آرمی چیف کا فیصلہ منظر پس ِمنظر
عام طور پر یہ آرمی چیف اپنے امریکی ہم منصب سے مل کر واپس آجاتے ہیں۔
MIRPUR:
آئی ایس پی آر کے اس ٹویٹ نے جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ بیان جاری کیا گیا ہے کہ وہ توسیع لینے پر یقین نہیں رکھتے ، ان دنوں قومی سیاست میں ہلچل پیدا کررکھی ہے ۔ جنرل راحیل شریف کے عہدے کی مدت ختم ہونے میں ابھی دس مہینے، یعنی قریب قریب پوراسال باقی ہے۔ بالعموم آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع یا عدم توسیع کی بحث اس کی ریٹائرمنٹ کے قریب جا کے چھڑتی ہے۔ یعنی، یہ بحث اگر رواں سال وسط ستمبر میں جا کے چھڑتی تو اس کو معمول کی بحث باورکیا جا سکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ بحث سال پہلے ہی چھیڑ دی گئی۔ سوال یہ ہے کیوں ؟
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ بحث ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کی طرف سے باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شروع کی گئی۔ مصرع طرح سابق صدر آصف زرداری نے دیا، جب انھوں نے کے پی کے پارٹی عہدیداروں کے اجلاس میں کہا کہ ' آپ نے تین سال رہنا ہے ، اس کے بعد چلے جانا ہے ، ہمیں تنگ نہ کریں، ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔'
اس مصرع پر انھی کی پارٹی کے خورشید شاہ نے یوں گرہ لگائی کہ دہشت گردی کے خلاف آرمی چیف کی خدمات بلا شبہ قابل تحسین ہیں، لیکن توسیع بہرحال انکو قبول نہیں کرنی چاہیے۔ لطف یہ ہے کہ یہ بیانات وہ پارٹی جاری کر رہی تھی، جس نے اپنے دورحکومت میں آرمی چیف کو ایک دو نہیں، پورے تین سال کی توسیع دی تھی۔ انتہائی ہوشیاری سے حکومتی وزرا نے اس بحث کو اس طرح آگے بڑھایا ۔ یہ بحث چل رہی تھی کہ نوازشریف امریکا پہنچ گئے۔
لیکن عین اس روز جب وہ وہائٹ ہاوس میں امریکی صدر سے مل رہے تھے، امریکی جریدے وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان حقیقی اور بامعنی مذاکرات اگلے ماہ ہوں گے،جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف امریکا آئیں گے اور امریکی انتظامیہ سے ملاقات کریں گے۔اس کی وضاحت یوں کی گئی کہ 'دہشت گردی کے خلاف جنگ اورکراچی آپریشن ، جو امریکی نقطہ ء نظر سے اس خطے میں قیام امن کے لیے ناگزیر ہیں، فوج کر رہی ہے ، حالانکہ یہ کام سول حکومت کے کرنے کے تھے، اور یہ کہ سول حکومت کی اس بیڈ گورننس سے ہی وہ خلا پیدا ہوا ہے، جس میں جنرل راحیل شریفSoldier Statesman کے طور پر ابھرے ہیں اور واشنگٹن انتظامیہ ان سے براہ راست بات کرنے پر مجبور ہے۔'
امریکی جریدے نے اس رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ سیکیورٹی ایشوز پرحکومت اور فوج کے درمیان جو unequal coalition ہے، اس میں فی الوقت کوئی ہم آہنگی بھی نہیں اور ایک دوسرے کے بارے میں سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔ وال اسٹریٹ جنرل کی اس رپورٹ سے نوازشریف کے امریکی دورہ کو جو دھچکا پہنچا ، یہ اندازہ دوسرے روز ان کی باڈی لینگوئج سے لگایا جا سکتا تھا۔ یہ امرحیران کن ہے کہ اگلے ماہ آرمی چیف کے دورہ امریکا سے چند روز پہلے ہندوستان ٹائمز نے یہ خبر شایع ہوئی یا شایع کرائی گئی کہ وہ اپنے طور پر امریکا جا رہے ہیں ۔
ہندوستان ٹائمز کی اس رپورٹ کوحکومتی حلقوں کے اندر اور باہر جن لوگوں نے اچھالا، ان کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا کہ ان کے امریکی دورہ کی اہمیت کم کرکے دکھائی جائے۔ لیکن یہ کوشش اس وقت دھری کی دھری رہ گئی، جب امریکی ریڈیو پر خود امریکا کے سرکاری ترجمان نے جنرل راحیل شریف کی امریکا میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کا شیڈول جاری کر دیا۔ یاد رہے کہ ہر دوسرے یا تیسرے ہفتے میں دنیا کے کسی نہ کسی ملک کا آرمی چیف واشنگٹن پہنچتا ہے۔
عام طور پر یہ آرمی چیف اپنے امریکی ہم منصب سے مل کر واپس آجاتے ہیں۔ معددوے چند آرمی چیف ہوتے ہیں،جنکی سیکریٹری ڈیفنس سے بھی ملاقات ہوتی ہے ۔ ایسا مگر شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کسی غیر ملکی آرمی چیف سے امریکی نائب صدر سمیت انتہائی اہم اورچوٹی کے سیاسی، دفاعی اور فوجی عہدے دار ملاقات کریں، بلکہ اسکو سینیٹ کی دفاعی اور سلامتی کی کمیٹیوں سے خطاب کا موقع بھی دیا جائے۔ جنرل راحیل شریف کو امریکا نے جو پروٹوکول دیا ، وہ اس کے معمول کے خلاف ہے ۔
اس دورے کا یہ پہلو بھی کافی اہم تھا کہ صرف ایک ہفتہ پہلے کورکمانڈرکانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری ہوا ، اس میں بغیر کسی ابہام کے حکومت کے لیے یہ پیغام موجود تھا کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کے ضمن میں فوج اور قوم نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے، مگر حکومت نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی، اور یہ کہ حکومت کی طرف سے گڈ گورننس پر توجہ نہ دینے کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج اور قوم کی قربانیاں رائیگاں بھی جا سکتی ہیں۔
حکومت نے اس پریس ریلیز بہت برا مانا اور گزشتہ روز اس کی وضاحت ضروری سمجھی ۔ حالانکہ گڈ گورننس کے ضمن میں بعینہ یہی بات چند دن پہلے چیف جسٹس آف پاکستان بھی کر چکے تھے۔ اس تناظر میں آرمی چیف کا امریکی دورہ ، حکومت کے اندر اورباہر ان لوگوں کے لیے واقعی پریشان کن تھا ، جو نیشنل ایکشن پلان شروع ہونے کے بعد ان کے تیسرے سال کے دن گن گن کر گزار رہے ہیں ۔
امریکی دورے کے بعد جہاں آرمی چیف کی مقبولیت میں یکدم اضافہ ہوا، وہاں ان کے عہدے کی مدت پر بحث میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ حکومتی عہدے داروں کی طرف سے اگرچہ ان کی مدح کی جا رہی تھی اور دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کا اعتراف کیاجا رہا تھا ، لیکن یہ بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان کو فی الحال اپنے پاوربیس پنجاب کی حدود سے باہر رکھنا چاہتی ہے، اور اس پر فوج کی جانب سے واضح یقین دہانی چاہتی ہے۔
ادھر، فوج پر اس طرح کی تنقید میں ہرگزرتے دن کے ساتھ شدت آ رہی تھی کہ کیا نیشنل ایکشن پلان صرف سندھ یا کے پی کے کے لیے ہے، اور پنجاب میں سب اچھا ہے۔ ظاہراً اس اعتراض میں وزن بھی ہے۔ اس پس منظر میں جب قومی ذرایع ابلاغ پر آرمی چیف کی مدت میں توسیع کی بحث ہوتی، یا اس طرح کی خبریں اڑتیں یا اڑائی جاتیں کہ حکومت انکو توسیع دینے پر غور کر رہی ہے ، یا ان کے عہدے کی معیاد میں اضافہ کیا جا رہا ہے ، یا ان کے اور حکومت کے درمیان' کچھ لو ، کچھ دو' کی بنیاد پر سمجھوتہ ہو رہا ہے، تو اس سے ابہام پیدا ہورہا تھا۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا ۔
نوازشریف نے اپناـغیر ملکی دورہ مختصر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ عمران خان ابھی یونیورسٹی پہنچنے کا پروگرام ترتیب دے رہے تھے۔ اس کے برعکس جنرل راحیل شریف چند گھنٹوں کے اندر اندر متاثرین سے اظہاریکجہتی کے لیے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ تعجب کی بات مگر یہ تھی کہ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر درجنوں'نامعلوم' ویب سائٹس پر جنرل راحیل شریف کو باقاعدہ ٹارگٹ کرکے نشانہ بنایا گیا اور نیشنل ایکشن پلان پر انتہائی عامیانہ طریقے سے تنقید کی گئی ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کی مذمت کے پردہ میں آرمی چیف اور نیشنل ایکشن پلان کی ساکھ کو راکھ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئی ایس پی آر کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ اس مذموم مہم کے پیچھے کون لوگ ہیں اورکیا چاہتے ہیں۔
پھر انھی دنوں میں انتہائی مصدقہ ذرایع سے یہ اطلاعات منظر عام پر آئیں ، یا لائی گئیں کہ حکومت کے تین ذمے دار وزرا کی جانب سے آرمی چیف کو توسیع کی باقاعدہ پیشکش کی جا چکی ہے، بلکہ بعد از ریٹائرمنٹ ان کی خدمات سے استفادہ کے لیے دیگر آپشنز بھی زیرغور ہیں ؛ یعنی ان کے عہدے کی معیاد میں اضافہ کر دیا جائے ، یا چیرمین چیفس آف اسٹاف کے عہدے کو قدرے بااختیار بنا کے ان کو 'انسداد دہشت گردی آپریشن' کا انچارج مقرر کر دیا جائے۔
ان خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض حلقوں نے یہ تاثر پیدا کرنے کی سعی کی کہ جوکچھ ہو رہا ہے ، آرمی چیف کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا ، بلکہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان شروع کرنے کے حوالہ سے حکومت اور سیکیورٹی فورسز میں اختلافات کو آرمی چیف کی توسیع سے جوڑنے والے بھی موجود تھے۔ اس طرح ایک ایسے آرمی چیف کو متنازع بنانے کی سازش کی جا رہی تھی،جو اپنے شہید بھائی شبیر شریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے دشمنوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر، جس میں بطور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا کہ وہ اپنا ردعمل ظاہر کریں، ورنہ عام حالات میں اس کی ضرورت نہ تھی۔ اب یوں ہے کہ ایک ہی فائر کرکے انھوں نے اپنے خلاف تمام توپوں کو خاموش کر دیا ہے۔
افواہوں کی چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی ہے اور ان کا اجلا اور بے داغ فوجی کردار پھر سے نکھر کر سامنے آ گیا ہے۔ ان کے اس اقدام سے دہشت گردی اورکرپشن کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا امیج بھی بہتر ہوا ہے، اور اب اگر یہ پلان سندھ اور کراچی کی حدود سے نکل کر پنجاب سمیت باقی صوبوں کا رخ کرتا ہے ، جیسا کہ توقع کی جا رہی ہے، توکوئی اس پر انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکے گا۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے کردار وعمل سے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے اور ان کے خاندان کے لیے پاکستان سے بڑھ کر پہلے بھی کوئی چیز نہیں تھی، اب بھی کوئی چیز نہیں ہے۔ شاعر نے کہا تھا ،
وہ دولت ِجنوں کہ زمانے سے اٹھ گئی
اس دولت ِجنوں کو سنبھالے ہوئے ہیں ہم