اور کتنا فاصلہ ہے گاڑی والے
دیوداس بیل گاڑی والے سے پوچھتا ہے کہ پاروتی کا گاؤں ابھی کتنا دور ہے ا
گھبراؤ ناہیں بابو! منجل (منزل) آیا ہی چاہتی ہے۔ دیوداس بیل گاڑی والے سے پوچھتا ہے کہ پاروتی کا گاؤں ابھی کتنا دور ہے اور زندگی کی آخری سانسیں لیتے دیوداس کو بیل گاڑی والا تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے ''گھبراؤ ناہیں بابو! منجل آیا ہی چاہتی ہے۔'' یہ سب مجھے اس لیے یاد آرہا ہے کہ دیوداس کا کردار ادا کرنے والے اداکار حبیب کی منزل آخر آہی گئی اور وہ چند روز پہلے دنیا چھوڑ گیا۔
فلم دیوداس کے اختتامیہ لمحات میں آخری سانسیں لیتا دیوداس بیل گاڑی میں لیٹا ہوا ہے، پاروتی کے عشق نے اسے شراب میں غرق کردیا ہے۔ وہ بیل گاڑی میں لیٹا کھانس رہا ہے، کھانسی کا دارو اس کے پاس ہے، وہ بوتل کو منہ لگا کر ایک دو گھونٹ دارو کے پی لیتا ہے اور یوں کچھ دیر کو کھانسی رک جاتی ہے، سانسیں جواب دے رہی ہیں، زندگی ختم ہو رہی ہے، مگر دیوداس چاہتا ہے کہ وہ پاروتی کے گاؤں پہنچ جائے اور مرنے سے پہلے ایک بار، صرف ایک بار پاروتی کو دیکھ لے اور پھر اسی روپ کو آنکھوں میں بسائے اوپر والے کے پاس چلا جائے۔
رات کے دھندلکے میں بڑے بڑے سینگوں والے بیلوں کی جوڑی بیل گاڑی کو لیے دوڑ رہی ہے اور گاڑی بان گارہا ہے ''منجل اپنی دور او ساتھی، منجل اپنی دور، منجل اپنی دور'' موسیقار اختر حسین کے کمپوز کیے گانے کو گلوکار احمد رشدی نے بہت خوبصورت گایا تھا، طرز بھی بہت اچھی تھی۔
اداکار حبیب نے کبھی شراب کو چکھا تک نہیں، لیکن فلم دیوداس میں شرابی کا کردار دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ سچ ہے۔ میں نے اداکار حبیب کو پہلی بار اپنے گھر کے باہر دیکھا تھا، وہ بھائی حبیب جالب کے ساتھ گھر آئے تھے، ہمارا گھر لاہور کی مضافاتی بستی ساندہ خورد میں تھا، محض ایک کمرے کا گھر، ایک چھوٹا سا برآمدہ اور آگے چھوٹا سا صحن، جس کے ایک طرف بغیر چھت کا غسل خانہ اور بیت الخلا، صاف ظاہر ہے اس غریبانہ گھر میں نہ صوفہ، نہ کرسی، نہ میز، بس چند چارپائیاں۔ اس لیے بھائی جالب نے اداکار حبیب کو باہر چھوڑا۔
جالب صاحب نے اداکار حبیب کے ساتھ ہی جانا تھا۔ مجھے پتا چلا کہ اداکار حبیب باہر کھڑے ہیں تو میں انھیں دیکھنے کے لیے گھر سے باہر نکلا۔ اوائل سردیاں تھیں یا جاتی سردیاں، شام کا وقت تھا، میں نے دیکھا خوبرو اداکار حبیب اپنی کار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے، نکھری نکھری گندمی رنگت، انھوں نے مہرون کلر کی ہائی نیک، پورے بازوؤں والی سوئیٹر پہن رکھی تھی اور ساتھ لائٹ گرے پتلون۔ ساندہ چھوٹا سا گاؤں تھا، پھر بھی دو افراد حبیب صاحب کے ساتھ کھڑے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ میں اس وقت ساتویں یا آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا، 1961 یا 1962 تھا۔
میں نے آگے بڑھ کر حبیب صاحب کو سلام کیا اور ہاتھ ملایا۔ انھوں نے جواباً مسکراہٹ کے ساتھ وعلیکم السلام کہا۔ بس میری ان سے بالمشافہ یہی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ باقی تمام ملاقاتیں پردہ فلم پر ہوتی رہیں۔ اداکار حبیب اردو کے علاوہ پنجابی فلموں کے بھی مقبول ہیرو تھے۔ ان پر فلمایا گیا ایک مشہور پنجابی گیت میرے حافظے میں محفوظ رہ گیا۔ شاید کم لوگوں کو علم ہو کہ یہ پنجابی فلمی نغمہ اردو کے مشہور و معروف نغمہ نگار تنویر نقوی نے لکھا تھا۔ اسے میڈم نور جہاں نے گایا تھا، گانے کے بول تھے:
جدوں ہولی جئی لیندا اے میرا ناں
میں تھاں مر جانیاں وے
میں تھاں مر جانیاں
ہائے ہائے وے جدوں ہولی جئی لیندا میرا ناں
اور پھر اداکار حبیب ہولے سے ہیروئن کا نام لیتا ہے۔ ریشماں...!
گانے کا ایک انترا تنویر نقوی کی عقیدت میں:
مرداں دے وعدے چوٹھے، چوٹھا ہندا پیار وے
کرکے محبتاں قول جاندے ہار وے
کی اعتبار جدوں کہندیاں نیں مینوں سکھیاں
میں تھاں مر جانیاں وے' میں تھاں مر جانیاں
اس پنجابی فلمی گیت میں لفظ ''تھاں'' کے استعمال نے اسے منفرد گیت بنادیا۔ ایسا استعمال کہیں اور نظر نہیں آتا۔ اب اس گیت کا سادہ سا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ''جب تم آہستہ سے میرا نام لیتے ہو، میں وہیں اسی لمحے مر جاتی ہوں'' اور انترے کا ترجمہ کچھ یوں ہے ''مردوں کے وعدے جھوٹے، چھوٹا پیار ہوتا ہے، محبتیں کرکے یہ قول ہار جاتے ہیں، ان کا کیا اعتبار، جب میری سکھی سہیلیاں مجھ سے کہتی ہیں۔''
اس گیت میں حبیب کے سامنے ہیروئن تھی اداکارہ نغمہ اور اس رومان پرور گیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نے شادی کرلی۔ پیار کی نشانی ایک بیٹی ہے جو امریکا میں خوشحال رہ رہی ہے۔
اداکار حبیب نے فلم نگر میں بڑے وقار کے ساتھ وقت گزارا ہے اور بہت زیادہ سپرہٹ فلمیں ان کے حساب میں ہیں۔ اپنے زمانے کی کامیاب فلم ''لخت جگر'' سے فلم نگر میں قدم رکھا اور پھر کامیابیاں ان کا مقدر ٹھہریں۔ اپنے زمانے کے بڑے نامور ہیروز سنتوش کمار، درپن، سدھیر، اکمل، کمال وغیرہ کی موجودگی میں بڑی فلمیں کرنا حبیب کے بڑے اداکار ہونے کا ثبوت ہے۔
اب ایک بار پھر چند سطریں فلم دیوداس کے حوالے سے۔ میں نے عظیم اداکار دلیپ کمار کی دیوداس بھی دیکھی ہے۔دلیپ کمار بہت بڑے اداکار ہیں، ان کا کام ان کی فلمیں، اکیڈمی کا درجہ رکھتی ہیں، مگر فلم دیوداس میں اداکار حبیب، دلیپ صاحب کو کہیں پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نظر آتے ہیں۔ اس فلم میں پاروتی کا کردار اداکارہ شمیم آرا نے ادا کیا تھا، اور طوائف کا کردار اداکارہ نیر سلطانہ نے ادا کیا تھا۔ طالش بھی فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ یہ فلم جس ہدایتکار کا شاہکار تھی ان کا نام تھا خواجہ سرفراز۔ اللہ تعالیٰ اداکار حبیب کی مغفرت کرتے ہوئے ان کے درجات بلند کرے (آمین)۔