک صدی سے زائد عرصہ پہلے آباد ہوئے ہیں۔ تھرپارکر کے صدر مقام مٹھی میں میروں نے اپنے دور اقتدار میں دو قلعے تعمیر کروائے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔ گھڑی بھٹ مٹھی کا وہ مقام ہے جہاں سے آپ پورے مٹھی کا نظارہ کرسکتے ہیں، اب تو حکومت وقت نے وہاں ایک یادگار بنادی ہے جہاں سیڑھیوں سے اوپر جا کر آپ بہتر طریقے سے مٹھی شہر کا نظارہ کرسکتے ہی۔

بھالوا اس تھری عورت کا گاؤں ہے جس کے بغیر تھر کے بارے میں لکھی ہوئی تمام باتیں نامکمل رہ جاتی ہیں۔ اس بہادر عورت نے حکمراں عمر سومرو کی طرف سے شادی کی پیشکش ٹھکرا دی تھی اور رانی کے بجائے تھر کی ماروی بن کر رہنے کو فوقیت دی تھی۔ اسی گاؤں میں ماروی کا کنواں بھی موجود ہے، جو اب ماروی کلچرل کمپلیکس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس شاندار عمارت میں ماروی اور اسکی سہیلی کی مٹی سے بنی مورتیاں، اس زمانے میں استعمال ہونے والے برتن اور چرخہ بھی موجود ہیں۔





ماروی کی رومانوی کہانی کے بعد مہاراج مہادیو نے ہمیں سارنگا اور سدھونت کی کہانی بھی سنائی۔ یہ دونوں رومانوی کہانیاں ہمارے لئے نئی تھیں، بھالوا سے 6 کلو میٹر دور گوڑی کے ''جین کا مندر'' میں چمگادڑوں کے مسکن دیکھ کر بہت حیرانگی ہوئی۔ ان بے تحاشہ مسکنوں کو پہلی نظر میں دیکھ کر یہ گمان ہوا کہ جیسے کوئی نقش نگاری کی گئی ہو۔



یہ مندر تین حصوں پرمشتمل تھا۔ پہلا حصہ صحن جہاں مندر کا پجاری بیٹھا ہوا تھا۔ دوسرا ایک گول سا ہال اوراس پر ایک گنبد اور اس ہال سے گزر کر اندر ایک اور کمرا جہاں کسی زمانے میں مورتی رکھی جاتی ہوگی، اور اس کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے کمرے پجاریوں کے چلوں کیلئے موجود تھے۔ اسلام کوٹ کا قلعہ میروں کے ابتدائی دور 1795ء میں تعمیر کیا گیا تھا، جس کا مقصد تھر پر اپنی اجارہ داری کو مضبوط رکھنا تھا۔ یہ قلعہ 386 مربع فٹ چوڑا تھا، جس میں ہر وقت میروں کی مسلح سپاہ مقامی بغاوت کو کچلنے کیلئے تیار رہتی تھی۔ اب اس تاریخی قلعہ کے آثار زمین درگور ہوچکے ہیں۔

مٹھی سے ننگرپارکر جاتے ہوئے وروئی نامی ایک چھوٹا سا گاؤں واقع ہے۔ یہاں کے لوگ جین مذہب کے پیرو کار ہیں، اسی لئے یہاں جین مذہب کا مندر تاحال موجود ہے۔ ویرا واہ بھی ننگرپارکر سے تھوڑا آگے جا کر تاریخی بندرگاہ پاری نگر کے ساتھ ہے، یہاں پر بھی جین مذہب کے مندر موجود ہیں۔ ان باقیات کی حالت زار دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہماری ناقدری کی وجہ سے چند سالوں میں نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے۔



تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک قدیم اور مہذب لوگوں کا ساحلی شہر تھا، لیکن بارہویں صدی میں قدرتی آفات کیوجہ سے یہ شہر برباد ہوگیا اور اب یہاں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ ویر واہ میں صرف ایک جین مندر پوری طرح باقی ہے جو اس وقت کے فن مہارت اور لوگوں کے رہن سہن کی داستان سنا رہا ہے۔ ویر واہ کے قرب و جوار میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر چینی مٹی کا ذخیرہ موجود ہے، جسے چائنا کلے کہا جاتا ہے۔ بوڈھیسر ایک قدیم شہر جو پارکر کے مشہور پہاڑی سلسلہ کارون جھر کے دامن میں واقع ہے۔ اسے پرانے زمانے میں بوڈھیسر نگری بھی کہا جاتا تھا۔ یہ اس وقت کے آباد اور مہذب شہروں میں سے ایک تھا۔ یہاں تالاب کی نشانیاں بھی ملتی ہیں جسے اب ڈیم کی شکل دے دی گئی ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ وسیع تالاب مقامی آبادیوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے شہرت کا حامل تھا۔



بوڈھیسر کارون جھر پہاڑ کے دامن میں ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی اس تالاب میں جمع ہوجایا کرتا تھا اور اس پانی سے ارد گرد کے بسنے والے اور مال مویشی مستفید ہوا کرتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1026ء میں سلطان محمود غزنوی سومناتھ فتح کرنے کے بعد واپس اسی راستے سے گزرا تو جاتے ہوئے قافلہ کے لوگ بھٹک گئے تھے، اس اثناء میں پانی کی تلاش کرتے یہ قافلہ بوڈھیسر آ نکلا اور یہاں کچھ عرصہ قیام کے دوران محمود غزنوی نے سنگ مرمر کی ایک یادگار بھی تعمیر کروائی۔ 1505ء میں سلطان محمود بیگڑا کے قیام کے دوران نظر اس یادگار پر پڑی تو انہوں نے اس یادگار کو سلطان مسجد میں تبدیل کروا دیا۔



اس مسجد کے آثار آج بھی موجود ہے۔ اسی علاقے میں 3 جین مذہب کے مندر بھی نظر آئے، جن کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ یہاں کے لوگوں کی الگ الگ رائے پائی جاتی ہے۔ دو مندر تو بالکل ساتھ ساتھ ہیں جبکہ ایک تھوڑا اونچائی پر واقع ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شیو مندر ہے جس کو دیکھ کر اہرام مصر یاد آجاتے ہیں اور اس سے تھوڑا سے آگے بالکل پہاڑ کے دامن میں ایک مندر ہے، جس کو لوگ سانپوں کا مندر کہتے ہیں، مگر دوسرے تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ اس مندر کا بھی بُرا حال ہے۔ ننگرپارکر یہ قدیم شہر کسی زمانے میں جین مذہب کا اہم مرک زتھا، یہاں مشہورمہا دیوی کا مندر ہونے کی وجہ سے جین مذہب کے ماننے والے ہزاروں کی تعداد میں حاضری کی نیت سے رخ کیا کرتے تھے۔ مندر کے پاس ہی ایک وسیع تالاب تھا جہاں یہ لوگ اپنے مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کیا کرتے تھے۔ تالاب کے قریب ہی ایک قلعہ تھا جسے برطانوی افواج نے باغیوں کا مرکز ہونے کے شبہہ میں مسمار کروا دیا تھا۔

کاسبو بھارتی صوبے گجرات کی سرحد پر واقع یہ قصبہ تھر کے سب سے زیادہ سر سبز و شاداب علاقہ ہے، اس کی وجہ شہرت یہاں موجود میٹھے پانی کا کنواں ہے اور یہاں سارا سال صرف 25 سے 30 فٹ کی گہرائی میں میٹھا پانی نکل آتا ہے۔ مقامی ہندو بڑے پیمانے پر سبزیاں اور فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ تھرپارکر کے تاریخی و قدیم آثار کچھ قدرتی آفات کی بھینٹ چڑھ گئے، کچھ حکومت وقت کی ستم ظریفی کا شکار ہوگئے اور باقی ماندہ آہستہ آہستہ تباہی کی کیطرف گامزن ہیں۔

ان تاریخی مقامات کی قدر اور حفاظت جس دل جمعی اور ذمہ داری سے کرنی چاہیئے، وہ ہمارے ادارے اور آثار قدیمہ کے ماہرین انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم نے اپنے اس تین روزہ دورے میں ان مقامات کی زبوں حالی اپنے قارئین کے گوش گزار کردی ہے، اب باقی کام پڑھنے والوں اور حکومت وقت کا ہے کہ ان باقیات کو بچانے میں اپنا کردار کس حد تک ادا کرتے ہیں۔

مذہب سے بالاتر یہ تمام تاریخی مقامات خطہ کی تہذیب و تمدن اور تاریخ کی امانت ہیں، جن کی حفاظت اور دیکھ بھال ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ ماروی کلچرل کمپلیکس کی طرح ان تمام تاریخی مقامات کو تفریحی مقامات میں بدل کر سیاحوں کیلئے کشش پیدا کی جاسکتی ہے، اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ کو متحرک ہونا پڑے گا۔

[poll id="1040"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں