’’بابو‘‘ جو کرانا چاہتے ہیں

یہ مضبوط مرکز ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن کہی یہ مرکز ہمیں غلام تو نہیں بنا رہا۔


انیس منصوری February 24, 2016
[email protected]

''ہمیں ہندی نہیں پڑھنی ہے، ہم انگریزی میں خوش ہیں'' یہ جملے کہنے کے بعد کرشن مچاری نے مزید کہا کہ ''ہمیں انگریزی سے سخت نفرت ہے لیکن انگریزوں نے ہندوستان میں آ کر ہمیں زبردستی شیکسپیئر پڑھایا اور اب آزادی کے بعد ہمیں کہا جا رہا ہے کہ زبردستی ہندی پڑھو۔ عدم برداشت کی اس قسم نے ہمیں ڈرا دیا ہے۔'' تامل لیڈر جنھیں انگریزوں کے جانے کے بعد بھی غدار کہا جا رہا تھا انھوں نے مزید کہا کہ ''ہمیں ایک مضبوط مرکز چاہیے۔

یہ مضبوط مرکز ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن کہی یہ مرکز ہمیں غلام تو نہیں بنا رہا۔ جو انگریزوں کی انگریزی کے بعد ہمیں اب زبردستی کہہ رہا ہے کہ ہندی پڑھو ۔''تامل لیڈر کرشن مچاری کے یہ جملے درحقیقت ایک خطرناک ردعمل تھا جس میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ مرکز پر صرف ایک ریاست کا کنٹرول ہے اور انھیں کے فیصلوں کی وجہ سے جنوب میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے۔ ہم مرکز کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں پر غلاموں کی طرح نہیں۔

انگریزوں کے جانے کے صرف ایک سال بعد ہی یہ ردعمل کیوں ہوا۔؟ اس بات کو سمجھنے سے پہلے اسمبلی میں ہونے والی ایک تقریر بھی پڑھ لیجیے جس میں کانگریس کے ایک اہم لیڈر پنڈت رگو ناتھ فرماتے ہیں کہ ''جنھیں ہندی نہیں آتی انھیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اسمبلی میں موجود ہیں اور انھیں ہندی نہیں آتی ہے ان سب لوگوں کو اسمبلی سے بھی چلا جانا چاہیے۔''

جو لوگ آزاد ی کی تحریک میں ایک ساتھ تھے۔ وہ ایک دوسرے کو خود سے الگ کرنے کا تصور بھی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے درمیان آخر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ وہ لوگ ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ آئیے آپ کو پورا قصہ سناتے ہیں۔ جس سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ سندھ میں مردم شماری کے حوالے سے کیوں تحفظات ہیں اور کیوں بلوچستان میں بھی اس حوالے سے خدشات ہیں۔

بات شروع ہوتی ہے جب کانگریس کو پہلی بار ووٹ کی طاقت ملی۔ انگریزوں کے جانے سے پہلے یہاں پر سرکاری زبان انگریزی رکھی گئی تھی۔ اُس وقت کے سارے مقامی لیڈران، وکیل، استاد ہر کوئی یا تو شیکسپیئر پڑھتا تھا یا پھر اُسے ملٹن پڑھایا جاتا تھا۔ گاندھی اور کچھ حد تک نہرو کی بھی یہ خواہش تھی کہ یہاں پر انگریزوں کے جانے کے بعد سرکاری طور پر ایک ہی زبان ہو۔ اترپردیش، بہار وغیرہ میں تو ہندی کو قبول کیا جا سکتا تھا لیکن سب سے بڑا مسئلہ جنوب مشرقی ریاستوں کا تھا جہاں پر مقامی زبانیں بولی جاتی تھیں یا پھر دفتروں میں انگریزی کا استعمال تھا۔

انھی علاقوں کے لیے گاندھی نے 1918ء میں ''دکشن بھارت ہندی پرچار سبھا'' بنائی تھی جس کا مقصد ان علاقوں میں ہندی کا فروغ تھا۔ 1936-37ء میں پہلے الیکشن کا انعقاد ہوا جس میں کانگریس نے واضح برتری حاصل کی اور اعلان کر دیا کہ ہر جگہ ہندی پڑھائی جائے گی۔ اُس زمانے میں تامل ناڈو کا علاقہ ریاست مدراس میں تھا۔ الیکشن کے بعد کانگریس نے ریاست کی سربراہی راجہ گوپال اچاری کے سپرد کی۔ جنھوں نے اقتدار سنبھالتے ہی پہلا فیصلہ یہ دیا کہ اب ریاست کی زبان ہندی ہو گی۔ لوگوں کی اپنی زبان، ثقافت، رسم و رواج، مذہب سے ایک محبت ہوتی ہے۔ یقینی طور پر زبان وقت کے مطابق تبدیل ہو تی ہے۔

لیکن جب بھی کسی نے بھی انھیں زبردستی اپنی زبان بدلنے کا کہا تو معاملہ سنگین ہو گیا۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ مقامی طور پر اسے اتر پردیش کا قبضہ قرار دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ ایک بڑی ریاست کے لوگ ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ وہاں کے لوگوں نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا کیونکہ یہاں کہ لوگوں کو صرف تامل اور انگریزی آتی ہے اس لیے باہر سے لوگ لائے جائینگے۔ اور مقامی افراد تمام اہم جگہوں سے نکال دیے جائینگے۔ ایسے میں مذہب کا بھی ساتھ مل گیا۔ اور یہ نعرے لگنے لگے کہ یہ سب برہمنوں کی سازش ہے۔ جو نچلی ذات کو اپنا غلام ہی رکھنا چاہتے ہیں۔

تامل میں رہنے والے مسلمان جو ہندی یا اردو نہیں جانتے تھے انھوں نے بھی مخالفت کر دی۔

اُس وقت تامل میں کانگریس کے خلاف سب سے زیادہ مضبوط اپوزیشن جماعت جسٹس پارٹی نے احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا۔ انگریزوں کو ظالم کہنے والی کانگریس اب خود ہاتھوں میں بندوق تھام چکی تھی۔ کانگریس جو آزادی اظہار کی دعویدار بنتی تھی اُس نے تامل کے مقامی لوگوں کا مسئلہ سمجھنے کی بجائے ڈنڈے سے حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ مظاہرے میں پولیس کے تشدد سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔ جن ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا اُن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد تھی۔ احتجاج میں کالج اور اسکول کے طلبہ بھی ہوتے تھے۔ انھوں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

اُس زمانے کے سرکاری اعداد کے مطابق 95 فیصد گرفتار لوگوں کو ایک ہزار جرمانے اور ایک سال کی سزا سنائی گئی۔ پر تین سال تک مدراس کے حالات قابو میں نہیں آئے۔ اور پھر جب کانگریس نے 1939ء میں استعفی دیا تو لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ نئے آنے والے انگریز گورنر نے ہندی کا قانون ختم کر دیا۔ درحقیقت وہاں کے لوگ انگریزوں سے ہرگز محبت نہیں کرتے تھے۔ لیکن اُن کا مقامی تصور یہ تھا کہ وہ ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں جا رہے ہیں۔

کانگریس کو اس واقع سے سبق سیکھ لینا چاہیے تھا ۔ لیکن کچھ لوگ کچھ نہیں سیکھتے۔ اور کانگریس اُس کی بہترین مثا ل ہے۔ جیسے ہی انگریز یہاں سے گئے اور کانگریس کے پاس حکومت آئی تو ایک بار پھر انھوں نے ہندی کی رٹ لگا لی۔ انڈیا میں ہوئی آخری مردم شماری کے مطابق اس وقت بھی وہاں 1635 مادری زبانیں ہیں۔

ایسے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ ہر شخص سے کہا جائے کہ وہ لازما ہندی پڑھے۔ جس نے کبھی اپنے اردگرد ہندی کو سُنا بھی نا ہو۔ انگریز جا چکے تھے نئے آئین کی تشکیل سے پہلے ہی کانگریس نے اعلان کر دیا کہ ہر ریاست میں امتحان دینے والے بچے 1948-49ء کے سال میں ہندی کا پرچہ ضرور دینگے۔ اس اعلان کے بعد جنوب میں بڑے پیمانے پر تحریک شروع ہو گئی۔ مظاہروں میں ہزاروں لوگ شامل ہونے لگے۔ 1950ء میں جب انڈیا کا آئین آیا تو اُس میں لکھا تھا کہ 15 سال تک آفیشل زبان انگریزی کے ساتھ ہندی بھی رہے گی اور اُس کے بعد انگریزی کو ختم کر دیا جائے گا۔ لیکن لوگ اس کے لیے راضی نہیں تھے۔

احتجاج اس قدر بڑھ گیا کہ وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ انگریزی جاری رہے گی۔ لیکن ہندی بھی پڑھنی تھی۔ اور یہ پندرہ سال 26 جنوری 1965ء کو مکمل ہو رہے تھے۔

اس تاریخ سے پہلے ہی تامل میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ جنوبی شہر مدھورائی میں طلبہ اور کانگریس کے کارکنوں میں جھڑپ ہو گئی۔ پولیس نے کانگریس کا ساتھ دیا۔ اور طلبہ پر تشدد کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ پورے تامل میں لگ گئی۔ آفیشل ذرایع کے مطابق 70 لوگ ہلاک ہوئے جب کہ تحریک چلانے والوں کا کہنا تھا کہ یہ تعداد دسینکڑوں میں ہے۔

کانگریسی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کہا کہ اب زبانوں کا انتخاب ریاست ہی کرے گی۔ جس کے بعد معاملہ تھم گیا۔ مگر اگلے سال 67 میں ہونے والے الیکشن میں کانگریس ہار گئی۔ وہ کانگریس جس کو اس علاقے نے انگریزوں کے زمانے میں سپورٹ کیا۔ وہ سپورٹ ختم ہو گئی۔ اور اس کی بس ایک وجہ تھی کہ مرکز میں بیٹھے کچھ ''بابو'' بار بار ایک ہی غلطی کرتے رہے۔

مرکز میں بیٹھے ہوئے چند سیانے یہ سمجھتے تھے کہ اُن سے بڑا سیاست دان اور اس قوم کا خیر خواہ کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ جو کہتے ہیں وہ پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔ شمال سے جنوب تک اور جنوب سے مغرب تک بس ان کا ہی ڈنکا بجتا ہے۔ وہ جسے چاہیں ہلا دیں۔ جب چاہیں کسی کی بھی گردن دبا دیں۔ اور پھر اسی خوش فہمی نے انھیں اتنا مجبور کر دیا کہ اپنے فیصلے واپس لینے پڑے۔ یوں توں ایسے بہت سے قصے تاریخ کے اوراق میں درج ہیں۔ جب تک کچھ ''بابو'' ہم پر مسلط رہیں گے نتائج ایسے ہی ہونگے۔ اتنی لمبی چوڑی تقریر میں بس یہ کہنا چا ہتا تھا کہ مردم شماری میں سندھ اور بلوچستان میں وہ غلطی مت کریں جو ''بابو'' کرانا چاہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں