گیسٹ ہاؤسز میں احتیاط کیجیے

ان گیسٹ ہاؤسز کی آڑ میں ہونے والی بلیک میلنگ اور عوام کو جرائم پیشہ افراد کا آلہ کار بننے سے روکنا بہت ضروری ہے۔


مزمل فیروزی March 04, 2016
جسم فروشی اور منشیات کے کھلےعام استعمال کے ساتھ ساتھ یہ گیسٹ ہاؤسز جواریوں اور جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہیں ہیں۔ فوٹو :فائل

یہ برقی دنیا جتنی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے اس کا اندازہ سیل فون پر موصول ہونے والے میسج سے ہوا، جس میں مہمانوں کو ٹھہرانے اور پر سکون ماحول میں اچھا وقت گزارنے کیلئے ایک دن سے لیکر ایک ماہ تک کے لئے کمرے موجود ہونے کا دعوی تھا۔ ہم نے تجسس اور صحافیانہ طبیعت کے باعث اس نمبر پر فون کیا تو دوسری طرف ایک خوبصورت نسوانی آواز نے بڑے دلکش انداز میں خوش آمدید کہا اور استفسار پر محترمہ نے بتایا کہ مختلف سروسز کے مختلف چارچز ہیں، ایک دن کے 1500 سے لیکر 3000 روپے تک کمرے کے چارج کرتے ہیں۔

لہذا ہم کمرا اور علاقہ دیکھنے کیلئے محترمہ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گئے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ طالب علموں اور نوکری پیشہ افراد کے لئےعلیحدہ علیحدہ ریٹس، جبکہ سہولیات بھی مختلف ہیں۔ بحر کیف وہاں پہنچنے پراندازہ ہوا کہ یہاں کچھ غلط ہو رہا ہے اور دل میں یہ بات آئی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ ہم نے اپنے ایک صحافی دوست سے رابطہ کیا اور پوری رئیداد سنائی، یاد رہے کہ ہمارے یہ دوست ایک ٹی وی چینل میں بطور تحقیقاتی صحافی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اُن سے بات کی معلوم ہوا کہ وہ پہلے ہی اِس بات سے واقف ہیں، اور انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ گیسٹ ہاؤسز مالکان شہرِ قائد میں ایک نئی مافیا کے طور پر منظر عام پر آئے ہیں۔ کراچی شہر میں گیسٹ ہاؤسز کے نام پر فحاشی کے اڈے بن چکے ہیں، ان گیسٹ ہاؤسز میں آنے والے مہمانوں کی خفیہ کیمروں سے وڈیو بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے اور پھر ان ویڈیوز کو ملک سے باہر فروخت کرکے لاکھوں روپے بنائے جاتے ہیں۔

لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد میں بیشتر ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز، قحبہ خانے، فحاشی اور جرائم کے اڈے بن چکے ہیں۔ جسم فروشی اور منشیات کے کھلےعام استعمال کے ساتھ یہ گیسٹ ہاؤسسز جواریوں اور جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہیں ہیں، پنچاب بھر میں 2700 سے زائد گیسٹ ہاؤسز اور 3 ہزار سے زائد چھوٹے ہوٹلز اورپوش علاقوں میں بڑی بڑی کوٹھیوں میں بغیر نام کے چلنے والے بڑی تعداد میں کلب موجود ہیں، جہاں ہر روز اور خاص طور پر ہفتے کی رات ڈانس پارٹیاں منعقد ہوتی ہیں، جن میں نامور شخصیات اور ان کی اولادیں ان شباب و کباب کی محفلوں سے اپنے دلوں کو لُبھاتے ہیں جبکہ پولیس باہر کھڑی انہیں باقاعدہ تحفظ فراہم کر رہی ہوتی ہے۔

حال ہی میں جاری ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 138 ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کی ایک فہرست تیار کرکے پنچاب پولیس کو کارروائی کیلئے بھجوائی گئی تھی جس میں ان گیسٹ ہاؤسز کی آڑ میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں کےعلاوہ ان کو چلانے والے جرائم پیشہ عناصر اور ان کی سر پرستی کرنے والے با اثر افراد کے خلاف کارروائی کا کہا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ایسے تمام مقامات جن کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں پر جرائم پیشہ افراد کو بلا روک ٹوک کسی شناختی اندراج کے بغیر آنا جانا لگا رہتا ہے اور ان لوگوں کو ہر قسم کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں، جن میں خواتین کی فراہمی اور ان کی تجارت، منشیات کی فراہمی جس میں شراب، کوکین، چرس سمیت تمام نشہ آور اشیاء شامل ہیں۔

اس طرح کے ہوٹلز بک میکرز کیلئے بھی زبردست بزنس کی جگہ بنے ہوئے ہیں، جہاں وہ کرکٹ میچوں سے لیکر گھوڑا ریس اور دوسرے کھیلوں پر جوا لگواتے ہیں۔ ان ٹھکانوں پر چور، ڈکیت، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث افراد لوٹی ہوئی رقم کو اپنی عیاشیوں میں اڑاتے ہیں۔ یہ حضرات نہ صرف بغیر کسی شناخت کے اندر داخل ہوجاتے ہیں، بلکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اندر ایسے افراد کا ریکارٖڈ مرتب کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسے تمام مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کی سرکوبی کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ انہی سرگرمیوں کے پیشِ نظر پنچاب پولیس نے ایک خصوصی سافٹ وئیر تیار کیا ہے جو ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کو فراہم کیا جائے گا تاکہ جس کے تحت انتظامیہ کمرہ حاصل کرنیوالے افراد کی انٹری کرے گی یہ معلومات مین سرور تک پہنچ جائے گی۔

اس سافٹ وئیر کو اگر تمام ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز پر لگا دیا جائے تو ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد پر قابو پایا جاسکتا ہے، مگر شاید ایسا کرنا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ اس طرح پولیس کی اپنی کمائی کا راستہ بند ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس بلند و بانگ دعوؤں کے برعکس جان بوجھ کر اس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لاتی، بلکہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے کئی ایس ایچ اوز ایسے ہیں جنہوں نے اپنے آرام اور مہمانوں کیلئے کمرے لے کر انہیں غیر قانونی اقدامات کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ضمن میں سنجیدہ ہیں تو ان کو سافٹ وئیر کی تنصیبات کا کام فوری کرنا ہوگا تاکہ اس طرح کے گیسٹ ہاؤسز کی آڑ میں ہونے والی بلیک میلنگ اور عوام کو جرائم پیشہ افراد کا آلہ کار بننے سے روکا جا سکے۔

[poll id="996"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں