اپنے بارے میں لکھیں اپنے لیے سوچیں

عالمی سیاست کا نیا یا آیندہ منظرنامہ کیا ہونے جارہا ہے


راؤ سیف الزماں February 09, 2016
[email protected]

میں گزشتہ تحریر میں اسی موضوع پر اصرارکرچکا ہوں۔ آج اعادہ کروںگا یہ کہہ کر لکھنے والے تمام عزیز و اقارب سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنے چنیدہ موضوعات میں پاکستان، پاکستانی معاشرہ، قوم اور قوم کو درپیش مسائل ضرور شامل کریں۔ زیادہ سے زیادہ بحث کریں۔ چن چن کر ان خامیوں کی نشاندہی کریں جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ دیکھیے دنیا میں کیا ہورہا ہے، مغربی یا مشرقی سماج کی اکائیاں کون ترتیب دے رہا ہے، کون Boss یا Big Boss ہے۔

عالمی سیاست کا نیا یا آیندہ منظرنامہ کیا ہونے جارہا ہے، ہم چاہیں تو ان موضوعات پر دنوں، مہینوں بول سکتے ہیں اور ضابطہ تحریر بھی کرسکتے ہیں، لیکن آج ضرورت ہے۔ بڑی ضرورت ہے اپنے گریبان میں جھانکنے کی۔ آج جو مسئلہ درپیش ہے وہ خود کو سنوارنے کا ہے،کیونکہ ایک زوال پذیر قوم کے کسی فرد کو، خواہ وہ کوئی دانشور ہی کیوں نہ ہو۔

زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسے ترقی یافتہ معاشروں پر بحث کرے اور ان کی کمی یا خامی پر بات کرے جو اس کے سماج پر سیکڑوں گنا برتری رکھتے ہوں۔ ہاں اگرکوئی آپ کے معاملات میں دخل درمعقولات کررہا ہو تو پھر وہ Big Boss ہی سہی آپ اسے کرید سکتے ہیں۔

اسے انتباہ کرسکتے ہیں لیکن بلا وجہ کسی کی ترقی کے ذکر اذکار کی گٹھری پیٹھ پر لاد لینا یا کسی کی تنزلی کا چرچا کرکے آڑ لینے کی کوشش کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ یعنی رفتار نہ ہونے کے برابر، اس پر مزید بوجھ اوراٹھا لیا جائے، میری دانست میں یہ درست نہیں۔ میں نے جو کہا اس کی وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں، پڑھتا ہوں، ہمارے قلمکار جن میں تمام نام کم ازکم مجھ سے بہت بڑے ہیں۔

اس مرض کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور مغربی و یورپی ملکوں کی طرز معاشرت پر ان کی دقیق معلومات پڑھ کر تو بعض اوقات یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ گویا انھی معاشروں کے افراد ہوں۔ وہیں رہتے بستے ہوں، بہر حال مجھے جوکہنا تھا میں نے وہ کہنے کی بلا کم وکاست کوشش کی ہے۔

قارئین کرام ! میں آج بھی کچھ ایسے ملکی مسائل پر بات کروں گا جن کا ہم ان دنوں شکار ہیں۔ حالانکہ خبروں کا انبار ہے لیکن میں ان میں سے چند ایک کام کی خبریں چن لیتا ہوں، مثلاً پہلا پہل اگر میں ''عزیر بلوچ'' کی گرفتاری کا ذکر نہ کروں تو آپ مجھے کوسیں گے۔

جی ہاں عزیر بلوچ جن کی گرفتاری چند روز قبل ظاہر کی گئی۔ عزیر بلوچ کو جو انکشافات کرنے تھے وہ تمام اپنی مدت گرفتاری میں کرچکے ہوں گے۔ فی الحال تو انھیں بس مشتہر کیا جا رہا ہے جن میں ان کی جماعت PPP کے اہم و سرکردہ رہنماؤں کی ان تمام جرائم میں شمولیت کا کھلم کھلا ذکر ہے، جو عزیر بلوچ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ''پیپلز امن کمیٹی'' کے سربراہ کے طور پر انجام دیے۔

بھتہ خوری، قتل، اغوا برائے تاوان، نجی وسرکاری املاک پر جبری قبضے، سیاسی مخالفین کو ٹارچرکرنا، غرض کہ ایسا کوئی جرم شاید ہی ایجاد ہوا ہو جو عزیز بلوچ نے نہیں کیا یا جس میں سندھ پولیس کے ہر سطح کے آفیسرز ملوث نہ ہوں۔سیاسی رہنما، وزیر، مشیر جھوٹ بولنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، ان کے لیے تو جائز نہیں لیکن انھوں نے جائز کرلیا کہ ان کا ہر جرم قابل معافی ہے۔

کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ سندھ حکومت پر تنقید کرے اور اگرکوئی کرے گا تو اسے سندھ دھرتی پر حملہ تصورکیا جائے گا، قارئین کرام یہ دھرتی کا معاملہ بھی عجیب ہے بظاہر دھرتی زمین ہی کا دوسرا نام ہے لیکن یہاں اس کے مفہوم قدرے مختلف ہیں۔ یہاں غالباً اس سے مراد ایک ایسا وطن ہے جو فی الحال کسی مرکز سے اشتراک رکھتا ہے اور یہ اشتراک قطعاً مشروط ہے، مثلاً اس میں مرکز کے جملہ حقوق محفوظ نہیں۔ زیادہ تر معاملات میں سندھ دھرتی خود مختار ہے، کم ازکم کرپشن کے معاملے میں تو اس سے کوئی باز پرس ہو ہی نہیں سکتی۔

لہٰذا اب جو معاملات طے ہونے جارہے ہیں بحکم آرمی چیف جو ایک نہایت محب وطن، غیر جانبدار، سپہ سالار ہیں۔ PPP ان میں مزاحمت کا جزوی ارادہ ضرور رکھتی ہے۔ میں نے جزوی کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ دو دن قبل سندھ کابینہ رینجرزکے اختیارات کی حتمی منظوری دے چکی ہے ہم اسے قدم کو ایک ایسا اشارہ مانتے ہیں جس میں کہیں تسلیم کا عنصر بھی موجود ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے۔ کیا عسکری قیادت اپنے نیک ارادوں میں کامیاب ہو کی؟ یا جرائم کا تسلسل۔

مرکز اور سندھ حکومت کا گٹھ جوڑ بھی ایک ایسی خبر ہے جو مصدقہ ہوچکی، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری بغل گیر ہیں۔ بظاہر وہ ایک دوسرے کو کچھ بھی کہہ لیں لیکن درونِ خانہ دونوں ہم قدم، ہم نوالہ، ہم سفر، یہ گٹھ جوڑ بھی ملکی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوا۔ بلکہ صاف صاف بات تو یہ ہے کہ اس ڈیل میں جس کا عنوان ''ہم اِدھر تم اُدھر'' ہے میں سندھ کو بڑا نقصان پہنچا۔

ملک کی تمام آمدن پنجاب کی ترقی پر خرچ کی جا رہی ہے بلکہ بعض جگہ تو کہنا ہوگا لٹارہے ہیں باقی 3 صوبے جس میں سے ایک میں انھی کی حکومت ہے قریب قریب مرکز کی خدمت چاکری کررہے ہیں۔ لیکن کیا اس طریقہ کار سے ملک کی خدمت ہوسکے گی؟ مرکز مضبوط ہوپائے گا؟ ہرگز نہیں، الیکشن 2013 کے بعد سے ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں گے تو اندازہ ہوجائے گا کہ بلدیاتی انتخابات سمیت ضمنی الیکشنز کے Results کس طرف کا اشارہ دے رہے ہیں۔

میں حکمرانوں کی توجہ پچھلے 3 سال سے اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کررہا ہوں۔ آج بھی ان سے ملتمس ہوں کہ خدارا ایسا نہ کریں اگر کوئی خلا صوبوں اور مرکزکے درمیان پیدا ہوگیا تو اسے پاٹنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ معاملات بہت دور تک ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں