مجھے دل سے نہ بھلانا

یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں دو سیاسی لیڈر عوامی سطح پر ابھر رہے تھے۔


Saeed Parvez February 22, 2016

HARIPUR/ MANSEHRA/ ABBOTABAD: یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں دو سیاسی لیڈر عوامی سطح پر ابھر رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو۔ کراچی میں لاکھوں بنگالی بھائی مقیم تھے۔ سرکاری ملازم، طالب علم، پان بیڑی سگریٹ کے کاروبار سے منسلک، یا پھر سمندر کنارے مچھیرے۔ ان دنوں ہمارا گھر لائنز ایریا میں تھا، جہاں سرکاری کوارٹروں میں بنگالی بڑی تعداد میں آباد تھے۔ مجھے ان سے پیار تھا، مگر دوسری طرف روکھا پن اور کھنچاؤ تھا۔ میرے پیار کی وجہ بھی ان کا روکھا پن اور کھنچاؤ ہی تھا۔ دراصل میں انھیں یقین دلانا چاہتا تھا کہ ہمارے دلوں میں ایک اور آزادی کے لیے جو شمع جل چکی ہے، میں تمہاری آزادی کے ساتھ ہوں۔

خیر یہ باتیں یوں ہی یاد آگئیں۔ اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ انھی بنگالیوں میں ایک نوجوان بڑا ہنس مکھ اور موسیقی کا رسیا تھا۔ اب مجھے اس کا نام تو یاد نہیں، خیر میری اور اس کی بڑی اچھی دوستی ہوگئی۔ ایک دن اس نے مجھے ایک بنگلہ گانا کیسٹ بجاکر سنایا۔ وہ خود بھی ساتھ ساتھ گا رہا تھا۔ گانے کے بول تو میری سمجھ میں نہیں آرہے تھے مگر سروں کی زبان ضرور سمجھ میں آرہی تھی، اور پھر طلعت محمود کی رس بھری آواز، گانے کے بول تھے:

''تمار لاگے چھے' اے توجھے بھالو
چاند بجھیتا رے جانے

اس کا اردو ترجمہ بھی اسی بنگالی نوجوان نے ہی کیا ''تم اس قدر حسین ہو، کہ تمہارے سامنے چاند بھی بجھا بجھا نظر آرہا ہے'' اس گیت کے شاعر کے جی مصطفیٰ تھے۔ جنھوں نے کیپٹن احتشام کی فلم ''راجدھانی'' کے لیے لکھا تھا اور اس گیت کے موسیقار تھے روبن گھوش۔ روبن گھوش کا پہلا فلمی گیت۔

روبن گھوش کی زندگی کا سفر بھی عجب ہے۔ 1939 میں عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے اور 1945 میں اپنے خاندان کے ساتھ ڈھاکا آگئے۔ عرب سے بنگال کی سرزمین جہاں فضاؤں میں ہواؤں میں بہتے ندی نالوں میں اور سرسبز پہاڑوں سے گرتے جھرنوں میں صرف سر ہی سر بکھرے ہوئے تھے۔ روبن ڈھاکا ریڈیو اسٹیشن پہنچے۔ وہاں کے استادوں سے فن موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر اپنے اندر موجود سروں کو دھنوں میں ڈھالنا شروع کردیا۔ اوپر روبن کے جس پہلے گیت کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ اس کی تازہ کاری کا بہترین نمونہ تھا۔

روبن گھوش اپنی دھنوں میں مگن چلا جارہا تھا۔ کبھی اس گھاٹ کبھی اس گھاٹ، کبھی اس ندی کبھی اس دریا۔ کبھی یہ جھرنا کبھی وہ جھرنا اور ایک دن ایک جھرنا اسے ایسا من بھایا کہ وہیں ڈیرے ڈال دیے۔ جھرنا سبزہ زاروں کو چھوتا ہوا گر رہا تھا، سُر بکھیر رہا تھا اور ادھر قدرتی بہاؤ والا موسیقار! دونوں سُر ایک دوجے کو بھاگئے اور جیون ساتھی بن گئے۔

میں روبن گھوش کو صرف اور صرف اس کے فن کے حوالے سے جانتا ہوں، وہ جہاں جہاں گیا میں خبر رکھتا تھا، اس کی دھنیں مجھے ساتھ ساتھ لیے پھرتی تھیں۔ کیسے کیسے مایہ ناز موسیقاروں کے درمیان اس نے ''سادگی و پرکاری'' سے اپنی علیحدہ پہچان بنائی۔ یہی اصل فن ہے یہی اصل بات ہے۔ روبن گھوش کا اعزاز ہے کہ اس کے 90 فیصد کیسٹ سپر ڈپر ہٹ ہوئے، اس کی زیادہ تر فلمیں باکس آفس پر کامیاب ٹھہریں۔ تین سال ہوئے یہ دونوں میاں بیوی فنکار کراچی آئے، آرٹس کونسل کے سبزہ زار میں خوبصورت رنگ بکھرے ہوئے تھے، میں عموماً محفلوں میں شریک نہیں ہوتا۔ مگر اس شام روبن گھوش کے فن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میں موجود تھا۔

پچھلی نشستوں پر بیٹھا میں روبن اور شبنم کو دیکھ رہا تھا۔ دونوں کا فن بول رہا تھا۔ پرستاروں کا ہجوم اتنا تھا کہ واقعی تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ یہ معجزہ نہیں تو کیا ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی موسیقاروں کے درمیان ایک موسیقار آئے، اپنا سادہ سادہ کام دکھائے اور کھڑا رہے۔ اب میں چند گیت بطور حوالہ پیش کرتا ہوں، سر دھنیے اور یادیں تازہ کریں۔ دیکھیے دل کو چھونے والے مدھر گیت۔

(1) کبھی تو تم کو یاد آئیں گی، یہ بہاریں یہ سماں (احمد رشدی اور ندیم)

(2) وہ مرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں (مجیب عالم)

(3) مجھے دل سے نہ بھلانا، چاہے روکے یہ زمانہ (مہناز)

(4) تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی (مہدی حسن)

(5) سونا، نہ چاندی، نہ کوئی محل جانِ من، تجھ کو میں دے سکوں گا (اخلاق احمد)

(6) روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا، بولو نا، بولو نا (نیرہ نور)

(7) پیار بھرے دو شرمیلے نین (مہدی حسن)

(8) ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے (غلام عباس)

(9) زندگی میں ایسے بھی لوگ ملتے ہیں (مہدی حسن)

(10) ساون آئے، ساون جائے (اخلاق احمد)

(11) ہمیں کھو کر بہت پچھتاؤ گے (رونا لیلیٰ)

(12) وعدہ کرو ساجنا، جیون کی اس راہ میں (مہناز اور عالمگیر)

یہ صرف چند گانے ہیں جو مجھے یاد رہ گئے، روبن گھوش کے دیگر گانے ریکارڈ سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ روبن گھوش بہت کم گو انسان تھے، اور ان کے دوست بھی کم تھے۔ جب یہ دونوں میاں بیوی کراچی آئے تو گلوکار مہدی حسن صاحب اور اداکار لہری اپنے زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، دونوں میاں بیوی ان عظیم فنکاروں کے گھر گئے اور عیادت کی۔ لاہور اداکارہ زیبا سے بھی ملے تھے اور پھر واپس بنگلہ دیش چلے گئے۔ وہ رہتے تو بنگلہ دیش میں تھے لیکن دل پاکستان میں اٹکا رہا۔ پاکستان آکر وہ بہت خوش تھے ان کا سارا کام پاکستان ہی تھا۔

فلم ''راجدھانی''، ''چندا''، ''تلاش''، ''چکوری'' ڈھاکا میں اور باقی تمام فلمیں مغربی پاکستان۔ ایک یادگار فلم کا علیحدہ سے ذکر کرنا ضروری ہے۔ اور وہ ہے ''آئینہ''۔ اس فلم کی شاندار ڈائریکشن بنگالی لیجنڈ نذرالاسلام نے دی تھیں۔ اور یہ آج تک بننے والی سب سے کامیاب فلم تھی جو مسلسل ایک سال سے زیادہ عرصے تک کراچی کے بمبینو سینما میں نمائش پذیر رہی۔

روبن! تمہارے دلکش گیتوں کی وجہ سے تمہیں کون بھلا پائے گا!

تم سے پہلے بھی جن کے امر کام ہیں، زمانہ انھیں نہیں بھولا۔ روبن! تم بھی اپنے امر گیتوں کی وجہ سے یاد رہو گے۔ کام ہی بندے کو زندہ رکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں