اپنے راہ نما آپ

بہت سی چیزیں آپ ایک ساتھ دیکھ سن لیتے ہیں توکچھ تعجب بھی ہوتا ہے کہ دو ذہن ایک ساتھ کیسے چل رہے ہیں



بہت سی چیزیں آپ ایک ساتھ دیکھ سن لیتے ہیں توکچھ تعجب بھی ہوتا ہے کہ دو ذہن ایک ساتھ کیسے چل رہے ہیں مگر قدرت کی اس کائنات میں سب کچھ ممکن ہے۔ مودی افغان صدرکو تین ماہ پہلے ہیپی برتھ ڈے کہہ سکتے ہیں تو قائم علی شاہ قائد حزب اختلاف کی سیٹ کو اپنی سیٹ سمجھ سکتے ہیں۔

یہاں دو الگ الگ انتہائیں ہیں دوڑ میں مودی آگے سے اول نمبر پر ہیں اور قائم علی شاہ دوڑ میں Count Down کے تحت پہلے نمبر پر ہیں۔ مودی بھی خلا میں ہاتھ پیر چلا رہے ہیں سیاسی طور پر اور سید قائم علی شاہ کئی بار خلا میں جاتے جاتے بچے ہیں، کبھی اسٹاف نے کبھی آس پاس کے لوگوں نے انھیں دوبارہ زمین پر اتارا ہے۔

سارا قصور ''پیالہ'' تیارکرنے والے کا لگتا ہے۔ اسے خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ''پیالہ'' وزیر اعلیٰ کے لیے تیار کر رہا ہے، خیر پورکے کسی وکیل کے لیے نہیں۔ مودی کو تو اب ایف 16 ہوگیا ہے اور اس سے باہر آنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ طیارے بھارت کی کمزوری ہیں اور یہ اگر پاکستان کے پاس ہوں تو بھارت کو بے حد پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کی ہوائی فوج کے جوان اس طیارے کے ساتھ بھارت کو کیوں برداشت نہیں کہ ایف 16 کی سیٹ پر پاکستانی ہوائی فوج کے ہوا باز کو دیکھ کر بھارت کی ''ہوائیاں'' کیوں اڑ جاتی ہیں۔ خیر ہوگا کچھ یہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے ہم کیا تبصرہ کرسکتے ہیں سوائے اس کے کہ پاکستان بھارت کے فضائی معرکوں میں پاکستان کا پلہ ہمیشہ بھاری رہا ہے اور بھارت ایم۔ایم۔عالم کو نہیں بھولا ہوگا اور اب ایسے جوانمردوں کی پاکستانی فضائیہ میں کمی نہیں ہے خدا سلامت رکھے ۔

اتفاقات پر بات ہو رہی ہے تو دو اور اتفاقات بھی سامنے آگئے گزشتہ ماہ 14فروری کو ''یوم ویلنٹائن'' پر رومن کیتھولک اور رشین آرتھوڈکس کے سربراہوں کی ایک ہزار سال بعد ہوانا میں ملاقات ہوئی۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کی نمایندگی پوپ فرانس اور رشین آرتھوڈکس کی ان کے سربراہ پیٹریارک کیریل نے کی۔

یہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی جس کے بعد دونوں سربراہوں نے ایک 30 نکاتی مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے جس کے مطابق عیسائیوں کے دونوں فرقے باہمی تعلقات اور تعاون کو فروغ دیں گے اس اعلامیے کے مطابق مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں عیسائیوں کی مدد اور انسانیت کے تحفظ کے لیے مل کر اقدامات کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ 1054 میں فرقوں میں تقسیم ہونے کے بعد رومن کیتھولک فرقے نے اپنا مرکز ''ویٹی کن سٹی'' جب کہ رشین آرتھوڈکس فرقے نے ماسکو کو اپنا مرکز قرار دیا تھا۔ اس خبر کے ساتھ ہی کے کالم میں بالکل برابر خبر ہے کہ جے یو آئی (ف) اور نظریاتی کے انضمام پر اتفاق اور تفصیل یہ ہے کہ جے یو آئی (ف) اور جے یو آئی (نظریاتی) نے طویل مذاکرات کے بعد یکجا ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

بظاہر تو ان دونوں خبروں میں سوائے باہمی مشاورت اور اتحاد کے فیصلوں کے کوئی مماثلت نظر نہیں آتی، مگر سوچ جو جے یو آئی کی ہے اس سے ایک مولانا پہلے اپنا گروپ الگ کرچکے ہیں اور لگتا یوں ہے کہ الگ ہی رہیں گے شاید۔ اب یہ ایک اور دھڑا بن رہا تھا اور یوں جے یو آئی کا مستقبل بلوچستان میں بھی خطرے کی زد میں تھا تو اس فیصلے سے یہ خطرہ ٹل گیا ہے، مگر صرف ''ٹل گیا ہے'' ختم نہیں ہوا۔

کیونکہ دراصل یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جسے اعتقاد کا قالین استعمال کرکے ہوا بھی دی جاتی ہے اور زمین پر بھی اتار دیا جاتا ہے جس طرح بھی سربراہان کی مرضی ہوتی ہے عوام تو یہاں بھی بھیڑ بکریاں ہی ہیں چاہے سیاست ہو یا عقیدہ۔ مولانا فضل الرحمن اپنے والد کے برعکس سیاسی زیادہ ہیں، بقیہ معاملات عمامہ و پوشاک میں صرف مدارس ہی نظرآتے ہیں نہ ہی کوئی تحقیقی کام یا علمی کام مولانا کا آج تک نظر آیا برعکس دیگر علما کے ، کیوں؟یہ ایک سوال ہے جس کا جواب مولانا ہی دے سکتے ہیں۔ وہ کون سا فلسفہ یا علم ہے جس کی ترویج آپ فرما رہے ہیں ہمارا نہ یہ منصب نہ ہم حق رکھتے ہیں کہ ان سے یہ سوال کریں کہ ہم کالم نگار ہیں ہاں عوام ضرور پوچھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو عوامی لیڈر سمجھتے اورکہتے ہیں۔

ہم تو ان دو خبروں کے بعد پہلی خبر کے سلسلے میں زیادہ سوچ رہے ہیں۔ یہودی ساری دنیا میں متحد ہیں انھوں نے عیسائیوں کی مدد سے ساری دنیا میں مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اور دوسرے غیر مسلم بھی اس مہم میں ان کے شریک ہیں میانمار جیسے چھوٹے سے ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر پاکستان کی حکومت خاموش ہے۔ ان کا قتل عام کیا گیا ہے اب مردم شماری ہو رہی ہے وہاں صرف مسلمانوں کی۔ تیس ہزار سے زیادہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں بے یارومددگار پڑے ہیں ۔

بھارت میانمار کے اس ظلم پر خوش ہے کہ اسے مقبوضہ کشمیر میں آزادی ہے کہ جو چاہے کرے، اب کوئی صرف بھارت ہی تو مسلمانوں کے خلاف کام نہیں کر رہا، روس، امریکا سے لے کر اس چھوٹے سے ملک تک ہر ایک مسلمانوں کو ''خنجر'' دکھا رہا ہے اور ہم ''تجارت'' کر رہے ہیں شاید مسلمانوں کی مدد کو بھی تجارت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ عیسائی متحد ہو رہے ہیں، مسلمان، غیر کے کہنے پر ''غیر متحد'' ہو رہے ہیں۔ ہمارے کچھ اختلافات کو بنیاد بناکر انگریز نے تقسیم کیا 1947 سے پہلے اور اب دنیا کے سارے یہودی عیسائی اور دوسرے غیر مسلم، مسلمانوں کو ''غیر متحد'' کرنے اور نیچا دکھانے میں لگے ہیں۔

ہم یہاں روایتی دعا نہیں مانگ سکتے، یہ ہم خود کر رہے ہیں اس کا دعا سے کیا تعلق۔ دوا سے تعلق ہے۔ اور دوا ہے ''اتحاد'' جو کبھی ہمارے درمیان تھا اور اب مسلم دشمنوں کے درمیان ہے۔ دنیا میں مسلمان کو کسی سے دشمنی نہیں رکھنی چاہیے مگر مسلم دشمنوں سے دوستی بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ بعض مسلم ممالککی مسلم دشمنوں سے دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور دنیا کے دوسرے خطوں کے مسلمانوں کو اس بارے میں سوچنا اور متحد ہونا چاہیے۔ ہم جن کے پیچھے چل رہے ہیں وہ اسلام دشمنوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیے ہوئے ہیں یہ بات قابل ذکر اور قابل غور ہے۔

ان کی اسپانسر شپ سے دنیا بھر میں دہشت گردی ہوئی اور ہو رہی ہے۔ اسلام کے دشمنوں نے انھیں استعمال کرکے مسلم امہ کی پیٹھ میں خنجر بھونکا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے اسامہ کون تھا کہاں سے تھا؟ ساری دنیا میں فساد پھیلانے والے کہاں سے آئے کہاں سے آرہے ہیں۔ اب ان کے مرکز ہمارے ملک میں بھی ہیں یا ذیلی ادارے کہہ لیں یہ کون سے ادارے ہیں۔ کہاں سے پروڈکشن ہو رہی ہے دہشت گردوں کی؟ یہ جاننا اور اسے روکنا ضروری ہے اور اس سب کے پیچھے تیل کی دولت ہے جسے خدا نے دیا تھا اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے اور اس سے کام کیا لیا گیا اور لیا جا رہا ہے۔

بادشاہت کو بچانا ضروری ہے اپنی اور دوسروں کی بادشاہت کو ختم کرنا ضروری ہے بس یہ رہ گیا ہے اسلامی نقطہ نظر، سوچ اور عمل، ہمارے ملک کے عوام سچے مسلمان ہیں۔ سچے مسلمانوں کو ''سچے انداز'' میں سوچنا اور عمل کرنا چاہیے اور اپنی صفوں میں سے ان لوگوں کو نکال باہر کرنا چاہیے جو دوسروں کے ایجنٹ ہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے چاہے وہ کوئی بھی ہوں اور ان کا تعلق کسی سے بھی ہو۔ یہی وقت کا تقاضا ہے، یہی ایمانی عمل ہے۔ ہم عقل رکھتے ہیں، قرآن رکھتے ہیں، تفسیر رکھتے ہیں، بس اس کا عملی نمونہ بننے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے رہنما آپ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں