کتابِ ہدایت اور صاحبِ قرآن ﷺ

مغرب کے بڑے بڑے ارسطو اور افلاطون اس کی بلاغت نظام کے ارتفاع کا سامنا کرتے ہوئے لغزیدہ خرامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔


مغرب کے بڑے بڑے ارسطو اور افلاطون اس کی بلاغت نظام کے ارتفاع کا سامنا کرتے ہوئے لغزیدہ خرامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: خالقِ ارض و سما نے مسجودِ ملائک حضرت آدمؑ سے لے کر حضور سرورِ کائنات ﷺ تک اپنی جلالت و کبریائی کے اظہار اور نسلِِ انسانی کو صراط مستقیم دکھانے اور اس پر گام زن رکھنے کے لیے جتنے بھی انبیا و رسلؑ مبعوث فرمائے، انہیں کسی نہ کسی شکل میں صحائفِ آسمانی سے نوازا۔ تاکہ ان کی روشنی میں وہ پاک باز ہستیاں اپنی امت کا تزکیۂ نفس کرکے انہیں اﷲ کی رضا کا رہینِِ منت بنادیں۔ چناں چہ تمام انبیائے کرامؑ نے ان صحائف اور اپنے ارشاداتِ عالیہ کی روشنی میں، اپنی امتوں کی تطہیر کا فریضہ بہ طریقِِ احسن انجام دیا۔

اگرچہ اس حق پرستی و حق گوئی کی پاداش میں انھیں نمرودانِِ وقت کے بے رحمانہ جبر و استبداد کا ایسا نشانہ بننا پڑا کہ خود جبین طاغوت بھی بحرِخجالت و ندامت میں ڈوب گئی۔ ان پاک طینت ہستیوں نے اپنی امت میں جو آسمانی کتابیں راہ نمائی کے لیے چھوڑیں، تخریبی آغوش میں پلے ہوئے ان پرستاران باطل نے آخرت میں جواب دہی کے تصور سے بے نیاز ان سے جو سلوک کیا، وہ تاریخ کا ایک روح فرسا باب ہے۔

اپنے ہوس کی اسیران باطل پرست اقوام نے آسمانی صحائف کو اپنی تاویلات کا کھلونا بنالیا اور وحیٔ حق کا حلیہ (معاذ اﷲ) اس بری طرح بگاڑ دیا کہ شیطان بھی اعتراف کمال پر مجبور ہوگیا۔ اور اس طرح وہ صحائف اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہ رہ سکے۔ دنیا بھر کے مفسرین و محققین، تحقیق و تدقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کوئی بھی صحیفہ اپنی اصل حالت میں محفوظ و مامون نہیں ہے اور ان کا ورق در ورق احساسِ تشکیک سے لبریز نظر آتا ہے۔

مگر سردار انبیا و رسل، فداہ ابی و امی حضرت محمدُالّرسول اﷲ ﷺ کی امت اپنی خوش نصیبی پر جس قدر بھی ناز کرے، کم ہے کہ اسے راہ ہدایت کی شناسائی کے لیے کتاب بھی ملی تو اجمل و اکمل اور صاحبِؐ کتاب بھی ملا تو جامعیت و اکملیت میں سندِ اولین و آخرین کہ دنیا بھر کے علوم و معارف اس کے اوراقِ حسیں سے کشید کیے گئے ہیں۔

مغرب کے بڑے بڑے ارسطو اور افلاطون اس کی بلاغت نظام کے ارتفاع کا سامنا کرتے ہوئے لغزیدہ خرامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بحر زبان و ادب کا شناور اس سمندر کے سامنے ایک قطرہ پایاب ہوکر سمٹ جاتا ہے۔ خالقِ بحر و بر کے قرآن کی جامعیت پر، ایک زیر زبر شد مد تک کا بدل پیش کرنے والے اس چیلنج کے جواب میں یقینا قیامت تک لرزاں، خاموش اور ساکت رہیں گے۔

قرآن کریم کے دیگر بہت سے لامحدود خصائص و کمالات کے علاوہ اس کا سب سے بڑا نمایاں حسن و اعجاز اس کا سوز و گداز ہے۔ جو سنگ دل تر صاحبانِ جبروت و سطوت کے قلوب و اذہان کو موم کی طرح پگھلا دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال مرادِ رسولؐ سیدنا عمرفاروقؓ کے قبول اسلام کا کیف آور اور ایمان افروز واقعہ ہے۔ شمع رسالتؐ کو (معاذ اﷲ) گُل کردینے کے تمنائی عمر، مغلوب الغضب ہوکر گھر سے نکلتے ہیں۔

راستے میں معلوم ہوتا ہے کہ بہن اور بہنوئی اسلام کی حقانیت و صداقت کا قلادہ گلے میں ڈال چکے ہیں۔ اشدو علی الکفار کا مصداق زخمی چیتے کی طرح بہن کے گھر کی طرف لپکتا ہے، بہن سے کہا، کیا پڑھتی ہو؟ بہن نے کہا وہی جس سے تمہیں عداوت ہے۔ دستِ جبر و استبداد قہر کی بجلیاں برسانے لگا۔ بہن سے کہا نئے دین کو چھوڑ دو، ورنہ جان سے مار ڈالوں گا۔ رسولِ کریمؐ کی اس پارسا باندی نے صاف کہہ دیا، اب حلاوت و سوزِ قرآن دل سے نہیں نکل سکتے، خواہ اس کے لیے میری ہڈیوں کا سرمہ بنادو۔

اس غیر معمولی جرأت رندانہ نے اس پیکرِ سطوت کو بھی اشک بار کردیا۔ بہن سے کہا اس کا کچھ حصہ سناؤ۔ خواہرِ عمر نے اس شان سے تلاوت کی کہ عداوتِ دین خدا کا وہ کوہِ گراں موم کی طرح پگھل گیا اور گوشۂ چشم سے آنسو بہنے لگے۔ سیدھے آستانہ رسالتؐ پر پہنچے۔ صحابہؓ نے عرض کیا، حضور ﷺ! عمر گلے میں تیغِ براں حمائل کیے کھڑا ہے، تیور ٹھیک نہیں لگتے۔

آپؐ نے ار شاد فرمایا دروازہ کھولو، عمر کو اندر آنے دو، عمر کے اندر داخل ہوتے ہی دستِ نبوتؐ تمکنت و جلالت سے حرکت میں آتا ہے، شانۂ عمر آگے جھکتا ہے، حضورؐ فرماتے ہیں عمر! کب تلک دوری رہے گی۔ دست بستہ عرض کیا آقاؐ آپ کے گیسوئے خم دار اور رخ زیبا کا اسیر ہوگیا ہوں۔ حضورؐ فرطِ انبساط سے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کا قبولِ اسلام سراسر دعائے رسولؐ اور اعجازِ قرآنی کا نتیجہ تھا۔

جس طرح قرآن کی صداقت و جامعیت کسی شک و شبہے سے بالاتر ہے، اسی طرح صاحبِ قرآن کی ذات والا صفات سیرت و کردار حسن و جمال اور خصائص و کمالات میں افضل و اکمل ہے۔

دراصل قرآن اور صاحبِ قرآن اس طرح لازم و ملزوم ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے جدا کرکے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ حضورؐ کی حیاتِ طیّبہ کا ہر لمحہ وحیٔ حق کی آیات کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ جس طرح دنیا بھر کے علوم و معارف قرآن کے رہین منت ہیں، اسی طرح تاج دارِ شعور و فراست حضور سرور کونینؐ کی ذات گرامی ہر ذرۂ ریگ کو قیامت تک طلوع آفتاب کی درخشانی عطا کرتی رہے گی۔ آپؐ ماحول کو تبسم کی خیرات عطا کرتے تو خزاں رسیدہ گلستانوں میں بہار آجاتی۔ جب کبھی کبیدگی سے جبینِ رسالتؐ پر بل پڑتا تو نبضِ کائنات ڈوبنے لگتی۔

آپؐ کے اندازِ خرام سے سیارگانِ فلک توانائی کشید کرتے۔ حضورؐ کے دستِ محبت کے لمس سے بحر علالت میں غوطہ زنی کرنے والے مریض ذوق برودت حاصل کرتے۔ آپؐ کے وضو کے قطرات کو بیماریوں کا تریاق سمجھ کر جسموں پر ملا جاتا، حضورؐ کے پسینہ ٔ اطہر کے قطرات کے سامنے گوہرِِ آب دار بھی خجل نظر آتے۔ حضورؐ کے قدومِِ مبارک جس خاک پر پڑتے اس سے آج بھی لعل و گہر پیدا ہورہے ہیں۔ انھیں پانے کے لیے ایک تجربہ کار جوہری کی بصیرت چاہیے۔ آپؐ کی شانِ استغنا اور عفو و درگذر نے ہبار تک کو سندِ امان عطا کردی۔ بلا تامل معاف کردینا آمنہ کے دُرّیتیم کا ہی کام ہے۔

ذرا حقوقِ عالمِ انسانیت کے علم بردار اپنی تاریخ بھی تو اٹھا کر دیکھیں کہ ان نام نہاد مہذب وحشیوں نے معمولی باتوں پر بلاتحقیق عالمی سکون کو ایسا تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے کہ زندگی پناہ مانگتی پھر رہی ہے۔ قرآن اور صاحبِ قرآن اکملیت و جامعیت میں ارفع و اعلیٰ تر تھے، ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں