قومی عزت و ناموس اور ذلت و رسوائی

وہ ان کرداروں میں پوری قوم، قبیلے یا برادری کو سوچنے لگتا ہے۔


Orya Maqbool Jan February 25, 2016
[email protected]

بحیثیت قوم یہ میری ذلت و رسوائی کا پہلا موقع نہیں کہ جس میں میرے ہی کسی ہم وطن نے غیروں کے ایماء پر اس قوم میں پائے جانے والی خرابی کو عالمی سطح پر اچھالا ہو، لیکن میری اس ذلت و رسوائی پر اس دفعہ مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس کے دروازے کھول دیے گئے۔

جس شخص کو اس قوم نے تین دفعہ منتخب کیا، اس نواز شریف نے بمعہ اہل خانہ اس ڈاکومنٹری فلم کو دیکھا اور پھر ویسی ہی گفتگو کی جیسی واشنگٹن، لندن یا پیرس میں بیٹھا کوئی شخص میرے ملک کے بارے میں کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہاں کے لوگوں اسی طرح کی ڈاکومنٹریاں دکھا دکھا کر یہ ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اول تو مسلمان ایک جاہل، اجڈ، گنوار، بدتہذیب اور ظالم قوم ہے اور دوم یہ کہ پاکستانی تو ان معاملات میں درجہ کمال رکھتے ہیں۔ یہ وہ تصور ہے جو میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کیا جاتا ہے۔

یہ میڈیا صرف خبر، کالم یا تبصرے تک محدود نہیں بلکہ فلم، ڈراما، اسٹیج، کارٹون اور ڈاکومنٹری جیسی اصناف تک پھیلا ہوا ہے۔ اخبار کی خبر، کالم یا تبصرے کے بارے میں لوگوں کا عمومی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ یہ ایک خبر ہے، ایک واقعہ ہے جو کسی ملک کے کسی شہر میں ہو گیا ہے۔ ایسے چند ایک واقعات بار بار ہو جائیں تو تبصرے کا موضوع بن جاتے ہیں۔ لیکن کسی فلم یا ڈرامے کا تو کمال یہ ہے کہ آدمی اس میں گم ہو جاتا ہے۔

وہ ان کرداروں میں پوری قوم، قبیلے یا برادری کو سوچنے لگتا ہے۔ اگر مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والے، داڑھی اور ماتھے پر محراب والے شخص کو دکان میں ملاوٹ کرتے، بیوی کو مارتے، بچوں سے ظالموں کی طرح سلوک کرتے دکھایا جاتا ہے تو تین گھنٹے مسلسل اس کردار کو دیکھ کر افراد جو تاثر لے کر اٹھتے ہیں وہ یہی ہوتا ہے کہ اسی شکل و صورت اور اس طرح کے مذہبی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔

لیکن ڈاکومنٹری فلم ایک انتہائی خطرناک میڈیم ہے۔ فلم یا ڈراما میں تو لوگوں کو ذہن کے کسی گوشے میں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک کہانی ہے اور ہو سکتا ہے یہ کسی کی ذہنی اختراع ہو یا بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو، لیکن ڈاکو منٹری کو تو حقیقت نگاری کی سند حاصل ہوتی ہے۔ ہر کوئی اسے اس یقین کے ساتھ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس میں دکھایا گیا ایک ایک سین اصل ہے، اس کے کردار بھی حقیقی ہیں اور کہانی میں بھی تو ملاوٹ یا افسانہ نگاری شامل نہیں۔ پہاڑوں، دریاؤں، صحراؤں، پرندوں، جانوروں، آفتوں، طوفانوں اور اس طرح کی دیگر خوبصورتیوں یا فطرت کے واقعات پر مبنی ڈاکومنٹریاں تو بہت حد تک تعصب سے پاک ہوتی ہیں کہ وہاں نہ تو شیر کا کردار بگاڑنا ہوتا ہے اور نہ ہی گیدڑ کو شیر ثابت کرنا، زلزلے یا آتش فشاں کے پھٹنے کو بھی اس کی ہولناکیاں دکھانے تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر انسانوں کے بارے میں یا انسانوں کے ایک گروہ کے بارے میں ڈاکومنٹری بنانا مقصود ہو تو کسی ایک منفی کردار یا واقعے کو پوری قوم کی ذلت و رسوائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کسی ایک چور، ڈاکو، دہشت گرد، قاتل یا غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کی کہانی کو اس طرح فلمایا جاتا ہے جیسے یہ اس پوری قوم کا مزاج ہے۔ پھر اس میں جس طرح ذلیل کرنا مقصود ہوتا ہے، جس قسم کے افراد کو رسوا کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ان کے کردار کو مزید نکھار سنوار کر اور نوک پلک درست کر کے دکھایا جاتا ہے تا کہ نفرت کا سارا بہاؤ ان کی جانب موڑ دیا جائے۔

شرمین عبید چنائے کی خصوصیت یہی تکنیک ہے۔ کسی ایک برائی کا شکار ایک یا دو کرداروں کو منتخب کیا جائے۔ ان کی زندگیوں پر مرتب اثرات کو نمک مرچ لگا کر دکھایا جائے اور پھر ڈاکومنٹری میں یہ تاثر عام کیا جائے کہ پورے پاکستان میں ہر گلی کوچے میں یہی ظلم روا رکھا جاتا ہے۔

جب آپ مسلمان یا پاکستان کو اس طرح بدنام کریں تو آسکر ایوارڈ آپ کے ہاتھ میں تھمایا جائے، آپ سے چند جملے سنے جائیں اور پھر تالیوں کی گونج میں رخصت کیا جائے اور پوری دنیا میں اس تقریب کو دیکھنے والے یہ تاثر لے کر اٹھیں کہ پاکستان غیرت کے نام پر قتل کے سوا اور کسی چیز کے لیے مشہور نہیں۔ لیکن اس دفعہ تو آسکر سے پہلے یہ ''عظیم'' فریضہ اور اس مملکت خداداد پاکستان کی ذلت و رسوائی کا بندوبست ہمارے محبوب وزیر اعظم نے وزیر اعظم ہاؤس میں سرانجام دیا۔

کیا غیرت کے نام پر قتل صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔ کیا عورت صرف پاکستان میں مظلوم ہے یا پھر کیا پاکستان میں صرف عورت مظلوم ہے۔ کس قدر شاندار طریقے اور الفاظ کے ہیرپھیر سے یورپ اور امریکا نے اپنے ہاں ہونے والے عورتوں کے قتل کو خوبصورت نام دے کر چھپایا ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی بھائی یا باپ اپنی بہن یا بیٹی کو قتل کر دے تو اسے غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے اور اسے ایک طرح کا بدترین ظلم قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ یورپ اور امریکا میں عورتیں اپنے سابقہ شوہروں یا سابقہ بوائے فرینڈز کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اس لیے اس ظلم یا جرم کو ''جذباتی جرم'' یعنی Crime of Passion کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں شرمین عبید کی ڈاکومنٹری میں دکھائے گئے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک ہزار عورتیں سالانہ ایسے قتل کی جاتی ہیں جس کی تصدیق اعداد و شمار سے شاید نہ ہو سکے۔ لیکن چلو مان لیتے ہیں۔ اب ان اعداد و شمار کی طرف آتے ہیں جو امریکا اور یورپ کے بارے میں ہیں۔ ''جذباتی جرم'' کے نتیجے میں تمام قتل ہونے والی خواتین کے تیس فیصد کو ان کے سابقہ شوہر اور بوائے فرینڈ قتل کرتے ہیں۔

اس جرم کو وہ عارضی پاگل پن یعنی Temporary Insanity کہتے ہیں۔ یعنی ایک شخص اپنی محبوبہ کے چھوڑ جانے یا اس کی بے وفائی کی وجہ سے پاگل پن کا شکار ہوا اور اس نے اپنی محبوبہ کو قتل کر دیا اور اب پاگل پن کی سزا موت نہیں بلکہ علاج ہے' اس لیے اسے ذہنی امراض کے اسپتال میں داخل کیا جائے۔ 1942میں آسکر کے اکیڈمی ایوارڈ نے ڈاکومنٹری فلم پر ایوارڈ دینا شروع کیے۔ میں ساری لسٹ کھنگالتا رہا کہ شاید مجھے کوئی ان موضوعات پر ڈاکومنٹری مل جائے جس میں امریکی یا یورپی معاشرے کے ان کریہہ جرائم کو اچھالا گیا ہو۔

موضوعات کی کوئی کمی نہ تھی۔ اعداد و شمار کا انبار تھا۔ موضوعات تھے کہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے کہ کوئی شرمین عبید امریکا یا یورپ کی ان خرابیوں پر فلم بنائے اور ایوارڈ حاصل کرے۔ ہر دو منٹ میں ایک عورت امریکا میں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ صرف ایک سال 1996 میں تین لاکھ 66 ہزار عورتیں جنسی تشدد کا شکار بنائی گئیں اور آج یہ تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔ بارہ لاکھ ساٹھ ہزار بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے جن میں 75 فیصد بچیاں تھیں۔ 28 لاکھ بچے ماں باپ کے تشدد کی وجہ سے اسپتال پہنچے اور ان میں 25 فیصد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ امریکا میں ہر سال جتنے بچے پیدا ہوتے ہیں ان میں آدھے سے زیادہ یعنی 54 فیصد کنواری مائیں جنم دیتی ہیں۔

خاوند چھوڑ کر یہ جا وہ جا اور بچے بیچاری ماں پال رہی ہوتی ہے۔ اپنی تعلیم چھوڑ دیتی ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی ان موضوعات پر ڈاکومنٹری بنائے اور پھر وائٹ ہاؤس کے اورنج روم میں چیدہ چیدہ شخصیات کو بلا کر اسے دکھایا جائے اور امریکی صدر دنیا بھر کو امریکا کا یہ مکروہ چہرہ پیش کرے اور پھر آسکر ایوارڈ کی چکاچوند روشنیوں میں اسے ایوارڈ دیا جائے۔ آئیے ایک سچی کہانی میں دیتا ہوں 43 سالہ تھامس منٹگمری خود کو 21 سال کا ظاہر کر کے ایک خاتون جیسی سے انٹرنیٹ پر تعلقات استوار کرتا ہے جو اصل میں 40 سال کی ہے اور اپنی 17 سالہ بیٹی کی تصویریں استعمال کرتی ہے۔ اس دوران جیسی ایک 22 سالہ شخص برائن سے بھی انٹرنیٹ پر تعلق استوار کرتی ہے اور محبت کی تکون وجود میں آتی ہے۔

تھامس اس خاتون کو ڈھونڈتا ہے اور اسے اس جھوٹ' فراڈ اور بے وفائی کی سزا میں قتل کر دیتا ہے۔ اسے عارضی پاگل پن کا شکار کہہ کر پاگل خانے میں علاج کے لیے بھجوا دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی ہزاروں کہانیاں امریکا اور یورپ میں بکھری ہوئی ہیں لیکن کوئی نہ تو ان پر ڈاکومنٹری بنائے گا اور نہ آسکر اسے ایوارڈ دے گا۔ یہ ذلت و رسوائی اور عالمی بدنامی تو ہمارا مقدر بنائی جاتی ہے۔

اس ذلت کو ہم کئی سالوں سے سہتے چلے آ رہے تھے کہ یہ ان لوگوں کا ہمارے ساتھ سلوک ہے۔ لیکن اس دکھ پر کہاں جا کر ماتم کیا جائے جہاں رسوائی کا اہتمام وزیر اعظم ہاؤس میں کیا جائے۔ بھارت دنیا میں جنسی تشدد کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ ایک عورت دلی میں بس میں اس تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ بی بی سی اس واقعے کو بنیاد بنا کر پورے بھارت کے بارے ڈاکومنٹری بناتا ہے۔ نریندر مودی اس ڈاکو منٹری پر پابندی لگا دیتا ہے۔ یہ تو غیرت اور اپنی قوم سے محبت کے معاملے ہیں' شاید نواز شریف صاحب کو یہ سب بھول گئے ہیں۔ یہ تو قومی عزت و ناموس کے معاملے میں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں