درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
عامر خان ایک اداکار‘ ہدایت کار اور تخلیقی فلم ساز کے حوالے سے اب کسی تعارف کا محتاج نہیں
عامر خان ایک اداکار' ہدایت کار اور تخلیقی فلم ساز کے حوالے سے اب کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ اہل نظر کی رائے میں فی الوقت بھارتی فلم انڈسٹری میں اس کے پائے کی شخصیت (کم از کم اس کی نسل کی حد تک) کوئی اور نہیں لیکن اس کا ایک کام ایسا ہے جس پر نسبتاً بہت کم لوگوں کی نظر ہے لیکن جس کا درجہ اور اہمیت بے حد بلند اور قابل قدر ہیں کہ یہ جوان مختلف النوع معاشرتی مسائل پر ایک ایسا ٹی وی پروگرام بھی کرتا ہے جو نہ صرف بیک وقت دلوں کو چھوتا اور دماغوں کو جھنجھوڑتا ہے بلکہ سامعین کے اندر عمل اور اعتماد کی ایک ایسی جوت بھی جگاتا ہے جو پورے معاشرے کو اخلاقی اور فکری اعتبار سے ایک بلند تر سطح پر لے جاتی ہے۔
اس پروگرام کی دوسری اور بہت خوشگوار خوبی یہ ہے کہ عامر خان سپر اسٹار ہونے کے باوجود زیادہ سے زیادہ وقت اپنے مہمان کو دیتا ہے اور خود اس قدر توجہ سے اس کی باتیں سنتا ہے جیسے اچھے طالب علم استاد کا لیکچر سنتے ہیں جب کہ ہمارے بیشتر ٹی وی اینکرز یا تو اپنا اگلا سوال کرنے کو بے تاب ہوتے ہیں یا فاضل مہمان کی کہی ہوئی بات کو اس طرح سے دوہراتے ہیں جیسے انھیں سامعین کی دانش یا کہنے والے کی صلاحیت پر سرے سے اعتماد ہی نہ ہو اور اس کے ساتھ بلاوجہ ٹوکنا یا معزز مہمانوں سے ''مجرم'' کے انداز میں چیخ چیخ کر بات کرنا بھی مقبولیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔
حالانکہ اینکر کا اصل کام ہاکی کے سینٹر ہاف کی طرح گیند کو مہارت اور سرعت کے ساتھ کسی فارورڈ کھلاڑی کی طرف لڑھکانا ہوتا ہے تاکہ وہ اسے لے کر آگے بڑھے مگر ہمارے بیشتر اینکر حضرات خود ہی سینٹر فارورڈ بن کر گیند کو اپنے پاس رکھنے اور گول کرنے کے لیے چل پڑتے ہیں۔
عامر خان کے اس متذکرہ پروگرام کے مہمان ایک میڈیکل ڈاکٹر تھے جنہوں نے ملکی اور ملٹی نیشنل ادویہ ساز کمپنیوں کی تیار کردہ بہت مہنگی اور برانڈڈ دواؤں کے بجائے ان کی اصلی اور بنیادی یعنی جینرک شکل کے استعمال کے فوائد بتائے کہ کس طرح انھیں دوا ساز کمپنیوں سے جینرک نام سے وہی دوا بیس گنا کم قیمت میں خرید کر غریب مریضوں تک پہنچائی جا سکتی ہے جو تجارتی ناموں' نت نئی پیکنگ' پبلسٹی اور دیگر تجارتی ہتھکنڈوں پر اٹھنے والے اخراجات اور کمپنیوں کے منافعے کی ہوشربا سطح کے باعث غریب تو کیا متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو جاتی ہے۔
ان ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ بعض ادویہ کی لاگت چند روپوں میں ہوتی ہے مگر وہ مریض اور اس کے لواحقین کو سیکڑوں بلکہ بعض اوقات ہزاروں میں ملتی ہے، اس کا سارا الزام ادویہ ساز کمپنیوں پر ڈالنا بھی مناسب نہیں کہ بعض اوقات محکمہ صحت کے افسران اور ان کی غلط پالیسیاں بھی چور دروازے بنوانے اور کھولنے کا باعث بن جاتے ہیں۔
یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں کہ بعض بڑی فارماسوٹیکل کمپنیاں اپنی ان خواہ مخواہ کی مہنگی کی ہوئی ادویہ کی فروخت کے لیے بیشتر ڈاکٹرز کو مختلف خفیہ اور کھلے طریقوں سے براہ راست یا بالواسطہ تحریص دے کر اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور یوں مریض ڈاکٹر کی ہدایت اور تاکید پر کوئی ایسی مخصوص دوائی خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو کسی اور نام سے کئی گنا سستی دستیاب ہو سکتی ہے جب کہ جینرک نام سے اس کی قیمت اور بھی کئی گنا کم ہو جاتی ہے۔ ان ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی بڑی بڑی کمپنیوں سے جینرک نام اور شکل میں یہ ادویہ تھوک میں خریدتے ہیں اور پھر یہ ان تمام سرکاری اور نیم سرکاری اسپتالوں کو فراہم کی جاتی ہیں جہاں زیادہ تر غریب لوگ علاج کے لیے آتے ہیں۔
وطن عزیز کی حد تک بھٹو صاحب کے ابتدائی دور میں وزیر صحت شیخ رشید (آج والے شیخ رشید نہیں) کی سربراہی میں دواؤں کو تجارتی کے بجائے جینرک ناموں سے بنانے اور فروخت کرنے کا قانون پاس کیا گیا جو اپنی بنیاد میں ایک بہت مثبت اور عمدہ قدم تھا لیکن یہ کام بہت جلد بازی میں اور بغیر مناسب تیاری کے کیا گیا اور اس کے ردعمل سے نمٹنے اور اس کی نوعیت کو سمجھنے کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی تبدیلی کے عمل کے دوران کسی قسم کے متداول طریقہ کار پر پہلے سے غور و فکر کیا گیا۔ سو ہم نے دیکھا کہ یہ اسکیم بھی صنعت اور تعلیم سے متعلق نیشنلائزیشن کے پروگرام کی طرح اصلاح کے بجائے مزید خرابیوں کا باعث بن گئی۔
پلاننگ کا یہ فقدان اب ایک طرح سے ہماری عادت اور روایت بن چکا ہے کہ ہم اچھا سوچ تو لیتے ہیں مگر سوچ اور عمل کے درمیان موجود اور متوقع مسائل کے حل کا کوئی طریق کار وضع نہیں کر پاتے جس کا فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جن کو آپ کچھ بھی کہہ لیں عوام دوست نہیں کہہ سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ کسی بھی بدنام سے بدنام شعبے میں بھی سب لوگ برے نہیں ہوتے مگر یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ ایک مچھلی بھی سارے جل کو گندہ کر سکتی ہے۔
شیخ سعدی نے نوشیرواں سے متعلق ایک حکایت میں بیان کیا ہے کہ اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب ناجائز طریقے سے توڑ لے تو اس کے ساتھی اور حواری پورا باغ اجاڑ دیتے ہیں اور یہ بھی کہ بعض لوگ اپنے معمولی سے فائدے کے لیے عوام' حکومت اور انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتے ہیں بات چونکہ دوائیوں اور ادویہ ساز کمپنیوں سے شروع ہوئی تھی اس لیے میں اس کا اختتام بھی ایک ایسے چشم دید واقعے پر کرنا چاہتا ہوں جو تیس سال پرانا ہونے کے باوجود آج بھی میرے لیے اتنا ہی تکلیف دہ ہے جتنا اس وقت تھا۔
ہوا یوں کہ میرے ایک دوست نے پہاڑی مقام پر ایک بہت ہی خوب صورت مکان بنایا کہ جہاں وہ دنیا کے دھندوں سے ہٹ کر کچھ دیر اپنے اور فطرت کے ساتھ بسر کرسکے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد باقی وقت یہیں گزارے۔ ایک دن اچانک پتہ چلا کہ اس نے وہ مکان بیچ دیا ہے میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا اس کی دو وجوہات ہیں ایک کا تعلق خوف سے ہے اور دوسری کا لالچ سے اور تفصیل یہ بتائی کہ یہ مکان اس وقت کے ایک وزیر صحت کو پسند آ گیا تھا اور وہ اسے خریدنا چاہ رہا تھا، میں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اسے ٹالنے کی کوشش کی جب کہ اسی دوران میں مجھے ایک اور طرف سے چار گنا قیمت کی آفر کی گئی۔
میں نے بزنس اور مصلحت دونوں کو سامنے رکھ کر ہاں کر دی، بعد میں پتہ چلا کہ اس کا اصل خریدار چند ادویہ ساز کمپنیوں کا ایک گروپ تھا جس نے یہ مکان وزیر موصوف کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا اور بدلے میں ان سے کچھ ادویہ کی قیمت میں ایک مخصوص عرصے کے لیے 10% اضافے کا حکم حاصل کر لیا اور یوں یہ 20لاکھ کا مکان 80 لاکھ میں بکنے کے بعد قوم کو تقریباً چارارب روپے میں پڑا۔
صحت کا شعبہ کسی بھی مہذب معاشرے اور ذمے دار حکومت کی اولین ترجیحات میں ہوتا ہے اور اس میں ہونے والی کرپشن مالی سے کہیں زیادہ جانی ہوتی ہے کہ ادویہ کی ناجائز گرانی کے چکر میں ہر برس بے شمار لوگ معمولی اور آسانی سے ٹھیک ہو جانے والی بیماریوں کا بھی علاج نہ کروا سکنے کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔
اگر ہمارے ہمسایے میں لوگ اس قتل عام کو روکنے کے لیے راستے ڈھونڈ سکتے ہیں تو کیا ہم میں سے کوئی گروہ ایسا پیدا نہیں ہو سکتا جو اس حکم خداوندی کو عملی طور پر ساری قوم کے دلوں میں راسخ کر دے کہ ایک خون ناحق پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہوتا ہے۔