قومِ فروختند

ہمارے خیال میں لیٹ آنا لوگوں پر رعب قائم کرتا ہے اور اس سے آنے والے کا بڑا پن محسوس ہوتا ہے



دنیا بھر میں خبروں، مضامین، تبصروں، خیالات کے اظہار کے جو بھی ذرایع ہیں وہ ''ترقی یافتہ'' بھی ہوچکے ہیں اور دنیا میں کہیں کہیں ''ترقی پذیر'' ہیں یہ غریب ممالک کا مسئلہ ہے اور نظر آتا ہے۔ مگر ایک بات جو صاف اور واضح نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں ریڈیو اور اخبار نے اب تک اپنی اہمیت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ساری دنیا ریڈیو کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط ہے اور ساری دنیا میں اخبارات باقاعدگی سے شایع ہوتے ہیں۔

ایک خبر تو آپ سب کی نظر سے گزری ہوگی کہ وزیر مملکت انوشہ رحمن کو اقوام متحدہ کے جم ٹیک گلوبل اچیورڈز ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ خاتون انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس وقت وزیر مملکت ہیں۔ خبر کے مطابق اقوام متحدہ کے دو ذیلی اداروں نے مشترکہ طور پر اس خصوصی اعزاز کا حقدار قرار دیا ہے اور انھیں یہ ایوارڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی خصوصاً خواتین کو خود مختار بنانے کے شعبے میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔

ایک خصوصی تقریب ہوئی اور اقوام متحدہ کے خصوصی اجلاس کے موقع پر اور انوشہ رحمن کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔ چند روز قبل اسی اخبار میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ ایک سفارت خانے کی تقریب میں ایک خاتون وزیر مملکت ایک گھنٹہ لیٹ پہنچی تھیں اسلام آباد سے اسلام آباد میں جس پر اس ملک کے سفیر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے خاتون کی وجہ سے پاکستانی قوم کو لتاڑا تھا اور فرمایا تھا کہ ''لیٹ آنا پاکستانیوں کی عادت بن چکی ہے۔'' ان کا خیال درست ہے۔

ہمارے ہاں جو زیادہ اہمیت حاصل کرلے وہ اتنا ہی لیٹ آنا شروع کردیتا ہے کیونکہ ہمارے خیال میں لیٹ آنا لوگوں پر رعب قائم کرتا ہے اور اس سے آنے والے کا بڑا پن محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ صورتحال کچھ اور ہے اس سے لوگوں میں اس شخص سے نفرت، حقارت کا یا اضافہ ہوتا ہے یا یہ پیدا ہوتے ہیں اور بڑا پن نہیں بلکہ برا پن محسوس ہوتا ہے۔

صدر، وزیر اعظم کے دوروں کو میں زندگی بھر ریڈیو کی جانب سے cover اور ریکارڈ کرچکا ہوں اور اکثر تو اسٹیج سیکریٹری بھی رہا ہوں اور میں نے ہمیشہ ان لوگوں کو لیٹ ہی دیکھا ہے۔ کبھی کبھی تو صبح کی تقریب شام کو منعقد ہوئی ہے اور ایسا صدر زرداری کے دور میں ہوا ہے مگر کوئی صدر، وزیر اعظم Late آنے سے مبرا نہیں ہے۔ قائد اعظم کو تو میں نے بھی cover نہیں کیا مگر یقین ہے کہ وہ وقت پر آتے ہوں گے۔ ہم سارا رعب ان لوگوں پر ڈالتے ہیں جو ہمیں ووٹ دے کر کامیاب کرتے ہیں ان پر نہیں جن کے ووٹ سے ہم ایوارڈ حاصل کرتے ہیں۔

پی آئی اے کا اب فضائی سروس کے اعتبار سے آخری نمبر ہے۔ Merit کے اختتام کے بعد اور سیاسی بھرتیوں کے بعد اس بینک کا خدمات کے اعتبار سے دیوالیہ نکل چکا ہے۔

یہ ذاتی تجربے کی بات کر رہا ہوں، خدا کا شکر ہے کہ سرکاری فون کے بل پرائیویٹ بینک میں جمع ہونے کی نوید دس سال بعد سن کر جو خوشی ہوئی ہے مجھے وہ بیان سے باہر ہے۔ بل کبھی اوپر کے فلور پر جمع ہوتے تھے۔ دوسری منزل پر، اچانک گراؤنڈ فلور پر، اوپر جاکر پھر نیچے آؤ، یا نیچے پہنچو تو معلوم ہوتا کہ اوپر جمع ہوں گے۔ سرکارکے بل اور Tax جمع کروانے میں ذلت اور خواری جتنی ہم نے اٹھائی ہے ہم ہی جانتے ہیں اور یہی حال دوسرے لوگوں کا بھی ہوگا اس کا یقین ہے۔

اخبار میں پاکستان کے بیلسٹک میزائل ''شاہین ون اے'' کے کامیاب تجربے کی خبر ہے۔ جو 900 کلومیٹر تک ایٹمی اور روایتی وار ہیڈ کو لے جاسکتا ہے ہدف کو درست نشانہ بنا سکتا ہے۔ اچھی خبر ہے، مگر پہلے زمینداروں کی خبر تو لی جائے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ پاکستان کی فوج ہر محاذ پر کامیاب اور سیاستدان ناکام ہیں اور سیاستدانوں کی ناکامی قوم کی زبوں حالی ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ بھوک افلاس کا خاتمہ کرنا ہے۔

یہیں اخبار میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا بیان ہے کہ پاکستان کے ساتھ مل کر تاریخ کا دھارا بدلنا چاہتے ہیں، سرحدی خلاف ورزیاں، دہشت گردی، ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ امن کے لیے خطرہ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے خلوص کو مسلسل جانچتے رہیں گے۔ کمال ہے نا؟ یہ بیان پاکستان کے وزیر اعظم کا ہونا چاہیے تھا اور ہے بھارت کے وزیر اعظم کا۔ دہشت گردی کا شکار پاکستان بشمول کشمیر اور دہشت گرد بھارت جو دہشت گردوں کا سب سے بڑا سہولت کار ہے ۔

جس نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرکے عظیم دہشت گردی کی جسے آج تک کسی نے مذمت کے قابل نہ سمجھا کہیں سے کوئی آواز آج تک نہ اٹھی پاکستان کے حق میں۔

یہاں تک کہ خود پاکستان کے سیاستدانوں نے اسے ''غنیمت'' جانا کہ پاکستان کی اکثریت سے جان چھوٹی۔ آبادی کا بڑا حصہ الگ ہوگیا، وہ جانیں ان کا کام ورنہ ہماری تو ''باری'' نہ آتی۔ تو بھارت دہشت گرد ہمارے خلوص کو جانچتا رہے گا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف کس قدر کامیاب ہیں تاکہ وہ دوسرے طریقوں سے دہشت گردی کو فروغ دے جس میں پانی کی دہشت گردی شامل ہے۔ دریاؤں پر قبضہ بھارت کا خواب تھا جو حقیقت بن چکا ہے ہمارے سیاستدانوں کے تعاون سے۔ بہت تفصیل طلب ہے معاملہ بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جماعت علی شاہ کہاں ہے۔ اس کا کیا بگڑا جس نے ملک کے دریا ایک بار پھر بیچ دیے۔ قوم فروختند چہ ارزاں فروختند۔

آج بھی جب یہ کالم شایع ہو رہا ہوگا صرف ایک بات کا یقین ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہوگا، کاروبار جاری ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں