ڈاکٹر انور سدید کی یاد میں
ڈاکٹر انور سدید صاحب سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات 20 سال پہلے کراچی میں ہوئی تھی،
یہ اتوار 20 مارچ 2016 کا دن تھا۔ صبح ساڑھے گیارہ بجے شاعر صابر ظفر کا فون آیا، وہ کہہ رہا تھا ''آپ کے دوست انور سدید کا انتقال ہوگیا'' یہ خبر کسی بھی وقت آسکتی تھی۔ دو سال سے وہ شدید بیمار تھے، آنکھوں کی بینائی کے ساتھ مختلف اعضا بھی ساتھ چھوڑ رہے تھے اور بالآخر اتوار کی صبح پانچ چھ بجے سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔ گھر والے انھیں آبائی شہر سرگودھا لے آئے تھے، جہاں انھوں نے زندگی کے آخری سانس لیے اور وہیں مدفون ہوئے۔
ڈاکٹر انور سدید صاحب سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات 20 سال پہلے کراچی میں ہوئی تھی، جہاں وہ ایک ادبی کانفرنس میں آئے تھے اور دوسری ملاقات تین سال قبل لاہور میں ہوئی تھی۔ حکیم راحت نسیم سوہدروی اور عبدالمجید رانا مجھے لے کر انور سدید صاحب کے گھر پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب کے گھر کے عین سامنے حکیم شفیق کھوکھر صاحب رہتے ہیں اور گھر میں ہی مطب بھی بنا رکھا ہے۔ انور سدید صاحب گھر پر موجود نہیں تھے، قریبی بینک گئے ہوئے تھے۔
لہٰذا ہم ان کے انتظار میں حکیم شفیق صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد حکیم راحت اور عبدالمجید صاحبان اپنی مصروفیت کی وجہ سے چلے گئے۔ میری تو مصروفیت یہی تھی کہ مجھے ڈاکٹر انور سدید صاحب سے ملنا تھا۔ اور پھر ڈاکٹر صاحب آگئے۔ اس روز لاہور میں ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ میں نے دیکھا وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے آرہے تھے۔
سر پر ہلکی پھلکی سی اونی ٹوپی اور سوئیٹر پہن رکھا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے گھر کا آہنی دروازہ چابی گھما کر کھولا اور اندر داخل ہوگئے۔ تب حکیم شفیق صاحب اٹھے اور ڈاکٹر صاحب کو میری آمد سے آگاہ کیا۔ انھوں نے فوراً ہی مجھے اندر بلالیا۔ ڈاکٹر صاحب میرے کہنے کے باوجود کھڑے ہوگئے اور مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے ہاتھ ملایا۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے ''آج کتنا خوش نصیب دن ہے کہ حبیب جالب کے بھائی میرے گھر تشریف لائے ہیں'' ان کے خیرمقدمی اظہاریے نے پھر ثابت کردیا کہ وہ خود کتنے بڑے انسان اور کتنے بڑے قلم کار ہیں۔
میں نے ان کی خدمت میں اپنی ترتیب و تدوین و تحریر کردہ ضخیم کتاب ''حبیب جالب۔ میں طلوع ہو رہا ہوں'' پیش کی۔ 1200 صفحات پر مشتمل کتاب میں ڈاکٹر صاحب کا حبیب جالب صاحب کے بارے میں ایک مضمون اور دو قطعات بھی شامل تھے۔ میں نے نشان دہی کی۔ ڈاکٹر صاحب نے میری کاوش پر مجھے داد و تحسین سے نوازا۔ ڈاکٹر صاحب تب بھی علیل تھے اور میں نے انھیں زور دے کر کہا کہ ''اس کتاب کے بارے میں کچھ بھی تحریر نہ کیجیے گا۔آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔'' اس ملاقات کے بعد میں جب بھی لاہور گیا تو پہلی فرصت میں ڈاکٹر صاحب کے سلام کے لیے ان کے ہاں حاضری دیتا۔ کراچی آکر بھی پندرہ بیس روز میں ایک بار فون پر ضرور رابطہ کرتا۔
میں نے کتاب ''اماں'' بھجوائی۔ انھوں نے میری بات نہیں مانی اور کتاب ''اماں'' پر مضمون لکھا، جو روزنامہ ایکسپریس کے علاوہ ندائے ملت اور ادبی جریدے نے الحمراء لاہور میں بھی شایع ہوا۔ چلو تحریر میں بھی ڈاکٹر صاحب کا مضمون رہ گیا۔ جو میرے لیے ہمیشہ افتخار رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے کام میں میرا بھی ذکر آئے گا۔
میں دیکھ رہا تھا کہ گزرتے دنوں کے ساتھ بڑی تیزی سے ان کے اعضا کمزور پڑتے جا رہے تھے۔ بینائی بھی تقریباً ختم ہو رہی تھی، مگر پھر بھی ان کی تحریریں آرہی تھیں، طویل خطوط کی صورت یا ادبی مضامین کی صورت۔
مارچ 2016 کا ادبی رسالہ الحمرا ملا، اس میں ڈاکٹر انور سدید صاحب کی غزل موجود تھی، شدید ترین علالت میں بھی ان کا لکھنا کسی معجزے سے کم نہیں اور ایسا لکھنا! غزل ملاحظہ فرمائیں۔
ہیں سامنے جو آپ کے دو چار ان دنوں
یاروں کے بھیس میں ہیں یہ اغیار ان دنوں
کی اس طرح ضعیفی نے یلغار ان دنوں
بے ربط ہوتی جاتی ہے گفتار ان دنوں
احباب جن کی دوستی پہ ناز تھا کبھی
تبدیل ان کے ہوگئے اطوار ان دنوں
ملاح کو ہے چاہ الیکشن میں جیت کی
کشتی ہماری کیسے لگے پار ان دنوں
پیرِ مغاں نے مے میں ہے پانی ملادیا
آتا نظر نہیں کوئی سرشار ان دنوں
کیجیے نہ تبصرے کا تقاضا کتاب پر
انور سدید رہتا ہے بیمار ان دنوں
غزل کا آخری شعر پڑھ کر میں نے ڈاکٹر صاحب کے گھر فون کیا۔ یہ ہفتہ 19 مارچ 2016 کا دن تھا، صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی، مگر کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ میں مطمئن ہوگیا کہ ڈاکٹر صاحب گھر والوں کے ساتھ سرگودھا چلے گئے ہوں گے، اتوار کا دن بھی گزار کے واپس لاہور آجائیں گے۔ یہاں تک تو میری بات درست تھی کہ ''ڈاکٹر صاحب گھر والوں کے ساتھ سرگودھا چلے گئے ہوں گے'' اس سے آگے والی بات غلط تھی کہ ''اتوار کا دن گزار کے ڈاکٹر صاحب لاہور واپس آجائیں گے۔''
ڈاکٹر صاحب اس بار سرگودھا گئے کبھی نہ واپس آنے کے لیے ۔ ہفتے کو ڈاکٹرز نے گھر والوں کو جواب دے دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کوما میں جاچکے تھے۔ گھر والے انھیں آبائی شہر، ڈاکٹر صاحب کے مرشد وزیر آغا کے شہر سرگودھا لے گئے اور اگلے روز اتوار کے دن۔ ذرا رکیے۔ مجھے عبید اللہ علیم کا شہر لکھنا ہے، انور سدید صاحب کی نذر کرنا ہے۔
اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے
اتوار 20 مارچ 2016 صبح ساڑھے دس بجے میں نے حکیم شفیق کھوکھر صاحب سے موبائل فون پر رابطہ کیا۔ وہ سرگودھا جا رہے تھے۔ ان کے ہمراہ ملک مقبول احمد (مقبول اکیڈمی والے) بھی تھے۔ میں نے دونوں احباب سے اظہار افسوس کیا اور یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ تک بھی میری تعزیت پہنچا دیجیے گا۔
چلیے! سفر تمام ہوا۔ ہمارے لیے تھکا دینے والا سفر! مگر ڈاکٹر صاحب نے بلا تھکاوٹ یہ سفر کاٹا۔ ان کے لیے لکھنا پڑھنا زندگی کی علامت بنا رہا۔ باقی وہ کس درجہ کے ادیب، محقق، شاعر تھے یہ تو اہل علم و ہنر طے کرچکے اور کریں گے بھی۔ میں ایک واقعہ ذکر کرتا چلوں، چھ ماہ پہلے معروف سینئر صحافی رشید بٹ صاحب سے ڈاکٹر انور سدید صاحب کے بارے میں بات ہو رہی تھی، وہ بولے ''ڈاکٹر انور سدید کا لکھا اس قدر! اور معیاری ہے کہ ترازو کا پلڑا زمین سے لگ جائے اور دوسرا ادبی پلڑا آسمان سے جا لگے گا'' خیر یہ جن کا کام ہے وہ جانے۔
میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بڑا شاعر، بڑا ادیب، اچھا انسان بھی ہوتا ہے۔ وہ محبتیں بانٹتا ہے۔ وہ مغرور نہیں ہوتا۔ وہ اپنے فن میں ڈوبا رہتا ہے اور اپنے بڑے پن کا احساس اسے ہر دم گھیرے رہتا ہے۔ وہ کوئی گھٹیا بات نہیں کرتا۔ انور سدید صاحب ایسے ہی بڑے انسان بھی تھے انور سدید جتنا کام ہوسکا کرکے چلے گئے۔ اب ان کا کام ہی ان کی یاد دلاتا رہے گا۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
اللہ ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)