کمال کی آئسکریم سیاست

اچھا ہوا ’’نثار گل ‘‘ ابھی نہیں ہے ورنہ وہ اب تک اس خطے کا سب سے بڑا دہشتگرد قرار دیا جاچکا ہوتا


انیس منصوری March 13, 2016
[email protected]

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اچھا ہوا ''نثار گل '' ابھی نہیں ہے ورنہ وہ اب تک اس خطے کا سب سے بڑا دہشتگرد قرار دیا جاچکا ہوتا ۔نثار کا تعلق قبائلی علاقے سے تھا ۔ چھوٹے سے گاؤں اور برادری میں اُس کی خوبصورتی کے چرچے تھے ۔ مگر کئی پھولوں کی طرح اُسے بھی غربت کے کیچڑ نے گھیرا ہوا تھا۔ شادی اُسے بھی کرنی تھی ۔ گاؤں کی لڑکیوں کی کوئی کمی بھی نہیں تھی ۔ لیکن گھر کی ذمے داری بھی اُس کے سر تھی ۔ باپ کے بچے زیادہ تھے ۔اور کمائی کا کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔ اس لیے اُس نے گھر والوں سے ضد کی کہ وہ لاہور جا کر کچھ پیسے کمائے گا۔ وہ سمجھتا تھا کہ لاہور میں وہ اتنے پیسے کمالے گا کہ چند برسوں میں اُس کی ساری مشکلات ختم ہو جائے گی ۔

اُس نے اپنے ایک گاؤں کے لڑکے کا لاہور میں پتہ معلو م کیا ۔ اور لاہور کے لیے نکل گیا ۔ اُس نے اڈے پر اترتے ہی یہ سمجھ لیا کہ جو شہر صدیوں سے لاکھوں لوگوں کو پالتا رہا ہے وہ مجھے بھی اپنے دامن میں جگہ دے دیگا ۔ بس اڈے سے وہ اپنے دوست کے پاس پہنچا ۔

مگر رات اُس کی پلکوں پر ہی کٹی ۔ وہ یہ سوچتا رہا کہ وہ فوراً کا م کرنے لگ جائے گا ۔ اور پھر تھوڑے ہی دنوں میں اُس کے پاس اتنے پیسے آجائینگے کہ وہ گاؤں میں سارا قرض اتار دیگا ۔ وہ ہر کروٹ پر رات بھر یہ سوچتا رہا کہ پیسے وہ گاؤں ضرور بھیجے گا لیکن وہ اپنا ٹھکانہ لاہور کو ہی بنائے گا ۔ اُس کی جب ڈیرے میں آنکھ کھلی تھی تو اُس کا دوست ساتھ ہی تھا ۔ نثار کا خیال تھا کہ آج سے اُس کی نئی دنیا کا آغاز ہو رہا ہے ۔ دوست نے پوچھا کہ یہاں کون سا کام تم کر لو گے ۔ ؟نثار نے فخر سے کہا مجھے سارے کام آتے ہیں ۔ دوست نے زور دار قہقہہ لگایا۔ شاید یہ پہلا لمحہ تھا جب نثار کو لاہور برا لگا ۔

دوست نے کہا کہ پلمبر کا کام آتا ہے ۔ نثار کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا پوچھ رہا ہے ۔ دوست نے اپنے ایک پرانے جاننے والے سے کہہ کر نثار کو ایک آئسکریم کا ٹھیلا کرائے پر لے کر دے دیا ۔ نثار کا پہلا خواب ٹوٹ چکا تھا کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔ اُس نے اس حقیقت کو دیکھ تو لیا لیکن مانا نہیں ۔ مگر مجبور تھا اس لیے آئسکریم کے ٹھیلے کو لاہور کی سڑکوں پر دوڑانے لگا ۔ اور پھر اُسے اپنی ایک اور خواہش کی تکمیل کا راستہ مل گیا ۔

اُسے ایک دن ویمن کالج کا دروازہ نظر آیا جہاں سے لڑکیاں باہر نکل رہی تھی ۔ اُس نے اپنی آئسکریم کا ٹھیلہ وہی لگا دیا۔اُس کا ایک خواب ٹوٹ گیا تو اُس نے سوچا کہ میں خوبصورت تو ہوں ۔اس لیے لڑکیاں میری دیوانی ہو جائینگی۔ مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ''مرتبہ'' یا اسٹیٹس کیا چیز ہوتی ہے ۔ یوں ہی ایک روز لڑکیوں نے نثار کا مذاق اڑا دیا ۔ وہ باتیں کرتی ہوئی آگے بڑھ گئیں مگر نثار کو ایسے لگا کہ جیسے اب اُس کے اندر جینے کی کوئی تمنا نہیں رہی ۔ اُس نے ایک چاقو اٹھایا اور لڑکیوں پر حملہ کر دیا ۔ حملہ شدید تھا ۔ اور سامنے لڑکیاں تھی ۔ ایک لڑکی موقعہ پر جاں بحق ہو گئی اور کئی کو انتہائی خراب حال میں اسپتال پہنچایا گیا ۔

یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ کچھ لوگ اس بات پر بحث کررہے تھے کہ نثار ایک شرابی آدمی ہے اور وہ کئی لڑکیوں کو مار چکا تھا ۔ یہ واقعہ تو سب کے سامنے ہو گیا اس لیے وہ پکڑا گیا ۔ کوئی کہتا تھا کہ یہ سب اپوزیشن کی کارروائی ہے اور نثار کو خاص طور پر پنجاب لایا گیا تاکہ پیپلز پارٹی کی لبرل حکومت کو بدنام کیا جاسکے ۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ ایک خبر اُس زمانے میں یہ بھی گرم تھی کہ ایک گروہ لاہور میں گھوم رہا ہے جو ایسے لوگوں کو شراب پلا کر کالج کے باہر چھوڑ دیتا ہے ۔ کچھ یہ کہتے تھے کہ یہ بھارت نے کروایا ہے ۔

کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جتنے منہ اتنی باتیں ۔ مگر ان باتوں کو سیاسی رنگ کس نے دیا اور عوام میں مقبول خیال کو کس نے زبان دی وہ بھی سُن لیجیے ۔اُس زمانے میں کھر صاحب کو پنجاب حکومت سے الگ کر دیا گیا تھا اور وزیر اعلی حنیف رامے صاحب تھے۔ رامے صاحب سمجھتے تھے کہ اُن کے خلاف ہونے والی ہر سازش کے پیچھے کھر ہے ۔ نثار کے واقعہ کے بعد طلبہ احتجاج کر رہے تھے ۔ ایسے میں پیپلز اسٹوڈینٹس کا ونگ بھی رامے صاحب یعنی کہ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ انتظامیہ نے رامے صاحب کو بتایا کہ اسٹوڈینٹس میں کافی غصہ ہے ۔

تو انھوں نے کہا کہ میں ایک پریس کانفرنس کرتا ہوں ۔ اُن کے ساتھ اُس علاقے کا DIG اور IG بھی تھے۔ پریس کانفرنس کے شروع میں رامے صاحب نے 10 منٹ کا کہہ کرـ ''کمال'' کی تقریر کر ڈالی ۔ ایک صحافی نے پوچھا کہ دو آدمی ایک لمبی سی کار میں آئے تھے۔ انھوں نے نثار کو شراب پلائی ہوئی تھی اور انھوں نے اسے گاڑی سے اتار کر لڑکیوں کی جانب جانے کا اشارہ کیا اور پھر چلے گئے ۔ فوراً DIG نے کہا کہ نہیں وہ صرف ایک آئسکریم والا تھا اور اُس نے لڑکیوں پر غصہ کرنے کے بعد حملہ کیا ۔ فوراً رامے صاحب بول پڑے کہ صحافی نے اچھا سوال کیا ہے ہم اسے رد نہیں کر سکتے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سوال پچھوایا گیا تھا ۔ اور اُس کا مقصد اسے سازش کہنا تھا ۔ اب نثار کے معاملے میں سیاست شروع ہو چکی تھی۔

ایک واقعہ جو پیش آیا اُس پر پہلے معاشرے میں خوف پھیلا ۔ جس کے بعد افواہیں جان بوجھ کر پھیلائی گئیں۔ دوسری جانب خاص طور پر اسٹوڈنٹس لڑکیوں کے جلوس کی تیاری کر لی گئی تھی۔ وزیر اعلی کو جب معلوم ہوا کہ اب ہونیوالے مظاہروں کے پیچھے ان کا مخالف سیاسی آدمی ہے تو انھوں نے چیف سیکریٹری مسرور حسن سے کہا کہ لڑکیوں کو گرفتار کر لو ۔ یہ بات سنتے ہی سارے افسر گھبرا گئے کہ یہ تو اسٹوڈینٹس لڑکیاں ہیں ۔ اگر ایک کو بھی گرفتار کیا ۔ یا پھر تھانے لے گئے یا پھر اللہ نا کرے تصادم میں کوئی جانی نقصان ہو گیا تو کون سنبھالے گا۔ بات بھٹو تک گئی ۔

غور کیجیے یہ واقعہ نثار سے شروع ہوا ۔ نثار کو معلوم بھی نہیں ہو گا۔ کہ سیاست کس چڑیا کو کہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا ہو گا کہ اُس کے مرنے کے بعد کون کون ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچے گا۔ نثار بیچارے کو کیا معلوم کہ اس نے تیل کو چنگاری دکھا دی ہے ۔ کراچی میں ایسے ہزاروں نثار ہیں ۔ جن کی اپنی کہانیاں اور اپنے دُکھ ہیں ۔ مگر کوئی کوئی ہی نثار بنتا ہے جس کی بے وقوفی دوسروں کو اپنی سیاست چمکانے کا موقعہ دیتی ہے ۔ ایسے ہی ایک صاحب آج کل سارے نثار جمع کر رہے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اُس میں سے کتنے پھر سے آئسکریم بیچنے لگیں گے ۔ اور کتنے آئسکریم کی سیاست کرینگے ۔ جلد آپ دیکھیں گے کہ کیسے ''کمال '' کو اپنے نثار ملینگے۔اور کمال کی سیاست ہو گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں