کون سانپ رکھتا ہے میرے آشیانے میں
آج ضرورت ہے اپنے بارے میں سوچنے کی اپنے مسائل کو تحریرکرکے اجاگر کرنے کی۔
KARACHI:
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھنے والوں سے استدعا کی تھی کہ آج ضرورت ہے اپنے بارے میں سوچنے کی اپنے مسائل کو تحریرکرکے اجاگر کرنے کی۔ مجھے لگتا ہے میری درخواست پر خاطر خواہ عمل نہیں ہوا۔ ہمارے دوست بہت آسودہ حال لگتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے انھیں غم دوراں نہیں۔ فکر معاش سے وہ آزاد ہیں۔
اردگرد زمین پر پڑے آنسو، آہیں، سسکیاں ان کے لیے بس ایک خبر ہیں۔ بلکہ ان میں سے بھی وہ خبر ہیں جن میں زیادہ شور ہو، آہ و فغاں ہو۔ جن کے مشتہر ہونے سے خبر میں جان پڑتی ہو۔ جیسے صحرا کے کم سن بچے قبل از وقت موت کے ہاتھوں اغوا ہوجائیں۔ جیسے کوئی آدم خور درندہ کسی معصوم کلی کو مسل دے۔ یا انتہاپسند کسی علمی درسگاہ میں درجنوں طالب علم شہید کردیں۔ میرے بھائی! خبرکی بات چلی تو میں ضرور عرض کروں گا کہ وہ میری اورآپ کی بھی ایک دن بنے گی۔
''کل نفس ذائقہ الموت'' لہٰذا پھر گزارش ہے کہ وقت رہتے اپنی سمت بھی جھانک لیں۔ میں بہرحال وہیں کھڑا ہوں۔ قارئین کرام! میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری تحریر میں یہ سقم ہے کہ میں کسی ایک موضوع پر ایسا ارتکاز نہیں کرتا جس کی بدولت بات مکمل واضح ہو۔ وجہ جگہ کی قلت۔ بعض اوقات اخبارکی پالیسی۔ اور اکثر اوقات خود اپنی طبیعت کا انتشارConcentration پیدا نہیں ہونے دیتا۔ مثلاً مجھے بہت تشویش ہے مسلم لیگ(ن) اور PPP کے موجودہ تنازعے پر جس میں ایک انسانی جان بھی تلف ہوئی۔ مجھے بڑی بے چینی ہے۔ پڑوس میں بدلتے ہوئے حالات پر۔ جہاں پاکستان کے خلاف ہمہ وقت سازشیں کی جا رہی ہیں۔
انڈیا امارات اتحاد۔انڈیا افغانستان اتحاد۔ انڈیا، ایران کی تربیتیں۔ اور پس منظر میں جھانکتا ہوا، سفید ہپو(White Hippo) ۔ Big Boss۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا ردعمل اس قدر شدید ہوگا پڑوسی ممالک اسے اپنے خلاف اعلان جنگ کی طرح لیں گے۔یہ خیال نہیں تھا۔ مستقبل کے منظر نامے میں ''امریکا بمقابلہ چین'' یا ''روس، چین، پاکستان''۔ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ادھر ''امریکا، انڈیا، ایران، افغانستان''۔ یہ بھی عیاں ہے نہاں نہیں۔ سو اب کرنا کیا چاہیے۔
یہاں مجھے جو چیز غلط دکھائی دے رہی ہے اور میں جس جانب پہلے بھی اشارہ کرچکا ہوں وہ ہے اتنی بڑی لڑائی میں ہمارا اندرونی خلفشار۔ ہماری صفوں میں بڑھتی ہوئی صوبائیت، لسانیت، کرپشن، اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا۔ حکومت و اپوزیشن کے مابین غیر فطری مخاصمت کا جنم لینا۔ یہ ایسے معاملات ہیں جو ہماری کمزوری کا فوری طور پر سبب ہیں۔ ان کے علاوہ تنخواہ دار طالبان۔ امریکن میڈ داعش جو اغیار کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں۔ پہلے سے نافذ شدہ اسلام کو پھر سے نافذ کرنے پر تلے ہیں۔
یاد رکھیے گا ''پاک چین اقتصادی راہداری''۔ بھڑوں کا چھتہ ہے۔ اگرچہ ترقی کا خواب یا ترقی کی جانب سفر ہمارا حق ہے۔ 100 فیصد جائز۔ لیکن کیا دنیا کی بڑی طاقتیں انصاف پسند ہیں؟ کیا ترقی یافتہ کہلائے جانے والے معاشرے انسانی قدروں پر عمل پیرا ہیں؟ میرا مطلب یہ کہنے سے اپنے ملک سے باہر وہ انسان کا کتنا احترام کرتے ہیں۔ اسے کون نہیں جانتا۔ لہٰذا کیا ہم بیرونی شرپسندی سے محفوظ رہ پائیں گے؟ یہ سوال نہیں۔ بڑی خوفناک صورتحال ہے۔
جب بیرونی یا خارجی ہاتھوں میں ہمارے کچھ محب وطن کہلوانے والے دوستوں کے ہاتھ بھی ہوں تو۔ آپ یقین کریں یا نہیں۔ دوستو! مجھے مستقبل قریب کی صورتحال بہت خراب نظر آرہی ہے۔ دھماکے، خونریزی، دنگے، فساد اور وطن عزیز۔ میری رائے میں محترم آرمی چیف جو موجودہ صورتحال میں شاید وہ واحد شخصیت ہیں جو غیر جانبدار اور متحمل مزاج ہیں۔ مکمل وطن پرست ہیں کو ملک میں موجود یا دستیاب سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایک میز پر لانا چاہیے۔
ان کے درمیان اعتماد و بھروسے کی ایسی فضا کا ہونا اشد ضروری ہے۔ جس سے ملک کو اندرونی طور پر کوئی خطرہ نہ ہو۔ دیکھیے ہم کرپشن و دیگر جرائم کے خلاف آپریشن ضرور کریں۔ لیکن ''آپریشن ضرب عضب'' کو چھوڑ کر جو غیر ملکیوں کے خلاف ہو رہا ہے باقی آپریشنز کی نوعیت پر جزوقتی غور کرلینا چاہیے۔ سرحدوں پر آپ یقینا دیگر سے بہتر دیکھ رہے ہوں گے۔ اس کا مضبوط بندوبست۔ موثر حکمت عملی۔ ناگزیر ہے۔ بہرحال (یہ آگ ہی آگ ہے ) قارئین کرام! میرے کالم کا عنوان دراصل معروف شاعر ڈاکٹر بشیر بدر کے ایک شعر کا مصرعہ ہے۔ شعر دلچسپ ہے آئیے آپ کو سناتا ہوں۔
فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیانے میں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
اس مرحلے پر میں ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت PPP کے ابھرتے ہوئے، طلوع ہوتے ہوئے، نوجوان قائد بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملتمس ہوں کہ حضور! جو نیا تنازعہ آپ کے اور PML-N کے درمیان ہوا ، اس پر اس قدر خفا نہ ہوں۔ اصل معاملہ یہ تنازعہ نہیں بلکہ جماعت کی تنظیم نو کا ہے۔
یقین کیجیے آپ کی صوبائی حکومت کے سرکردہ رہنما، MNA، MPA آج بھی صوبے میں خیر کا کوئی ایک کام سر انجام نہیں دے رہے بلکہ وہی لوٹ کھسوٹ۔ وہی من مانیاں آج بھی جاری ہیں۔ اسی طرح عمران خان کے لیے بھی 2018 کے انتخابات سے قبل جماعت کی ازسر نو صف بندی ضروری ہوگی۔ آپ سبھی سیاسی قائدین کے لیے ملک کی بیرونی صورتحال پر ایک گہری اور عمیق نظر رکھنا آپ کے فرائض کا حصہ ہے۔ نیز حب الوطنی کا تقاضا۔ اس وقت یہ سوچنا کہ ناکامی کس کے، کامیابی کس کے حصے میں جائے گی۔ بہت کمتر سوچ ہوگی۔ کیونکہ صرف ملک ہی ہم سے نہیں ہم بھی ملک سے ہیں۔