پنجاب اسمبلی کی متفقہ قرارداد… مگر
ہمارے نبیؐ کی تعلیمات میں کہیں عورت کے ساتھ ایسے ناروا سلوک کا اشارہ تک نہیں ملتا
KARACHI:
عورتیں صدیوں سے استحصال کا شکار ہیں، انھیں ہمیشہ سے ناکارہ شے سمجھا گیا، کبھی انھیں پاؤں کی جوتی کہا گیا، منہ میں زبان رکھنے کے باوجود انھیں بولنے کی اجازت نہیں، دماغ ہے سوچنے کی اجازت نہیں، کان ہیں تو صرف مردوں کے احکامات سننے کے لیے، پاؤں ہیں، مگر چلنے کی اجازت نہیں، کانوں میں چھید، ناک میں چھید، اور نکیل ڈلی ہوئی۔ عورت بس ایک گونگی، بہری، لولی لنگڑی، مجبور، مرد کا ہر جائز و ناجائز حکم بجا لانے کی پابند۔ بچے پیدا کرے، انھیں دودھ پلائے، گھر کی چاکری کرے۔
گاؤں دیہاتوں کا اور برا حال ہے، عورتیں کھیتوں میں کام کریں، بھٹے پر اینٹیں تھاپیں، اور یہ مناظر بھی ہیں کہ مرد گھر بیٹھے ہیں یا جوا کھیل رہے ہیں، یا ہوٹلوں میں بیٹھ کر فلمیں دیکھ رہے ہیں، یا مختلف نشے کر رہے ہیں، اور عورتیں محنت مزدوری کر رہی ہیں۔ عورتیں اونچی اونچی حویلیوں میں ہوں یا جھونپڑوں میں، وہ غلام ہیں۔ جاگیردار، جائیداد کی تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کا قرآن سے نکاح پڑھا دیتے ہیں، کہیں عورت کو کاری قرار دے کر قتل کردیا جاتا ہے، کہیں قبائلی جھگڑوں میں ونی کردیا جاتا ہے اور کہیں بازار میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ ساحر کا مصرعہ آگیا ہے:
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا۔
ہمارے نبیؐ کی تعلیمات میں کہیں عورت کے ساتھ ایسے ناروا سلوک کا اشارہ تک نہیں ملتا، مگر کیا کریں، منکرین، منافقین پہلے بھی موجود تھے۔ آج بھی ہیں۔ اصل معجزہ تو یہ ہے کہ آج نبیؐ کے ماننے والے پوری دنیا میں موجود ہیں، ان کی زبانیں مختلف ہیں، ان کے رہن سہن مختلف ہیں، مگر وہ نبیؐ کا کلمہ اسی زبان میں پڑھتے ہیں جو نبیؐ کی زبان تھی، اور یہ پیغام مسلسل پھیل رہا ہے۔ غیر مسلمانوں کو دہشت گرد نہیں سمجھتے، ابھی چند دن پہلے دنیا بھر کا بادشاہ بارک اوباما امریکا کی ایک مسجد میں گیا، اور اس نے کہا ''اسلام امن اور بھائی چارے کا مذہب ہے، دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں'' مگر ہم نبیؐ کے بظاہر کلمہ گو ہوتے ہوئے تلے بیٹھے ہیں کہ ہمیں دہشت گرد ہی سمجھا جائے۔
مردہ جانوروں کا اور حرام جانوروں کا گوشت فروخت کرنا، دہشت گردی نہیں! جعلی دوائیاں بنانا، دہشت گردی نہیں! بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان دہشت گردی نہیں، بے گناہ لوگوں کو بلاوجہ مارنا، مساجد اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں پر خودکش حملے دہشت گردی نہیں! معصوم بچوں کے اسکولوں پر حملے اور پھول جیسے بچوں کو مار ڈالنا دہشت گردی نہیں! مرے ہوئے جانوروں کی ہڈیوں اور گوشت سے کھانے پکانے کا گھی تیار کرنا دہشت گردی نہیں! غلاظت سے بھری جگہوں پر بیکری کی اشیا تیار کرنا دہشت گردی نہیں! کھانا پکانے کے مسالہ جات، سرخ مرچ، ہلدی، دھنیا میں ملاوٹ، دہشت گردی نہیں! زمینداروں کا غریبوں کے ہاتھ کاٹ دینا دہشت گردی نہیں! غریب ہاریوں پر اپنے پالتو خونخوار شکاری کتے چھوڑ دینا دہشت گردی نہیں! انسانوں کو دہکتے بھٹے میں ڈالنا دہشت گردی نہیں! غریبوں کو معمولی سی دوا نہ ملے اور حکمران (سابق یا موجودہ) نزلہ زکام کا علاج امریکا، برطانیہ میں کرائیں دہشت گردی نہیں۔
انگریزی کا بہانہ بنا کر غریبوں کے ہونہار ذہین بچوں کی ترقی کے راستے روکنا دہشت گردی نہیں! روزانہ اربوں روپے کی کرپشن دہشت گردی نہیں۔ کرپٹ لوگوں کو نہ پکڑنا دہشت گردی نہیں! کس کس بات کا رونا رویا جائے۔ یہاں تو ایک بہت بڑے انقلاب کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر یہ دہشت گرد اور ان کے ٹھکانے ختم نہیں ہوں گے۔
میں نے چند روز پہلے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ حکمران صرف ان غریبوں کے مصنوعی ہاتھ لگوانے بیرون ملک نہ بھیجیں، بلکہ ان ظالم زمینداروں کے ہاتھ بھی کاٹ کر مصنوعی ہاتھوں کے لیے بیرون ملک بھیجیں، مگر ایسا کب ہوا ہے جو اب ہوجائے گا۔ حکمران نے امدادی چیک کٹے ہوئے ہاتھوں میں تھمائے۔ تصویر بنوائی اور معاملہ رفع دفع۔ کتے چھوڑنے والے زمینداروں کے خلاف کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں، اور نہ ہوگا۔ چیکوں کی لالی پاپ دے کر غریبوں کو خاموش کروادیا جاتا ہے۔ ایسے کیسے چلے گا بھائی! کب تک چلے گا بھائی!
یہ جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، سینیٹ میں بیٹھے ہیں، یہ تو ان کی آبائی سیٹیں ہیں۔ ان کے بڑوں نے کچھ بھلائی نہیں کی تو ان سے امید خیر لاحاصل ہے۔ اب انھوں نے عورتوں کے لیے بل پاس کرلیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی سب سے بڑے صوبے کے ممبران وہ جو سیاسی اور پارٹی اختلافات پر منہ سے جھاگ اڑاتے ہیں، ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں، عورتوں والے بل کو ان سب نے متفقہ طور پر پاس کرلیا ہے، مگر جو کچھ پاس کیا گیا ہے اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا، کون اسے دیکھے گا، کیا یہ ممبران پارلیمنٹ دیکھیں گے جو خود مظالم میں ڈوبے ہوئے ہیں، یہ کسی غریب کی کیا داد رسی کریں گے۔
یہ محل سراؤں کے باسی، یہ اربوں کھربوں پتی، یہ جو زلزلہ زدگان کے امدادی ٹرک غائب کردیتے ہیں، پیسے ہڑپ کر جاتے ہیں، اتنے بڑے بڑے فارم ہاؤس، دنیا کے قیمتی جانور، گھوڑوں کے اصطبل، لان میں گھومتے قیمتی شتر مرغ، مور، یہ بڑی بڑی حویلیاں، ہیبت ناک گاڑیوں کے ساتھ دہشت ناک گارڈ، سڑک پر نکلیں تو چھوٹی موٹی کاروں اور موٹرسائیکل سواروں کو ڈانٹتے پیچھے ہٹاتے گارڈ۔ یہ تو خدا اور رسول کو بھولے بیٹھے ہیں۔ یہ خدا بنے بیٹھے ہیں۔
اور یہ جو قانون شانون ہے نا! یہ ان امرا کے لیے نہیں ہے۔ یہ ''غریب مائنڑوں'' کے لیے ہے۔ قانون تو ان کے گھر کا غلام ہے۔ غلام کی کیا مجال کہ چوں چرا کرے۔ بس ذرا دو تھپڑ مارے اور بٹھا دیا۔ غلام چپ سادھ کے کونا پکڑ کر بیٹھ گیا۔
چہرے نہیں نظام بدلو۔ موجودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو۔ عوام کے قاتل تو بدلتے نہیں، فقط چہرے بدل جاتے ہیں۔ جالب نے بہت پہلے کہہ دیا تھا:
کہاں قاتل بدلتے ہیں فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
اس سورج کو نکالنا ہے اور وہ سورج آسانی سے ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنے سے نہیں نکلے گا۔ انقلاب چاہیے انقلاب... اور آخر یہ انقلاب آکے رہے گا۔ میرا دل کہیں نہیں لگ رہا۔ چاروں طرف دیکھتا ہوں، جالب بھی دیکھ رہا تھا:
دشتِ وفا میں آبلہ کوئی بھی نہیں
سب جا رہے ہیں سایہ دیوار کی طرف
یہ نظام عورتوں کو عزت کہاں دے گا! یہ نظام بدل ڈالو، ہر طرح کی دہشت گردی خود ہی ختم ہوجائے گی، عورت کو عزت بھی مل جائے گی۔
تائیدِ ستم گر ہے چپ رہ کے ستم سہنا