بیانیہ تبدیل کرنے کے خطرناک نتائج

تاجکستان، ازبکستان اور چیچنیا یہ تین ایسے علاقے ہیں جو پوری دنیا کی نظر میں خطرناک ترین سمجھے جاتے ہیں


Orya Maqbool Jan February 15, 2016
[email protected]

تاجکستان کے دارالحکومت سے ایک راستہ قلاب سے ہوتا ہوا افغانستان میں داخل ہوتا ہے۔ دوشنبہ سے قلاب جاتے ہوئے میں ظہر کی نماز کے لیے ایک چھوٹے سے قصبے میں رکا۔ سر راہے مٹی اور پتھروں سے بنی ہوئی ایک مسجد تھی جس میں درختوں کی چھال کی بوسیدہ چٹایاں پڑی تھیں۔ ایک بڑی سی جستی ٹینکی تھی جس سے مخروطی سے لوٹے میں پانی لے کر وضو بناتے تھے۔ مسجد میں ایک نوے سالہ بوڑھا صحن میں بیٹھا چمڑے کے جزدان میں لپٹے ہوئے قرآن پاک کو پڑھ رہا تھا۔

مجھے پانی کی تلاش میں سرگرداں دیکھ کر وہ میری طرف آیا چونکہ ٹینکی کے ساتھ ایک پائپ لگا ہوا تھا جو مجھے نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اس پائپ سے اس مخروطی لوٹے میں پانی بھرا اور پھر مجھے مہمان خیال کرتے ہوئے وضو کرانے پر اصرار کرنے لگا۔ میں نے اس کے بڑھاپے کی وجہ سے لوٹا لے لیا اور خود ہی وضو کرنے لگا۔ اس کی تاجکی لہجے کی فارسی اور میری اردو لہجے کی فارسی نے مل کر آپس میں بات کرنے کا راستہ نکال لیا۔

اس نے کہا میری عمر نوے سال کے قریب ہے یا اس سے زیادہ ہے۔ میں ٹھیک اس سال پیدا ہوا جب سوویت انقلاب آیا تھا۔ میرا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ تھا۔ ہم ویسے ہی سادہ سے مسلمان تھے جیسے باقی مسلمان زار روس کی بادشاہی میں زندگی گزار رہے تھے۔ سوویت انقلاب کے بعد ریاست کا بیانیہ بالکل تبدیل ہو گیا اور وہ مذہب کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھنے لگے۔ تمام مساجد پر تالے لگ گئے، قرآن پاک اٹھا کر ٹرکوں میں ڈال کر لے جائے گئے۔ وہ سرزمین جہاں سے امام بخاری اور امام مسلم جیسے محدثین پیدا ہوئے تھے وہاں دینی تعلیم ایک شجر ممنوعہ بنادی گئی۔ دین کے مقابلے میں کلچرل سینٹر قائم کیے گئے۔

روسی معاشرے میں ضم کرنے کی خاطر ہمیں اپنے ناموں کو بھی بدلنے کو کہا گیا۔ کریم سے کریموف اور نذیر سے نذیروف ہو گئے۔ وہ تمام اساتذہ جو مدارس میں پڑھاتے تھے فیکٹریوں میں مزدوریاں اور کھیتوں میں کام پر لگا دیے گئے۔ میں نے سوال کیا کہ پھر تم نے یہ قرآن پاک کب پڑھنا سیکھا۔ وہ مجھے ساتھ ہی اپنے گھر لے گیا جس کا ایک تہہ خانہ تھا۔ اس نے کہا کہ اس بستی کے بچے ایسے ہی تین چار تہہ خانوں میں چھپ کر قرآن پڑھتے ہیں اور دین کے متعلق معلومات حاصل کرتے۔

میرے والد کوئی مذہبی آدمی نہ تھے لیکن انقلاب کے آتے ہی اور ریاست کا بیانیہ تبدیل ہوتے ہی وہ کٹر مذہبی ہو گئے۔ ہمارے باہر بازار میں تمام روسی کمیونسٹوں کی زندگی گزارتے لیکن گھر کی چار دیواری ایک مکمل مسلمان گھرانے کا منظر پیش کرتی۔ ایسے کئی گھر تھے جن کے بچوں کی دینی معلومات کسی بھی مدرسے کے استاد کے برابر تھیں۔ عبادات سے لے کر جہاد فی سبیل اللہ تک ہمیں ہر بات کا علم تھا۔ لیکن ریاست کا کنٹرول اسقدر سخت تھا کہ ہم یہ سب بیان نہیں کر سکتے۔

بدترین ریاستی تشدد سائبیریا کی سرد ترین جیلیں، موت، بلکہ بعض دفعہ تو پورے خاندان کی موت مقدر ہو جاتی اگر تھوڑا سا بھی ہم ریاستی جبر سے متعلق آواز اٹھاتے یا صرف گفتگو ہی کرتے۔ پورے 75 سال ایسے گزرے اور پھر جب سوویت یونین ٹوٹا، ہمیں آزادی ملی تو ہمیں ایک لمحے کے لیے اپنی مساجد دوبارہ آباد کرنے، مدرسے کھولنے اور دین کی تعلیم دینے میں دیر نہ ہوئی جب کہ یہی سب کچھ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی ہوا۔ یہودی تو بھاگ لیے اور عیسائی البتہ کمیونسٹ اقدار میں رچ بس گئے کہ ان کے جانے کے بعد بھی ملحد رہے، سیکولر اور لبرل ہو گئے۔

تاجکستان، ازبکستان اور چیچنیا یہ تین ایسے علاقے ہیں جو پوری دنیا کی نظر میں خطرناک ترین سمجھے جاتے ہیں کہ یہاں سے مجاہدین اٹھ اٹھ کر افغانستان، عراق، بوسنیا اور شام میں جا کر لڑتے ہیں۔ یہ وہ خطے ہیں جہاں 75 سال تک ریاست کا بیانیہ مکمل طور پر مذہب کے خلاف تھا کہ کارل مارکس مذہب کو افیون قرار دیتا تھا۔ اس ریاست کے بیانیے کے ساتھ ساتھ تمام مدارس مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے تا کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی نہ پھلے پھولے جو کوئی تھوڑا بہت ایسا نظر آتا کوئی گروہ منظم ہونے لگتا تو اسے آپریشن کے ذریعے ختم کر دیا جاتا۔

اس سب کے باوجود آزاد ہونے کے بعد تاجکستان اور ازبکستان میں جس طرح اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا اس کی تاریخ بہت خون آشام ہے۔ ریاستی طاقت کے مقابلے میں یہ لوگ آج بھی لڑتے چلے آ رہے ہیں۔ تاجکستان میں ازبکستان اسلامی حرکتی کی بنیاد ڈالی گئی جس کی قیادت طاہر یلدشف اور جمعہ غنگاتی کرتے تھے۔ یہ ازبکستان کے حکمران اسلام کریموف کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ تاجکستان کا ماحول اس وقت بہت گرم تھا۔ 1992ء میں رحمانوف نے اسلامسٹوں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور وہاں اسلامک رینائنس پارٹی نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں تھیں۔

سعید عبداللہ نوری اس کا سربراہ تھا جس کی پورے ملک میں بہت عزت تھی۔ نوری نے رحمانوف کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کیا اور تاجکستان کی فوج سے لڑ پڑا۔ آخر کار 1997ء میں صدر رحمانوف اور عبداللہ نوری کے درمیان معاہدہ ہو گیا لیکن ازبکستان کی تنظیم یہاں کام کرتی رہی اور تاشقند کے بازار دھماکوں سے گونجتے رہے۔ دوسری جانب تاجکستان میں آج تک حکومت وہاں پر موجود عسکری گروہوں سے لڑتی رہتی ہے۔ یہی حال چیچنیا کا ہے جہاں روسی افواج کو آئے دن عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوویت یونین کے یہ تمام علاقے زار روس کے زمانے میں بہت آرام سے اپنی زندگیاں گزار رہے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں بھی ان کا لائف اسٹائل بہت پرسکون تھا۔ ان میں شدت پسندی نام کو بھی نہیں تھی۔ سب کے سب ایک معمول کی زندگی گزار رہے تھے لیکن دو چیزوں نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں۔ ایک جب ریاست کا بیانیہ تبدیل ہوا اور مسلمانوںکواپنا دین ہاتھ سے جاتا ہوا محسوس ہوا اور دوسرا جب ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان سے ہر وہ شناخت چھیننے کی کوشش کی گئی جسے وہ صدیوں سے اپنے سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ وہ ان کے آباؤ اجداد کی میراث بھی تھی اور مذہب کی علامت بھی۔ بڑے بڑے کلچرل سینٹر' نائٹ کلب' سستی شراب' جنسی آزادی اور ایسا بہت کچھ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے اور وہ آج دنیا کے خطرناک ترین جہادی افراد کی آماجگاہ تصور کیے جاتے ہیں۔

روس سے علیحدہ ہونے والے یہ ملک تو بسں یوں ہی رنگ' نسل اور علاقے کی بنیاد پر تخلیق کیے گئے تھے۔ ان کی بنیاد وہ بیانیہ نہیں تھا جو پاکستان کی تخلیق کی بنیاد بنا۔ ان کی جنگ کسی ایسے دشمن سے نہیں تھی جسے بھارت کہتے ہیں اور جس سے جنگ علاقے کی جنگ نہیں بلکہ کفر اور اسلام کی جنگ تصور کی جاتی ہے اور تمام تقریریں' تمام نظمیں اور ترانے جذبہ شوق شہادت اور جذبہ جہاد سے مامور ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کی افواج اور قومیں' زمین' رنگ' نسل اور زبان کے ساتھ ساتھ علاقے کے تحفظ میں تخلیق کی جاتی ہیں اسی لیے ان کے ترانے بھی وطن کی مٹی سے زیادہ نہیں ہوتے۔

ان کا نصاب تعلیم بھی ان کو مٹی اور ثقافت کی محبت کا درس دیتا ہے۔ قومی فوج اور نظریاتی فوج میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پاکستان کو ایک قومی فوج ملی تھی جو برما سے لے کر بیلجئم تک لڑی لیکن تخلیق پاکستان نے اسے ایک نظریاتی فوج بنا دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بھارت سے صرف مسلمانوں کے کشمیر کے لیے ہی نہ لڑتی بلکہ تاملوں' سکھوں اور ناگا اور میزو لینڈ کے لیے بھی ویسے ہی لڑتی۔ مزید شہادت وہ تصور ہے جو اگر ریاست کا بیانیہ نہ ہو اور نصاب کا حصہ نہ ہو تو آپ اس فوج کو میدان میں نہیں اتار سکتے اسی لیے شہادت کے ترانے ایسے ہوتے ہیں

علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
رسول پاکؐ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا

اگر ریاست کے بیانیے سے جہاد اور جذبہ شوق شہادت خارج کر دیا جائے نصاب کی کتب سے ایسے تمام ہیروز کے تذکرے ختم ہو جائیں۔ وہ نسل جو آیندہ بھارت کے سامنے بندوق اٹھائے' اسے ان سب کا علم نہ ہو تو کیا ترانہ ایسے لکھا جائے گا۔

یحییٰ خان تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے
ایوب خان نے بانہوں میں لے لیا ہو گا

ایسا نا ممکن ہے۔ ایسی ترغیب آپ کو کسی بھی میدان میں کام نہ آئے گی۔ دہشت گردی ختم کرو کہ یہ ظلم کی داستان ہے لیکن جس دن آپ نے ریاست کا بیانیہ بدلنے کی کوشش کی یاد رکھو آپ کا بیانیہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے بیانیے سے مختلف ہو جائے گا۔ ایسے میں ایک عام سا سادہ سا' مرنجا مرنج مسلمان بھی تاجکستان' ازبکستان اور چیچنیا کے مسلمانوں کی طرح شدت پسند بنتا چلا جائے گا۔ پھر ماتم مت کرنا اپنی پالیسیوں پر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں