ایسٹ انڈیا کمپنی اور ہم

انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کے وقت شہنشاہ دہلی کی حیثیت محض ایک بے خانماں ہرزہ گر کی سی رہ گئی تھی


Saeed Parvez February 01, 2016

مولانا ظفر علی خان ساری عمر انگریز کے خلاف لڑتے رہے، جیلیں کاٹیں، مگر انگریز سے ہار نہ مانی، ان کا خانوادہ بھی اس جدوجہد میں کم و بیش ساتھ ساتھ رہا۔ مولانا کے چھوٹے بھائی مولانا حامد علی خاں خصوصاً اپنے بڑے بھائی کے شانہ بشانہ ساتھ رہے۔ روزنامہ زمیندار اپنے زمانے کا انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کے متوالوں کا سب سے بڑا ترجمان تھا۔ مولانا ظفر علی خان زمیندار کے ایڈیٹر تھے۔ اس اخبار نے بھی مولانا کے ساتھ ساتھ بڑے دکھ جھیلے۔

مولانا غلام رسول مہر کے صاحبزادے امجد سلیم علوی نے روزنامہ زمیندار میں شایع ہونے والا ایک مضمون منظر عام پر لائے ہیں، یہ مضمون 17 جنوری 1925 کے دن شایع ہوا تھا۔ حضرت مولانا حامد علی خاں کے مضمون چھوڑے ہوئے ظلم و استبداد کے تمام ہتھکنڈے انگریزوں کے ''دربانوں'' نے، ان ''کالے انگریزوں'' نے ہمارے ملک پاکستان میں ہوبہو اپنا رکھے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں ''ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارفرماؤں نے اپنی ''فاتحانہ دستبرد'' اور ''ہوسِ زر اندوزی'' کے جنون میں اس ملک کا تمام نظام تمدن و معاشرت کو یکسر تہہ و بالا کردیا اور اپنے ''مکر و فریب'' اپنے ''جور و استبداد'' اور بڑھتے ہوئے ''اثر و اقتدار'' سے فائدہ اٹھا کر ملک کی صنعت و حرفت کی کل کو ایسا بگاڑ دیا کہ پھر اس کے سنورنے کی کوئی صورت بھی باقی نہ رہی۔''

مولانا کے اس مختصر اقتباس میں چند الفاظ کو میں نے نمایاں کیا ہے۔ اس پر غور کرتے جائیں اور اپنے پاکستان کے ''خیرخواہوں'' کو یاد کرتے جائیں ''فاتحانہ دستبرد'' ، ''ہوسِ زر اندوزی''، ''جور و استبداد''۔

زراعت کے حوالے سے مولانا لکھتے ہیں ''کیا یہ قیامت نہیں کہ ہندوستان جیسا زرخیز ملک قحط کے باعث بعض اوقات آسٹریلیا تک کے غلے کا محتاج ہوا ہے''۔ مولانا افلاس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''افلاس کا یہ حال ہے کہ ایک ہندوستانی کی آمدنی کا اوسط خود انگریز اہل الرائے کے مطابق تیس روپیہ سالانہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں چوری اور بالخصوص گداگری کو بہت فروغ حاصل ہو رہا ہے''۔

زراعت کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے مولانا حامد علی خاں لکھتے ہیں ''انگریزوں کے دور سے پہلے ہندوستان نہایت خوشحال تھا، صنعت و حرفت اور زراعت کا نظام بھی نہایت مستحکم اور سلجھا ہوا تھا، لیکن جہاں جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قدم گیا، اس کے عمال نے ضایع کے ساتھ ساتھ ابتدا ہی میں یہاں کی زراعت پر بھی خوب ہاتھ صاف کیے اور یہ لہلہاتا ہوا گلزار لمحوں میں مغربی باد سموم کے تند اور خرمن سوز جھونکوں سے خاکِ سیاہ ہوکر ایک بھائیں بھائیں کرتا ہوا بے برگ و گیا ویرانہ رہ گیا'' انگریز سے پہلے کے ہندوستان کی آسودہ حالی کا ذکر یوں ہوا ہے ''زمینداروں اور صنعتکاروں کی جمعیتیں ہوا کرتی تھیں اور بوقت ضرورت راجہ بھی ان سے قرض لیا کرتا تھا، پھر ہندوستان کی تباہی و بربادی یوں ہوئی کہ ملک کا دیوالیہ نکل گیا''

انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کے وقت شہنشاہ دہلی کی حیثیت محض ایک بے خانماں ہرزہ گر کی سی رہ گئی تھی، اور شہنشاہ بالکل معذور و مجبور آدمی تھا، بنگال، بہار، اڑیسہ کی دیوانی لے کر انگریز دیوانے ہوگئے۔ چنانچہ کمپنی نے ایک مقررہ لگان وصول کرنے کے بجائے اراضی کا نیلام شروع کردیا۔ جو سب سے زیادہ لگان ادا کرتا تھا زمین کاشت کے لیے اسی کو دی جاتی تھی، زمین کو کمپنی اپنی ملکیت سمجھتی تھی اور کاشتکاروں کے حقوق محض لگان کی کمی یا زیادتی پر منحصر تھے۔''

اب پاکستان کا حال سن لیں، ابھی کل ہی مجھے میرے ایک دوست بتا رہے تھے کہ فصل کی کٹائی کے بعد زمین کے مالک نے ہاریوں سے کہا کہ ''میں اس بار آپ کو بٹائی کا حصہ نہیں دوں گا کیونکہ میرا بڑا زیادہ خرچہ ہوگیا ہے۔'' یہ سن کر ایک ہاری نے ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا ''زمیندار صاحب! آپ تو پیسے والے ہو، ہمیں فصل کا حصہ نہیں ملا تو ہم کیا کریں گے؟'' زمیندار نے اس گستاخ پر اتنی مہربانی کردی کہ اسے حصہ دے دیا اور کہا کہ ''آیندہ تم میرے کھیتوں میں کام نہیں کروگے۔'' زمیندار کا فیصلہ سن کر باقی سارے ہاری سر جھکاکر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ گئے۔

جو انگریز کرتا تھا وہی سب کچھ آج بھی ہو رہا ہے، برائے نام آزاد ہوکر بھی ہم آزاد نہیں ہیں۔ میں پورے سندھ اور پنجاب میں گھوما ہوں، ہر چند میل پر قوی ہیکل دروازے تعمیر کیے گئے ہیں، خوبصورت اور مہنگی ٹائلوں سے آرائش کی گئی ہے اور پرغرور دروازوں پر کندہ ہیں ''فلاں وڈیرے یا جاگیردار کی جاگیر'' زمین اللہ کی اور قابض یہ زمینی اللہ

بابا مرگیا ایں، تے مروا گیا ایں
سانوں وس توں کِنّاں دے پا گیا ایں

حبیب جالب بابا قائداعظم سے گلہ گزار ہیں کہ بابا تم بھی مارے گئے اور ہم بھی مارے گئے، اے بابا! تم ہمیں کن کے حوالے کرگئے ہو؟

باقی حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم کو زندگی نے مہلت نہیں دی اور وہ مار دیے گئے۔ ورنہ ان کو ابھی اور بہت کچھ کرنا تھا۔ اور یقیناً وہ ان ''زمینی خداؤں'' کا بھی بندوبست کرکے جاتے۔ چلیے تھوڑا سا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا احوال مولانا حامد علی خاں کی زبانی سن لیں۔ ''1775 سے 1784 تک۔ اس وقت انگریزوں کا اثر اور اقتدار بنگال، بہار، اڑیسہ سے شمالی ہندوستان میں بنارس اور اوودھ تک پہنچ چکا تھا، بنارس کا علاقہ نہایت زرخیز تھا۔ چونکہ یہاں کا راجہ انگریزوں کا باج گزار تھا اور وہ معاہدے کے مطابق کمپنی کو 24 لاکھ روپے سالانہ نذر کرتا تھا۔ اس خطیر رقم کے علاوہ انگریزوں نے مزید پانچ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا کہ وفاداروں کا فرض ہے کہ حکام بالا کی مدد کریں، راجہ نے یہ رقم ادا کردی، اگلے سال پھر مطالبہ آگیا کہ پانچ لاکھ ادا کریں، راجہ کو مجبوراً لوگوں پر ٹیکس بڑھانا پڑے، جس کی وجہ سے لوگ تنگ آگئے اور زمینیں چھوڑ کر بھاگنے لگے۔''

یہ صورت حال آج ہمارے ملک میں بھتہ گیری کی شکل میں موجود ہے۔ پرچی بمعہ گولیاں آتی ہیں۔ اور صنعت کار خوف کے مارے مطلوبہ رقم بھجوا دیتے ہیں، چند ماہ بعد پھر پرچی اور گولیاں۔ آخر تنگ آکر صنعت کار اپنا سرمایہ اور کاروبار دوسرے ملکوں میں لے گئے۔

بنگال، بہار، اڑیسہ، اوودھ، بنارس، الٰہ آباد، روہیل کھنڈ، دوآبہ گنگا جمنا، سارا ہندوستان انگریز نے قبضے میں لے لیا اور سب کو غلام بنالیا۔ مولانا کا انگریزوں کے بارے میں بس ایک فقرہ اور پڑھ لیں ''انگریزوں کے بیانات ویسے ہی ہیں جیسے کوئی کسی کا گلا کاٹتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اپنی مسیحائی کا دعویٰ بھی بہ اصرار کرتا جائے''۔ جالب کا شعر اور اجازت:

سادہ تھے بہت اپنے آبا
گھر سونپ گئے دربانوں کو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں