کار طفلاں تمام خواہد شد

اس کا آزاد ترجمہ یہ ہے کہ اگر درس گاہوں اور اساتذہ کا معیار ایسا ہی پست رہے گا


Amjad Islam Amjad March 13, 2016
[email protected]

بہت پرانی بات نہیں کہ برصغیر کے درمیانے درجے تک کے تعلیم یافتہ لوگ بھی اپنی گفتگو اور تحریر میں فارسی الفاظ، تراکیب اور اشعار کا بھر پور استعمال کرتے تھے اور شمالی ہند کی حد تک تو ان پڑھ لوگ بھی بہت حد تک ان کا مطلب سمجھ لیتے تھے۔ مغلوں کی درباری زبان ہونے کی وجہ سے شاہی دربار اور اس سے منسلک ملازمتوں پر فائز غیر مسلم بالخصوص ہندو کائستھ اسے ایسی ہی روانی سے لکھتے اور بولتے تھے۔ جیسے آج کل دونوں بلکہ تینوں ملکوں کے بیورو کریٹ انگریزی کو استعمال کرتے ہیں۔

انگریز نے جب اپنے ایڈمنسٹریشن کے تقاضوں کے تحت اردو کو بطور لنگوا فرنیکا منتخب اور رائج کیا تب بھی فارسی کا اثر کسی نہ کسی حد تک قائم رہا کہ نہ صرف اردو لکھی فارسی رسم الخط میں جاتی تھی بلکہ اس کا بیشتر ذخیرہ الفاظ بھی فارسی بنیاد تھا۔ اتفاق سے اس کالم کا عنوان بھی جس فارسی شعر سے لیا گیا ہے اس کا موضوع بھی اس زمانے کا نظام تعلیم اور اس کو درپیش مختلف النوع مسائل تھے جن کی وجہ سے نئی نسل اپنے اردگرد کی زندگی کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ شعر کچھ یوں ہے؎

گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلّا
کار طفلاں تمام خواہد شد

اس کا آزاد ترجمہ یہ ہے کہ اگر درس گاہوں اور اساتذہ کا معیار ایسا ہی پست رہے گا تو پھر بچوں کا خدا ہی حافظ۔ کم و بیش ایسی ہی صورت حال انیسویں صدی میں انگریز کے بنائے ہوئے نظام تعلیم کے بعد رونما ہوئی کہ اب استاد اور مدرس محکمہ تعلیم کے تنخواہ دار ملازم ٹھہرے اور طلبہ، علم کے طالب کم اور اس کے خریدار زیادہ بنتے چلے گئے علامہ اقبال کے ذہن رسا نے اس صورت حال کے مضمرات کو بہت پہلے سمجھ لیا تھا ''بانگ درا'' میں شامل ان کے ظریفانہ کلام کے یہ اشعار اس کا ایک بہت بامعنی اظہار ہیں۔

تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے
بدلہ زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ ''بل پیش کیجیے''

اب آپ اس پس منظر کے تسلسل میں حال ہی میں حکومت اور پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان کے درمیان اٹھنے والے جھگڑے کو دیکھئے تو صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بات کس حد تک بگڑ چکی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اور اس سے کافی عرصہ بعد تک ایچیسن کالج اور کانونٹ اسکولوں کے قبیل سے متعلق چند قدرے مہنگے تعلیمی اداروں سے قطع نظر تعلیم بہت حد تک غریب عوام کے لیے بھی قابل حصول تھی کہ اس دور کے بیشتر تعلیمی ادارے مختلف رفاہی انجمنوں اداروں اور تنظیموں کے قائم کردہ تھے۔

پرائیویٹ سیکٹر میں مسلمانوں کی حد تک تعلیمی ادارے سرسید مرحوم کے علی گڑھ اسکول سے قطع نظر نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی تو ایسے تعلیمی اداروں کے قیام پر بہت زور دیا گیا جو جدید زمانے کے تقاضوں کے بھی مطابق ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیبی، دینی اور تاریخی روایات سے بھی رشتہ آرا ہوں چنانچہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور انجمن اسلامیہ پشاور سمیت ہندوستان کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں مقامی سطح پر اس نوع کے بے شمار ادارے بننا شروع ہو گئے۔

خود میں نے مسلم ماڈل ہائی اسکول لاہور سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی جو اسی طرح کی ایک رفاہی انجمن کا قائم کردہ تھا۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر ایم اے عزیز تھے جن کے صاحبزادے ڈاکٹر محبوب الحق ایک عالمی سطح کے اکانومسٹ اور حکومت پاکستان کے مرکزی وزیر رہے ہیں۔ چھٹی سے دسویں تک بالترتیب ہمارے کلاس ٹیچرز ماسٹر رشید، ماسٹر یعقوب، ماسٹر غلام نبی غیرت، ماسٹر عاشق اور ماسٹر مبارک صاحبان رہے جو سب کے سب انتہائی کمٹڈ اور تدریس کو پیشے سے زیادہ ایک فرض اور مشن سمجھنے والے لوگ تھے اور تنخواہ کے بجائے ہمیشہ اپنے طلبہ کے بہتر نتائج کے بارے میں فکر مند رہا کرتے تھے۔

ماضی کے حکمرانوں پر تنقید اب ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ اس حوالے سے تعلیم کے شعبے میں ہونے والی تباہی کی تمام تر ذمے داری بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن پالیسی پر ڈال دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان انجمنوں کے تحت چلنے والے تمام تعلیمی اداروں کو بھی قومیا لیا گیا جس سے دوہرا نقصان ہوا یعنی ایک طرف تو ان میں وہ تمام برائیاں در آئیں جو سرکاری اسکولوں میں موجود تھیں اور دوسری طرف نئے انگلش میڈیم اور کاروبار بنیاد تعلیمی اداروں کو کھل کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی جن پر سوائے کچھ ٹیکس عائد کرنے کے حکومت کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

یوں ان اداروں نے اپنے متوازی نصاب، کتب اور طریق امتحانات وضع کر لیے اور عمارتوں کی ظاہری شکل و صورت اور مختلف سہولیات کی فراہمی کے نام پر فیسوں کی سطح استقدر بڑھا دی کہ ایک بہت مختصر طبقے سے قطع نظر مڈل کلاس کے لوگ بھی حق حلال کی کمائی سے ان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تھے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ چند مخصوص مضامین کے اساتذہ سے قطع نظر یہ نہ صرف اساتذہ کو بہت کم تنخواہیں دیتے تھے بلکہ انھوں نے ان کا دفتری نام بھی ٹیچر یا استاد کے بجائے Facilitator یعنی ''سہولت کار'' رکھ دیا اور بچوں اور ان کے والدین کو Client کے نام سے پکارنے لگے۔ ان اسکولوں میں کلاس ون کے بچے کی ماہانہ فیس پانچ سے بیس ہزار روپے تک لی جاتی ہے جب کہ دیگر بہت سے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔

اب اگر ایوریج دس ہزار روپے فی بچہ لگائے جائیں تو تین بچوں کو پڑھانے پر ماہانہ کم از کم 30 (عملی طور پر 50) ہزار روپے خرچ آتا ہے جو ایک 19 گریڈ کے سینئر سرکاری افسر کی جائز آمدنی سے پورا نہیں ہو سکتا۔ ان اسکولوں کی کتابیں بھی اپنی ہیں جو مغربی ملکوں میں بنتی اور بیرون پاکستان کسی ملک میں طبع ہوتی ہیں اور اپنی اصل لاگت سے دس گنا زیادہ قیمت پر بچوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔ یہی حال ان کی یونی فارمز اور دیگر تفریحی اور ہم نصابی سرگرمیوں سے متعلق اخراجات کا ہے۔

اب جو دہشت گردی سے بچاؤ کے لیے حکومت نے ان اداروں کو عمارتوں اور بچوں کی سیکیورٹی کے لیے کچھ خصوصی انتظامات کرنے کا پابند کیا تو ان لوگوں نے اس اضافی خرچ کی آڑ میں ایک بار پھر فیسوں میں بھاری اضافہ کر دیا ہے جس پر والدین بلبلا اٹھے اور جونہی حکومت نے ایکشن لیا ان اسکولوں کے مالکان نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں پیش پیش وہ تعلیمی ادارے ہیں جن کا بزنس کروڑوں نہیں بلکہ اربوں میں ہے اور جو اس اندھا دھند آمدنی کی وجہ سے باقاعدہ امپائرز کے مالک بن چکے ہیں۔

حالانکہ زیادہ متاثر وہ ادارے ہوتے ہیں جو نسبتاً کم فیس وصول کرتے ہیں اور جن کے لیے یہ حفاظتی اقدامات واقعی کسی نہ کسی حد تک ''اضافی اخراجات'' کی ذیل میں آتے ہیں۔

اس میں بھی شک نہیں کہ سستے، درمیانے اور اعلیٰ درجے کے اسکولوں کے مالکان میں ایسے اچھے لوگ موجود ہیں جو اس معاملے کو انصاف اور دیانت کے اصولوں کے مطابق حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بھی غلط نہیں کہ سرکار کی طرف سے بعض اہل کار ان کے جائز مطالبات کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ سو ضرورت اس بات کی ہے کہ سب لوگ مل کر بیٹھیں اور جس کی جو بات صحیح ہو اسے کھلے دل سے تسلیم کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ان انگلش میڈیم بڑے بڑے اداروں کے مالکان کو اس بات کا بھی مؤثر احساس دلائیں کہ جب تک وہ ہمارے بچوں اور اپنے کلائنٹس کو جدید مغربی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب، زبان، تاریخ اور روایات کی تعلیم اور تربیت نہیں دیں گے وہ ان فیسوں کے جائز حقدار نہیں ٹھہریں گے ۔

جن کی فراہمی ان والدین کے لیے یقینا ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے جو اپنے بچوں کی پرورش رزق حلال سے کرنا چاہتے ہیں اور جو اپنے بچوں کو عالمی شہری کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے بھی پہلے پاکستان کا ایک ذمے دار شہری اور ایک اچھا انسان بنانا چاہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔