بیٹھ کر ’’سایۂ گل‘‘ میں
میں اکیلا ہوں، مگر اب کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے،
کتنا بے چین تھا یہ دل! کس درجہ پریشان تھا یہ ذہن! کس قدر خراب تھے حالات! مگر یہ مقام! جہاں میں ہوں، کیا بیان کروں، کیا مقام ہے! آسمان بادلوں کے پیچھے ہے، سورج بھی آسمان کے ساتھ ہے، ہلکی ہلکی پھوار ہے، عنبر و گلاب و موتیا مہک رہے ہیں، سبز گھاس کا فرش ہے، میں ہوں اور ''سایۂ گل'' ہے، نسیم بہار کی چوری کھل کھل جارہی ہے، ایسی خوشبوئیں چراکر لائی ہے کیا بیان ہو، فضا معطر ہے، جنت تو جا کر دیکھیں گے، آج جیتے جی دیکھ رہے ہیں، بس دودھ، شہد اور شراب الطہورہ نہیں ہیں اور تو سب کچھ ہے، خوبصورت رنگین پروں والے ننھے ننھے پرندے ان کی ننھی ننھی چہکاریں برستی پھوار میں نہائے سبزہ و گل پتیوں پر ٹھہرے ہوئے قطرے، اُف میرے خدا! یہ سب کیا ہے؟
میں اکیلا ہوں، مگر اب کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے، کوئی ہے جو آرہا ہے، مگر یہ کون ہے، میرا دھیان ادھر ہے جدھر کوئی ہے، جو آرہا ہے، اب وہ میرے سامنے ہے، سفید لباس، بوٹا قد، چھریرا بدن آپ کون ہیں؟ میں آنے والے اجنبی سے پوچھ رہا ہوں۔
اک بندہ خدا۔
اس نے جواب دیا اور پھر بیٹھنے کی اجازت طلب کی، کیا میں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں؟ اجنبی بھلا مانس لگا، میں نے کہا بصد شوق، تشریف رکھیں وہ میرے قریب بیٹھ گیا۔
آپ ادھر کیسے نکل آئے؟ اجنبی نے مجھ سے پوچھا۔
بس! حالات سے دل پریشان تھا، سکون کی تلاش تھی، سو ادھر آنکلا، بہت پر فضا مقام ہے، یہاں آکر بہت اچھا لگا وہ حالات، جہاں سے میں آیا ہوں اور یہ جنت نظیر ٹکڑا میری بات سن کر اجنبی شخص بولا۔ ''یہ سب اسی رب کے کمالات ہیں''۔
میں اس کا بندۂ بے نوا، نہیں جس کے فضل کی انتہا،
مجھے ایسا ظرف بھی ہو عطا، کہ میں جیت سمجھوں جو مات ہے
ارے! آپ شاعر ہیں؟ میں نے اجنبی سے پوچھا۔
بندۂ خدا کہیے اور عاشق بھی ہوں۔
خدا خود جس کا عاشق ہے اسی ذاتِ پاک کا محبوب خدا کا میں بھی ادنیٰ سا غلام عاشق ہوں۔
مل جائے جس سے منزل عرفاں وہ راستہ
جو ڈوبنے نہ دے، وہ سہارا ہیں مصطفیؐ
تو کیا یہ سب اہتمام اس لیے! یہ معطر فضا، یہ بہار یہ نکھار، یہ رنگ، یہ خمار کہ اک عاشق مصطفی آئے گا اور محفل ذکر مصطفی سجائے گا۔
میں خود کلامی سے گزر چکا، تو میں نے اجنبی شاعر سے اس کا نام پوچھا۔ ارے نام میں کیا رکھا ہے۔ عشق سنیے اور اظہار عشق کرنے لگا۔
یاد ان کی دل و جاں میں، کچھ ایسی سمائی ہے
محسوس نہیں ہوتا محفل ہے کہ تنہائی
لکھا جب محمدؐ کا اسم گرامی
تو روشن سدا روشنائی ہوئی ہے
میرے آقا کا در جو دو سخا بے مثل ہے
اک دیا مانگیں تو پائیں آفتاب و ماہتاب
عاشق کو در رسولؐ کی حاضری نصیب ہوئی تو بارگاہ رسالت میں عرض کیا:
امیدوں، آزوؤں کی نشانی لے کے آیا ہوں
محبت کی حیات جاودانی لے کے آیا ہوں
جسے محفوظ رکھا تھا شعورِ عہدِ پیری تک
عقیدت کا وہی جوش جوانی لے کے آیا ہوں
آپ تو عشق نبیؐ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا، میری بات پر وہ بولے، ابھی کہاں! بس ہر دم لب پر یہی دعا ہے کہ عطاء محبوب خدا ہوجائے۔
مثلِ حسانِ عرب، شاعر اعلیٰ ہوجائے
جس پہ لطف و کرم سید والا ہوجائے
ذاتِ محبوبِ خدا سے جو شناسا ہوجائے
اس کا ہر لفظ محمدؐ کا قصیدہ ہوجائے
حضور! اب تو اپنا تعارف بیان فرمادیں! میں نے اپنے بے تابی کا پھر اظہار کیا تو بولے بندۂ خدا، عاشق مصطفی اور غلام سید وارث علی شاہؒ تو آپ وارثی سلسلے سے بیعت ہیں؟ میں نے وضاحت چاہی وہ بولے میرا سلسلہ وارثی اور میرا ذریعہ حضرت علی سلیم گل محمود وارثیؒ ہیں۔
باغ وارث کے گلِ تابندہ صندلؒ کے حبیب
آگیا جو سایۂ گل میں وہ نشتر خوش نصیب
تو یہ ''باغ وارث'' ہے! جہاں ہم بیٹھے ہیں! یہ گل، یہ بوٹے یہ سبزہ یہ خوشبو یہ بہار یہ پھوار یہ سب...
میری بات کاٹتے ہوئے وہ بولے ''یہ سب رنگ و نور کا اﷲ نبیؐ وارثؒ ہے، اپنے مخصوص انداز اور فکر کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ اب تو آپ اپنا نام بتادیں؟
میرے اصرار پر وہ بولے ''حضرت رئیس امروہوی نے میرے نام کے حوالے سے شعر عطا کیا تھا، یہ بھی میرے لیے بڑا اعزاز ہے''۔
زخم دل کے واسطے اک مہر گستر چاہیے
نشترِ اقبال یا ''اقبال نشتر'' چاہیے
جی ہاں! میرا نام اقبال اور نشتر تخلص ہے اور اکبر الٰہ آبادی میرے نانا تھے، میں نے ایک شعر میں اپنے نانا جان کا ذکر کیوں کیا ہے:
ہے حمد و نعت، غزل یا سلام اے نشترؔ
بفضِ ''حضرت'' اکبر یہ شان! شکرِ خدا
جناب اقبال نشتر وارثی بقیدِ حیات ہیں، عمر کی 89 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور آج بھی مشقِ سخن جاری ہے۔ سایہ گل ان کا مجموعہ کلام ہے، جس میں غزلیں، قطعات، منقبت، سلام اور دیگر مضامین کو شاعری میں پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں اقبال نشتر وارثی کا ایک دعائیہ شعر:
بخش دے امن واماں، مہرو محبت دیدے
یہ ہے نشتر کی دعا اس کے سوا کیا کہنا