آئینہ جہاں نما

یہ (قرآن) کتاب اﷲ ایک ایسا آئینہ جہاں نما ہے جس میں ہم سے پہلے کی اقوام پر جو حالات آئے ہیں ان کا تذکرہ ہے


[email protected]

یہ (قرآن) کتاب اﷲ ایک ایسا آئینہ جہاں نما ہے جس میں ہم سے پہلے کی اقوام پر جو حالات آئے ہیں ان کا تذکرہ ہے، ہمارا بھی ذکر ہے اور آیندہ کے حالات کی پیشین گوئیاں بھی بخوبی موجود ہیں، ہمارے مابین جتنے اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں ان سب کا فیصلہ اور حل اس کتاب اﷲ میں موجود ہے۔

اﷲ کے رسولؐ نے فرمایا جس نے قرآن پر عمل کیا اس کا اجر اﷲ کے پاس محفوظ ہے، جس نے اس قرآن کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیا اس نے انصاف سے کام لیا، جس نے اس کی بنیاد پر کوئی بات کہی اس نے سچ کہا اور جس نے اس کتاب کی جانب بلایا کسی کی ہدایت ہو نہ ہو اس کی اپنی ہدایت ضرور ہو جائے گی۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس قرآن میں اپنے حالات بھی تلاش کریں اور ان حالات کی خرابی کے اسباب کا جائزہ لیں۔ آخر کیا وجوہات ہیں ان حالات کی، یہ حالات اﷲ کی جانب سے کوئی عذاب ہے یا آزمائش؟ وطن عزیز آج مختلف النوع مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہے۔

لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم سے استفادہ کرتے ہوئے آیات کی روشنی میں قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ہمیں جو ہزیمت اٹھانا پڑی ہیں ان کا جائزہ بھی لے لیا جائے، چنانچہ پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ ہماری تباہی و بربادی کا اصل سبب ایک ہے اور وہ یہ کہ ہم نے ملک بنایا اسلام کے نام پر، اب اسلام کی جانب جو پیش قدمی ہم نے کی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔

لہٰذا حقیقت حال یہ ہے کہ پسپائی ہوئی ہے، پیش قدمی نہیں۔ پھر کیا خیال ہے کیا اﷲ کے عذاب کا کوڑا ہم پر نہیں پڑے گا؟ ہم نے آج تک جو ہزیمت اٹھائی، اٹھا رہے ہیں اور آیندہ جو کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے، کیا وہ ہماری اﷲ کے حضور عہد شکنی، بدعہدی، بدعملی اور ناشکری کا نتیجہ نہیں ہے؟ چنانچہ آج کیا ہو رہا ہے، ہم بحیثیت مجموعی پوری قوم اس کے ذمے دار اور مجرم ہیں کہ آج تک کبھی اسلام کی طرف کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہو سکی۔ اسلام کا سوشل جسٹس کا نظام، عدل اجتماعی، اخوت و بھائی چارگی، مساوات، معاشرتی نظام، رواداری اور آزادی... یہ سب کہاں ہیں؟

پاکستان کی سیاست و حکومت پر آج جب کہ وطن عزیز اپنی آزادی کے 68 برس مکمل کر چکا ہے، اس پر مکمل طور پر سیکولرازم کا رنگ کیوں چھایا ہوا ہے؟ کیا ہوا وہ نعرہ ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اﷲ''۔ کہاں گیا وہ مقصد جس کی خاطر پاکستان کا قیام رمضان شریف کی 27 ویں شب مبارک کو عمل میں آیا تھا؟ اﷲ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی قوم اﷲ تعالیٰ سے وعدہ کرے کہ ''اے اﷲ! ہمیں آزادی دے دے، ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے'' تو اﷲ تعالیٰ اسے ضرور آزادی دیتا ہے۔

لہٰذا وطن عزیز کا قیام در اصل اﷲ تعالیٰ کی حکمت عملی، اس کی مشیت اور اس کی تدبیر سے ہی عمل میں آیا تھا۔ غور فرمائیے کہ سورہ الانفال کی یہ آیت بحیثیت پاکستانی مسلمان قوم ہم پر کتنی صادق آتی ہے کہ ''اور یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تعداد میں کم تھے، زمین میں تم کو دبا لیا گیا تھا۔

تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں تو اﷲ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی اور اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں پاکیزہ رزق پہنچایا تا کہ تم شکر کرو'' اور شکر کا تقاضا ہے کہ اس ملک خداداد میں اﷲ کا دین قائم کرو، جس کا تم نے وعدہ کیا تھا اور دعائیں کی تھیں، اسی طرح سے سورۃ الاعراف پر بھی غور فرمائیے ''قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر وہ دیکھے گا کہ تم لوگ کیسے عمل کرتے ہو''۔

پاکستان کا معرض وجود میں آ جانا بھی ایک طرح سے ہندوؤں کی ہلاکت تھی، کیوں کہ مہاتما گاندھی چند مہینے پہلے کہہ چکا تھا کہ پاکستان صرف میری لاش پر بن سکتا ہے، یہی وجہ تھی کہ جب ہماری عہد شکنی، بدعہدی، بدعملی اور ناشکری کے سبب 1971ء میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں چھوٹا عذاب دکھا کر بڑا عذاب فی الحال ٹال دیا۔ ازروئے الفاظ قرآنی ''اور لازماً ہم انھیں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزا چکھائیں گے، شاید کہ وہ لوٹ آئیں'' (سورۃ السجدہ) اور 1971ء میں جب ملک خداداد پاکستان دولخت ہوا تو یہ پاکستانی تاریخ کی عظیم ترین ہزیمت تھی۔

نعمت کے بعد ہزیمت ہمیں کیوں اٹھانا پڑی؟ ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو اس کا واضح جواب ہمیں خود ہی مل جائے گا۔ اس ضمن میں اب سورۃ التوبہ بھی ملاحظہ فرما لیجیے ''ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر اﷲ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے نواز دے گا (غنی کردے گا) تو ہم لازماً صدقہ خیرات کریں گے اور نیک بن کر رہیں گے۔ پس جب اﷲ تعالیٰ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا تو انھوں نے بخل سے کام لیا اور پیٹھ موڑ لی اور وہ تھے ہی پھر جانے والے تو (نتیجہ یہ نکلا کہ) ان کی بدعہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اﷲ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اﷲ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا، جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا''۔

آج بحیثیت قوم ہمارے درمیان عصبیتیں ہیں، صوبائی عصبیتیں، علاقائی، لسانی عصبیتیں اور پھر مذہبی و مسلکی اختلافات ہیں، لوٹ مار، لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت گری روز مرہ کا معمول بن چکا ہے آج ہم نے اس حدیث شریف کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے کہ ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اس کی جان مال اور عزت و آبرو دوسرے پر حرام ہے'' (متفق علیہ)معلوم ہوتا ہے کہ ہم اﷲ کے اس عذاب کا شکار ہیں جس کی جانب اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت 65 میں توجہ دلائی ہے کہ ''اے نبیؐ! ان سے کہہ دیجیے کہ اﷲ قادر ہے، اس بات پر کہ کوئی عذاب بھیجے تم پر تمہارے سروں کے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے عذاب نکال دے یا تمہیں طبقات اور گروہوں میں تقسیم کر کے آپس میں ٹکرا دے'' یہ بدترین شکل ہے عذاب کی، اور اﷲ ظالم نہیں ہے ہم خود ظالم ہیں۔تمام انسانیت دو اعتبار سے برابر ہے۔

ایک تو سب کا خالق ایک ہے اﷲ یعنی وحدت خالق و مالک اور دوسرے اس اعتبار سے کہ یہ قومیں، قبیلے اور نسلیں تو بعد کی پیداوار ہیں ہم سب ایک انسانی جوڑے، ایک ماں باپ، آدم و حوا کی اولاد ہیں۔

لہٰذا درحقیقت ہم سب حقیقی بھائی بہن ہیں۔ ہمارے مابین کوئی فرق، اپنے اصل کے اعتبار سے نہیں اور یہ تفرقے یہ نفرتیں، یہ تقسیم اور یہ رنگ و نسل، شکل و شباہت، زبان و لب و لہجے کا فرق یہ قبیلے اور یہ قومیں ان کا صرف ایک فائدہ اور مقصد اﷲ نے بتایا ہے کہ اس سے ہم ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں اور اگر اس میں آپ نے اپنے لیے کوئی فخر و غرور کا سبب جانا اور اس کی خاطر اپنی جان دی تو سمجھ لو کہ قرآن سے آپ کی سوچ مختلف ہو گئی اور آپ کی فکر و نقطۂ نظر قرآنی فکر و نقطہ نظر سے اپنی جڑ اور بنیاد کے اعتبار سے متصادم ہو گیا۔ قرآن کی چودہ سو برس پہلے پیش کی جانیوالی انقلابی پیشرفت میں نہ صرف ہماری بلکہ کل انسانیت کی فلاح و نجات اور کامیابی و کامرانی کا راز مضمر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں