ایک بار قرآن سے پوچھ لو

دنیا کےہرادارےکا ایک سربراہ ہوتا ہےلیکن خاندان کے ادارے کو چونکہ توڑنا مقصود تھا اس لیے وہاں اس تصور کی نفی کر دی گئی


Orya Maqbool Jan March 21, 2016
[email protected]

اللہ کے وجود سے انکار کرنے والے اور اس کی ہدایت کو تسلیم نہ کرنے والے مؤرخ، سماجیات کے ماہر اور نظام زندگی کا مطالعہ کرنیوالے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جب سے انسان نے تہذیبی زندگی اختیار کی ہے اور درختوں کی کھوؤں اور پہاڑوں کی غاروں سے نکل کر گاؤں، بستیاں اور شہر آباد کیے ہیں، اس کی اس تہذیب کی سب سے اہم پیشرفت یا انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ''خاندان'' کے ادارے کا قیام اور اس پر پورے معاشرے کی بنیاد ہے۔ یہ میں خالص سیکولر علوم میں درج حقیقت کی بات کر رہا ہوں۔

وہ علوم جن کی بنیاد یہ ہے کہ یہ سارا معاشرہ انسان نے بنایا اور سنوارا ہے اور ارتقا پذیر ہے اور دن بدن سنورتا چلا جا رہا ہے۔ ان علوم یعنی سماجیات، بشریات، سیاسیات کے ماہرین بھی یہ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ پوری انسانیت کی بنیاد ''خاندان''کے ادارے پر موقوف ہے۔ یہ بکھرتا ہے، ٹوٹتا ہے، تباہ ہوتا ہے تو پوری انسانیت تباہی کے راستے پر چل نکلتی ہے۔ اس ادارے کا مطالعہ کرنے والے اس کی ہئیت ترکیبی میں کسی قانون یا رولز و غیرہ کی بات نہیں کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہ انسان کی ''جبلی'' خواہشات ہیں کہ خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے۔ مثلاً ماں اپنے بچوں سے جبلی طور پر پیار کرتی ہے، خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین کے لیے پیار کرتے ہیں۔

دنیا بھر کا سیکولر علم اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ چونکہ خاندان کا ادارہ انتہائی اہم تھا اس لیے انسانوں نے خود اس کے قوانین مرتب کرنا شروع کیے اور اسے انسانی معاشرت کا بنیادی ادارہ بنا دیا۔ وہ ادارہ جس سے انسان کو محبت ملتی ہے، خوف کے عالم میں پناہ حاصل ہوتی ہے، پریشانی میں تسلی اور بھوک میں خوراک، غرض انسان کی تمام کی تمام ضروریات یہی ادارہ پوری کرتا ہے۔ مدتوں تک کاروبار اور پیشے بھی اسی ادارے سے وابستہ تھے۔ کسی شخص کو ملازمت ڈھونڈنے کے لیے دربدر نہیں ہونا پڑتا تھا۔ باپ کے کھیت، اس کا کاروبار یا اس کا پیشہ اولادوں کے لیے رزق کے وسائل پیدا کرتا تھا۔ دنیا کے یہی سیکولر صاحبانِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں معاشرتی زوال، تہذیبی ابتری اور انسانی اضطراب کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب خاندان کے ادارے کو زوال آیا۔ جب یہ بکھرا تو پورا معاشرہ بکھر کر رہ گیا۔

یہ کب بکھرنا شروع ہوا۔ اس کا زوال کس تاریخی موڑ سے شروع ہوا اور پھر وہ ادارہ جو انسانوں کے لیے واحد پناہ گاہ تھی، تاش کے پتوں کی طرح بکھرتا چلا گیا۔ ذرا تاریخ بار بار کھنگال کر دیکھ لیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ جس گھڑی جدید صنعتی انقلاب کے مکروہ عزائم نے معاشرے کو مجبور کیا کہ عورت کو کارخانوں، فیکٹریوں، دفاتر اور بازار میں لا کر اپنی دولت کی ہوس کو پورا کرنا ہے تو وہی دن اس ادارے کے زوال کا روز اول تھا۔ عورتوں کو ماں کے عظیم کردار، بیوی کے محبت بانٹنے والے رشتے، بہن کے لازوال تصور سے کنارہ کشی اختیار کر کے پہلے فیکٹریوں کے پٹوں کے گرد مزدوری، پھر دفتر، کیریئر وغیرہ کی طرف مائل کرنا آسان نہ تھا۔ اس کے لیے حقوق نسواں کا خوبصورت جال پھیلایا گیا۔

کس قدر چالاکی اور ہوشیاری سے اس خاندان کو توڑنے کے لیے ایک ناقابل عمل تصور پیش کیا گیا کہ میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور برابر ہیں۔ دنیا کا کوئی ادارہ خواہ حکومت ہو، تجارتی کمپنی ہو، کالج، فوج، یونیورسٹی، فیکٹری یا عام سی دکان کیوں نہ ہو۔ کیا اس میں اس طرح کا تصور نہیں ہے۔ کیا کہیں صدر اور وزیراعظم گاڑی کے دو پہیے ہوئے ہیں، سی ای او (CEO) اور سی او او (COO)کبھی گاڑی کے دو پہیے ہوئے ہیں۔ دنیا کے ہر ادارے کا ایک سربراہ ہوتا ہے لیکن خاندان کے ادارے کو چونکہ توڑنا مقصود تھا اس لیے وہاں اس تصور کی نفی کر دی گئی۔

ایک تحریک چلی جو 1900ء کے آس پاس اپنے عروج کو پہنچی۔ 1920ء میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا تو اس کے ساتھ ہی اسے برہنگی کا شکار کر کے اسی سال فلوریڈا کے ساحلوں پر مس ورلڈ کے مقابلے کے لیے کھڑا کر دیا گیا۔ اس کے بعد خاندان نے تو بکھرنا تھا ہی لیکن اس کے نتیجے میں جو اس عورت پر بیتی ہے اس کا تصور ہی اس قدر بھیانک اور خوفناک ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ وہ گھر جسے اس نے صدیوں سے آباد کیا تھا، بسایا تھا، محبت سے بھرا تھا ٹوٹا تو اسی عورت پر افتاد آئی۔ اگر یہ گھر اتنا خوبصورت نہ ہوتا، یہاں عورت، ماں، بیٹی، بیوی، بہن اور بہو کی حیثیت سے قابل احترام نہ ہوتی تو دنیا میں قدیم تاریخ سے آج تک اس پر کہانیاں نہ کہی جاتیں، داستانیں نہ رقم ہوتیں۔

جیسے ہی عورت کارپوریٹ کلچر کے بازار میں آ کر کھڑی ہوئی وہیں اس کی حیثیت منوانے کے لیے قانون بنائے گئے کہ اب احترام کا رشتہ نہیں بلکہ برابری کا تصور تھا۔ گزشتہ ایک صدی میں حقوق نسواں گھر سے تھانے اور عدالت میں آیا اور حشر دیکھیں۔ سب سے اہم ملک امریکا میں ہر نو (9) سیکنڈ میں ایک عورت گھر میں مار کھاتی ہے۔ پوری دنیا میں تین میں سے ایک عورتیں مار کھاتی ہیں، گالیاں سنتی ہیں اور ایسا کرنے والے گھر کے افراد ہوتے ہیں۔ امریکا میں ہر سال ایک کروڑ بچے گھروں میں تشدد کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے 25 لاکھ اس بری طرح کہ اسپتال داخل کروانا پڑتا ہے۔

امریکا میں ہر روز تین عورتوں کو ان کے خاوند یا بوائے فرینڈ قتل کرتے ہیں۔ امریکا میں وہ عورتیں جو خاوند کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں سالانہ ان کے علاج معالجے پر حکومت کو چار ارب ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین جہاں نوکری کے مسائل کا شکار ہوئی ہیں وہیں ان کے لیے عارضی پناہ گاہ بنانے پر 2 ارب ڈالر سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں۔

یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں حقوق نسواں بل شہباز شریف صاحب کی حکومت سے پچاس سال پہلے آ چکا تھا اور جس طرح پنجاب اسمبلی نے خاندان کے ادارے کو توڑ کر اس کے مسائل کو ایس ایچ او اور عدالت کے مجسٹریٹ کے سامنے لا کر کھڑا کیا ہے، امریکا اور مغرب میں بھی یہی ہوا تھا اور آج ان کے ہاں گھریلو تشدد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

آج دنیا کا ہر ماہر سماجیات و نفسیات اس بات پر متفق ہے کہ قانون کسی قدر بھی سخت ہو عورتوں پر تشدد کو نہیں روک سکتا اور سب سے اہم بات جس کا وہ رونا روتے ہیں کہ ہم نے خاندان کے ادارے کو تباہ کر کے انسان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ نفسیاتی مریض بھی ہے اور معاشرتی مجرم بھی۔ پاکستان میں خاندان کو توڑنے کا سہرا نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومت اپنے سر باندھنا چاہتی ہے لیکن بے بسی کا عالم یہ ہے کہ سوال کیا جاتا ہے کہ بل میں خلاف اسلام کیا بات ہے۔ قرآن پڑھیں اور اللہ کا مقصود سمجھ لیں۔

قرآن کے صفحات کی ورق گردانی کی ہوتی تو معلوم ہوتا کہ اللہ نے جو اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہدایت نازل کی، اس ہدایت کی اہم ترین عطا خاندان کا ادارہ ہے جو عورت اور مرد سے مل کر بنتا ہے۔ اللہ انھیں گاڑی کے دو پہیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کا لباس کہتا ہے۔ لباس ایک دوسرے کے عیب ڈھانپنے کے لیے ہوتا ہے، ایک دوسرے کو چوراہے، تھانے یا عدالت میں رسوا کرنے کے لیے نہیں۔ وہی اللہ ہے جس نے اس خاندان کے ادارے کو مستحکم کرنے کے لیے والدین کی نافرمانی کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا۔ جس نے جنت کا راستہ ماں کے قدموں تلے رکھا۔ جس نے پورے قرآن پاک میں صرف ایک رشتے کے بارے میں درگزر اور عفو کے خوبصورت احکام دیے اور اس کے لیے اپنے ہاں عظیم اجر رکھا۔

یہ صرف اور صرف اس ادارے یعنی خاندان کے احترام اور تحفظ کے لیے تھا ورنہ اللہ یہاں بھی حدود اللہ کا نفاذ فرما دیتا۔ اللہ فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولادوں میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور الرحیم ہے۔ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے (التغابن 14-15)۔

میاں بیوی کے اختلاف پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو راستہ قرآن حکیم میں دکھایا ہے وہ بھی اس خاندان کے ادارے کے استحکام، تحفظ اور احترام کی ضمانت دیتا ہے۔ فرمایا ''اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے فیصلہ کرانے کے لیے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا کر دے گا۔ بے شک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے (النساء 25)۔

یہ اللہ ہے جو دلوں میں اتفاق پیدا کرتا ہے۔ عدالت یا ایس ایچ او نہیں۔ اللہ کے احکامات اور رسول اللہ کی تعلیمات کا یہ منشا ہی نہیں کہ خاندان کے ادارے کی حرمت پامال ہو، اس کے جھگڑے بازار تک آئیں، ان کی عزتیں چوراہوں میں نیلام ہوں، مغرب نے یہ کر کے دیکھ لیا اور آج بھگت رہا ہے۔ شاید شہباز شریف ہمیں بھی اس راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں یا پھر انھیں علم ہی نہیں، ایک بار تعصب کی عینک اتار کر قرآن سے پوچھ لو آپ اس بل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں