کمال کے کمالات

متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی دبئی سے لوٹ آئے


[email protected]

متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رہنما مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی دبئی سے لوٹ آئے۔ آتے ہی دونوں نے ایک پریس کانفرنس کی۔ جس میں انھوں نے متحدہ کے قائد الطاف حسین اور ان کے انداز سیاست کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا۔ میرے حساب سے تو سبھی کچھ کہہ دیا۔ اگر کچھ کہنے سے رہ گیا تو وہ دونوں بھی ابھی ادھر ہی مقیم ہیں۔ ایک دو نشستیں اور سہی۔ قارئین کرام میں ان کی پریس کانفرنس کی تفصیل میں جائے بغیر ایک نکتہ نظر پر بحث کو ترجیح دوں گا۔ کیونکہ ان دونوں نے جو کچھ کہا وہ آپ نے بھی سنا ہو گا۔ لہٰذا اسے دہرانے کا فائدہ نہیں۔

اگرچہ MQM کے خلاف یہ واقعہ نیا نہیں۔ ایسا اس سے قبل متعدد بار ہو چکا۔ 1990ء سے 2016ء تک متحدہ کے بہت اہم و مرکزی رہنما اسی انداز میں ایک دن اچانک میڈیا پر جلوہ گر ہوئے اور انھوں نے بھی یہی سب کچھ کہا جو مصطفیٰ کمال و انیس قائم خانی نے۔ الزامات کم و بیش یہی تھے۔ تنقید کا بنیادی ہدف الطاف حسین ہی تھے کیونکہ متحدہ ویسے بھی ان کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کی حیثیت، حقیقت ہمیشہ سے الطاف حسین ہی ہیں۔ آپ نے اس ضمن میں کچھ نعرے ضرور ملاحظہ کیے ہوں گے۔

''ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے'' یا ''ہم نہ ہوں ہمارے بعد... الطاف الطاف'' تو ظاہر ہے نشانہ بھی انھی کو بننا تھا۔ کل بھی مرکز نگاہ محترم ہی رہے۔ لیکن میری رائے میں کل کا واقعہ سابقہ واقعات سے کہیں کہیں مختلف بھی محسوس ہوا۔ میں ایماندارانہ جائزہ لے کر آپ تک اپنی رائے پہنچا رہا ہوں۔ مصطفیٰ کمال... آفاق احمد نہیں۔ انیس قائم خانی... عامر خان نہیں۔ اور یہ 1992ء نہیں۔ 2016ء ہے۔ گزرے ہوئے 24 سالوں نے جہاں قائد تحریک کی عمر میں اضافہ کیا۔ وہیں MQM کے سامنے ایک سوال... بلکہ بہت بڑا سوال رکھ دیا کہ اس ساری جدوجہد یا سیاست نے اردو بولنے والوں کو کیا دیا؟ یا چلیے وہ اعتراض کریں گے۔

لہٰذا میں سوال کو بدل دیتا ہوں۔ ''مظلوموں'' کو کیا دیا؟ 35 سال گزر گئے MQM کو بنے، ہزاروں لوگ مارے گئے۔ کراچی اس مدت کے دوران جلتا رہا۔ سلگتا رہا۔ کئی مرکزی حکومتوں کو گھر بھیجنے کے لیے اسی Issue کا استعمال کیا گیا۔ لیکن حاصل کیا ہوا؟ اگر کچھ ہوا تو آپ نے آج تک اس کی کوئی تفصیل عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھی؟ جیسے PML-N، PPP، PTI و دیگر جماعتوں کی قیادت رکھتی ہیں۔ اپنے کارنامے بیان کیے جاتے ہیں۔ اپنے دور حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

اس طرح آپ کے کسی دور حکومت کا۔ حکومت کسی بھی سطح پر تھی۔ کوئی وزیر مشیر، سینیٹر، کوئی ایسا منصوبہ جو فلاحی ہو، میں نے نہیں سنا نہ دیکھا۔ جب کہ آپ سے منسلک 12 مئی۔ فلاں اکتوبر، وہ دسمبر۔ زبان زد عام رہے۔ جلاؤ گھیراؤ، توڑ دو، مار دو، گرا دو، ٹھوک دو۔ یہ سب تو سنا۔ عجیب و غریب تقاریر بھی سماعت کیں۔ سوال یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال و انیس قائم خانی کی ملک میں آمد کو کیا مانا جائے۔ ایک راستہ تو بڑا سیدھا سا ہے ''ایجنسیز''۔ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر۔ وہ اب آپ کو نہیں چاہتے اور تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ دوسرا راستہ کیا ممکن ہے؟ ارے کہیں ایسا تو نہیں کہ پس منظر میں کوئی نہ ہو۔ بس یہ دونوں ہی ہوں۔ کہیں ایسا تو نہیں جو یہ کہہ رہے ہیں۔ وہی کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اپنے عزائم میں سچے ہوں۔ مخلص ہوں۔

اگر ایسا ہوا تو میری دانست میں یہ آپ کی صحت کے لیے مناسب نہ ہو گا۔ مصطفیٰ کمال کے بحیثیت ناظم کراچی کارناموں سے کون واقف نہیں۔ وہ ایک بہترین دماغ رکھتے ہیں۔ ایک عمدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ اسی طرح انیس قائم خانی پر بھی کرپشن کا کوئی کیس نہیں۔ میں ابتدا میں واضح کر چکا ہوں کہ یہ دونوں ماضی کے آفاق و عامر نہیں۔ یوں بھی میں جس نکتہ نظر پر بات کرنا چاہ رہا ہوں۔ وہ اردو بولنے والوں کی ایسی قیادت ہے جو متنازع نہ ہو۔ جس پر ملک سے غداری کے سنگین الزامات نہ ہوں جو کسی طور کسی سرکاری و غیر سرکاری ادارے کو قابل قبول نہیں۔ دیکھئے قوم کی اس وقت، ان حالات میں اس سے بڑی خدمت نہ ہو گی کہ انھیں آزاد کر دیا جائے۔ ان الزامات سے جن میں وہ شامل نہیں۔ کیونکہ وہ ورکر ہیں۔ کارکن ہیں۔ معمولی عہدیدار ہیں۔

فی الحال ایک غیر متنازعہ قیادت ہی قوم کو مشکل سے نکال سکتی ہے۔ آپ عظیم امریکی رہنما نیلسن منڈیلا کی مثال سامنے رکھیے۔ جو 30 سال اسیر رہے، لیکن جب انھیں اقتدار ملا تو کچھ عرصے کے بعد وہ یہ کہہ کر اقتدار سے الگ ہو گئے کہ ان کی صحت انھیں کسی بڑی ذمے داری کو ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔

تاریخ میں آپ کو ایسی اور بہت سی مثالیں مل جائیں گی جب ایک رہنما نے اقتدار سے علیحدگی کو بوجوہ ترجیح دی۔ قوم کے لیے۔ ملک کے لیے۔ خود اپنی ذات کے لیے۔ ورنہ کیا ہوا۔ دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ لیبیا، عراق، یمن جہاں حکمرانوں نے عوام کو واقعی سہولتیں فراہم کیں۔ اعلیٰ معیار زندگی فراہم کیا۔ لیکن وہ مسلسل اقتدار میں رہے۔ 40 سال تک حکومت ان کے گھر کی باندی، کنیز رہی۔ حتیٰ کہ ایک دردناک موت تک وہ اقتدار سے الگ نہ ہوئے۔

میرے محترم! آپ انسان کو سونے کا نوالہ کھلائیں۔ کمخواب کا لباس پہنائیں۔ لیکن وہ یکسانیت نہیں چاہتا۔ تسلسل سے فرار اس کی فطرت ہے۔ جس کی انتہائی مثال قرآن کریم میں ''من و سلویٰ'' کے ذکر میں دی گئی۔ جب اس نے آسمان کی میزبانی سے بھی یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اب اسے سبزی، ترکاری چاہیے۔ حالات بدل چکے ہیں۔

نہ یہ بغاوت ہے نہ سازش۔ یہ دراصل ایک خواہش ہے۔ حالات کو بدلنے کی، ایک مخصوص طرز زندگی میں تبدیلی کی۔ ویسے بھی کس نے کہا، کیا کہا۔ ثبوت کیا ملے۔ اس سے قطع نظر۔ الزامات کیا ہیں؟ آپ سمجھتے ہیں کہ ان کے عائد ہونے کے بعد۔ مزید سیاست ممکن ہے؟ خواہ آپ کی تنظیم نے کتنی ہی نشستیں حاصل کیں۔ کتنے ہی الیکشن کراچی، حیدرآباد سے جیتے۔ لیکن ریاست، ریاستی قوانین... وہ کہاں گئے؟ سیاست اور الیکشن تو ریاست میں ہوتے ہیں۔ انھی باتوں کو بنیاد بنا کر مجھے آپ کو یہ مشورہ دینے میں تامل نہیں کہ فی الحال آپ کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ جو آئے ہیں انھیں آگے آنے دیں۔ بقول شاعر:

حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر

گتھیاں ایسی بھی ہیں کہ جن کو سلجھاتی ہے آگ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں