کمال کا تسلسل

’’سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا‘‘۔ دوسرا ’’لوگ پھر آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘


[email protected]

لاہور: دوستوں میں دو مصرعے پڑھے جا سکتے ہیں۔ ایک ''سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا''۔ دوسرا ''لوگ پھر آتے گئے اور کارواں بنتا گیا''۔ میرا خیال ہے کہ آپ سمجھ گئے ہونگے۔

یا آپ پر منحصر ہے جو فرض کر لیں لیکن میں نے کوئی طنز کیے بغیر حقیقت بیان کی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری بیان کردہ حقیقت کچھ حضرات و خواتین کے لیے سمع خراشی سے زیادہ کچھ نہ ہو گی۔ میں مزید کہنا چاہوں گا کہ مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی اب دو افراد ہیں۔ 5 ذمے داران ہیں ان کی جماعت کا کوئی نام نہیں ان کا پارٹی پرچم بھی Confusion پیدا کر رہا ہے لیکن وہ کیا ہے۔ کون ہے؟ جس کے ہوتے یہ بے یار و مددگار دو افراد ایک پوری جماعت نظر آ رہے ہیں۔

یہ کیسی نہ دکھائی دینے والی طاقت ہے۔ نادیدہ مدد۔ اچھے اچھے پہلوان ڈھیلے ہو گئے۔ میرا تو خیال تھا ان کی پریس کانفرنس کے بعد کراچی کے حالات خراب ہوں گے۔ ٹھوں ٹھاں ہو گی۔ سڑکوں پر ٹائر جلیں گے۔ ہوا میں طپنچے داغے جائیں گے۔ کچھ پیشانیاں سرخ رو ہوں گی۔ ہوا کیا؟ کچھ نہیں!! کیوں نہ ہوا؟ بظاہر وجہ کے بجائے وجوہات محسوس ہو رہی ہیں۔ اللہ کرے ویسا نہ ہو جیسا میں سمجھ رہا ہوں۔ یا مبصرین کا ایک بڑا طبقہ۔ لیکن لوگ اب نتیجہ چاہتے ہیں۔

اب وہ کراچی ہو۔ ہالا ہو یا بدین یا لاہور۔ صرف وعدوں پر ٹرخایا جانا شاید اب قابل قبول نہیں۔ حالانکہ آج قائد تحریک کی ایسی Video بھی مشتہر ہو گئی جس میں وہ خود بہ درجہ اتم موجود۔ جس سے وہ قیاس آرائیاں ختم ہو جانی چاہئیں جو ان کی صحت و زندگی سے متعلق پچھلے دنوں زور و شور سے مارکیٹ میں نئے برانڈ کی حیثیت سے متعارف کروائی گئیں۔ پھر بھی یہ مان لینا کہ ''کمال تسلسل'' کی گرد بیٹھ جائے گی۔ نئے لوگ بھی پرانی قبروں میں دفن ہو جائیں گے۔ بہت مشکل ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں کراچی سے PTI نے 9 لاکھ اور متحدہ نے 12 لاکھ ووٹ لیے۔ سیٹیں کم و بیش متحدہ نے جیت لیں۔ فرق صرف تین لاکھ کا رہا۔ جس پر لندن کی جانب سے 90 کراچی پر اس وقت رابطہ کمیٹی کے اراکین کی سرزنش کارکنان سے کروائی گئی۔ لیکن دیکھنا ہو گا کہ اب سامنے کون ہے؟ ظاہر ہے وہ متحدہ ہی کے لوگ ہیں اردو بولنے والے۔ وہ ان تمام داؤ پیچ سے بخوبی واقف۔ جو متحدہ کا خاصا ہیں۔ میرے نقطہ نظر سے حالات میں تبدیلی ناگزیر۔ رفتہ رفتہ وہ جائیں گے۔

یہ آئیں گے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ زمانے گزر جاتے ہیں۔ تبدیلی۔ ہر آن تبدیلی۔ فطرت کا حصہ۔ قدرت کی منشاء ہے۔ فرق کسے پڑتا ہے؟ ممکنہ خیال میں اسے جو جاندار ہے۔ کسی بھی حیثیت اور حجم میں تبدیلی کا سامنا کر رہا ہوتا ہے۔ وہ مٹ جاتا ہے۔ ہٹ جاتا ہے۔ ایک پل کے لیے ذرا سی گونج۔ پھر خاموشی۔ قارئین کرام! میرا اک ذرا سا تعلق شاعری سے بھی ہے چنانچہ میں اس موضوع پر اپنے دو اشعار آپ کی نذر کرتا ہوں ممکن ہے معاملے پر روشنی پڑ جائے۔

جسے مدت سے ہم کہتے تھے اپنا
وہ رشتے میں نکل آیا کسی کا
خود اپنی ذات میں بہتا رہے گا
کبھی ہوتا نہیں دریا کسی کا

لیکن سندھ کا کیا ہو گا؟ کراچی کا کیا ہو گا؟ معاملات تو بدلنے جا رہے ہیں۔ بظاہر گھوڑے بھی چاک و چوبند۔ لگام بھی درست ہاتھوں میں نظر آ رہی ہے۔ کیا مستقبل کا کراچی بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلرز، اغوا کنندگان، جلاؤ گھیراؤ، ہڑتالوں سے آزاد ہو گا؟ لوگ سکھ چین سے رہ رہے ہونگے؟ کیا سندھ کرپشن سے پاک اور ایسا صوبہ ہو گا جہاں انصاف کا بول بالا ہو۔ جہاں حقوق سب کے یکساں تسلیم کیے جائیں۔ صوبہ ترقی کرے۔ قارئین کرام! مجھے تو تحریر کرتے کرتے بھی یقین کی سرحدوں سے دور ہٹنا پڑا۔ دل ہی مان کر نہیں دیتا۔ کم بخت ہو گیا۔

کسی عادی نشئی کی طرح یہ بھی عادی ہو گیا۔ ہر وقت کی خونریزی کا، ہنگاموں کا، بم دھماکوں کا۔ کبھی یہ سندھی ہوتا ہے کبھی پنجابی۔ کبھی بلوچ، کبھی پختون و مہاجر۔ جی ہاں میں اپنے دل کی بات کر رہا ہوں جو مجھ ہی سے منافقت پر تلا ہے۔ کیا ہوا اک ذرا سا خواب دیکھ لے تو۔ خوبصورت منظروں کا خواب۔ امن و آشتی کا خواب۔ ملکی ترقی کا خواب اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا خواب۔ حضور! اب تو مان جائیے۔ ہاں کہہ دیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں