ہر مسلمان اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کر دے مولانا فضل

جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں...


ایکسپریس July 19, 2012
جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں استقبالِ رمضان کے موضوع پر اظہارِ خیال ۔ فوٹو/ایکسپریس

ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کو ہر مسلمان کے لئے باعث رحمت و برکت قرار دیا ہے۔ اسی لئے ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ رحمتوں اور برکتوں کے اس زمانے سے بھرپور استفادہ کرے۔ گزشتہ دنوں ''ایکسپریس فورم '' میں ملک کے نامور عالم دین اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے نائب مہتمم شیخ الدیث مولانا فضل الرحیم اشرفی کو مدعو کیا گیا جہاں انہوں نے ''استقبالِ رمضان'' کے موضوع پر خصوصی گفتگو کی۔ اس موقع پر شعبہ نشر اشاعت جامعہ اشرفیہ کے ناظم مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی بھی موجود تھے۔ پروگرام میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا فضل الرحیم اشرفی (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ)

الحمدللہ ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہورہا ہے جس کے لئے ہم سب مسلمانوں کو بھرپور تیاری کرنی چاہیے۔ جنابِ نبی کریم دو ماہ قبل دعائیں مانگتے تھے کہ ''یا اللہ! رجب اورشعبان ہمارے لئے رحمت ، خیر، سکون کا باعث بنا اور اتنی زندگی عطا فرما کہ ہمیں رمضان مل جائے۔'' حقیقت یہ ہے کہ رمضان کے لئے جنابِ نبی کریم دو دو مہینے پہلے تیاری بھی فرمایا کرتے تھے، دعائیں بھی مانگا کرتے تھے اور رمضان کی سعادت حاصل کرنے کے لئے اللہ کی بارگاہ میں درخواستیں بھی کرتے تھے۔ میں نے اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے سنا ہے کہ اگر کسی آدمی کی تعریف کی جاتی تھی تو یہ کہا جاتا تھا کہ ''اُسے زندگی کے اندر اتنے رمضان مل گئے ہیں''۔ ہم غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن اللہ ہمیں ایک بار پھر رمضان کی سعادت عطا فرما رہا ہے، اللہ ہمیں بار بار رمضان کی سعادت نصیب فرمائے۔

ہمیں اس رمضان سے کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے؟ ، یہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب ہمیں تلاش کرکے اس کے مطابق تیاری کر لینی چاہیے۔ پاکستان کے مسلمانوں کے لئے اس وقت سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارا ملک بہت دبائو، بلائوں اور مشکلات میں جکڑا ہوا ہے، مسلمان ، مسلمان پر حملہ آور ہیں، باہر نکلنے والے لوگ اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ خیرو سلامتی کے ساتھ گھر لوٹ پائیں گے یا نہیں۔ ہم مسلمان بے بس اور عاجز ہوچکے ہیں، ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اللہ نے ہمیں اس برکت والے مہینے میں یہ ملک عطافرمایاتھا ، لیلۃ القدر کی رات اللہ نے ہمیں آزادی نصیب فرمائی تھی، شنید ہے کہ اس بار 65برس بعدرمضان المبارک کی 27ویں رات 14اگست کو آرہی ہے۔

65برس قبل اللہ نے نہتے مسلمانوں کویہ مملکت عطا فرمائی، شہدائے پاکستان کی قربانیوں کے صدقے میں اللہ پاک اس رمضان کو ہمارے ملک کے لئے دینی و ایمانی انقلاب کا ذریعہ بنا دے، اللہ پاک اس کی حفاظت فرمائے۔ ہم نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے آج طرح طرح کے مسائل و مشکلات کا شکار ہیں۔ قرآن پاک ہمارے لئے اللہ کی اتنی بڑی نعمت و دولت ہے لیکن ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہم سے کیا تقاضا کر رہی ہے، 19ویں پارے کے آخری رقوع میں اللہ پاک ارشا فرماتے ہیں کہ ''دبے اور پسے ہوئے مسلمانوں! میں تمہارا خالق، مالک اور رب ہوں، ساری طاقت میرے قبضے میں ہے، اگر تم مجھے خالق و مالک مانتے ہو تومیرے دربارمیں آکر جھک جائو، میں رحم کرنے کے لئے تیار ہوں''۔

میں بہت درد مندی سے گزارش کروں گا کہ ہمارے پاس کوئی سہارا باقی نہیں ہے، سارے سہارے ایک ایک کر کے ٹوٹ چکے ہیں،ہمارے لئے اللہ کے سوا کوئی جائے نجات اور جائے پناہ باقی نہیں ہے۔ اس رمضان المبارک میں ہم سب کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، اللہ کی بارگاہ میں معافی مانگنے کے لئے تیار ہونا چاہیے، توبہ و استغفار کثرت سے شروع کردیں، رب العالمین کے بارے میں کبھی یہ خیال مت کریں کہ ''میں بہت گنہگار ہوں ، میری توبہ کہاں قبول ہوگی'' احادیث میں آتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک گناہوں سے بھرے ہوں تب بھی اس دل کو ندامت کے اشکوں کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں جھکا دیں، سارے کے سارے گناہ دھل جائیں گے، کیونکہ رمضان رحمت کا مہینہ ہے ، بخشش کا مہینہ ہے جہنم سے خلاصی کا مہینہ ہے، زیادہ سے زیادہ دعائیں کی جائیں کہ اللہ پاک اس ملک پر ، عالم اسلام پر پوری دنیا پر رحمت کا معاملہ فرمادے۔

ہم نے ساری زندگی اللہ کی بغاوت اور نا فرمانی میں گزار دی ، یہ ایک مہینہ ہے جس میں اگر بات ماننی ہے تو صرف اللہ اورجناب رسول اللہ کی ماننی ہے۔ ہر مسلمان اپنے آپ سے معاہدہ کرلے اور یہ ایک مہینہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی بات مانے۔

مولانا روم ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ''اگر سالہا سال اللہ کی بغاوت کے بعد انسان پتھر بھی بن گیا ہو تب بھی آزمائش کے طور پر صرف اس ایک مہینے میں اللہ کی بارگاہ میں جھک کر تو دیکھ لو '' ایک اور جگہ مولانا روم فرماتے ہیں کہ ''اللہ پاک اپنے بندوں کو بلاتا ہے کہ واپس آجائو ، اگر تم نے کفر کیا ہے، بت پرستی کی ہے، زنا کیا ہے، شراب پی ہے تب بھی واپس آئو، میرے دربار سے کبھی کوئی مایوس نہیں لوٹا ، سو مرتبہ بھی توبہ ٹوٹتی ہے تب بھی تم واپس آجائو ''۔ ہر کلمہ گو مسلمان خدا سے یہ اقرار کرتا ہے کہ ''اللہ جی! میں آپ اور آپ کے رسول کی بات مانوں گا ''۔ اسی اقرار کی نسبت سے اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں پیش کر دے۔

رمضان المبارک کا پہلا سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو اللہ کی بارگاہ میں توبہ اور معافی کے لئے تیار کر لینا چاہیے۔ جناب نبی کریم نے فرمایا کہ ''رمضان برکتوںکا مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا بخشش اور تیسرا جہنم سے نجات کا ہے، اس مہینے میں نیک اعمال اور ایمان کو بچانے کے لئے جتنی زیادہ کوشش کی جائے اتنا فائدہ ہے''۔ رمضان المبارک میں لیلۃ القدر بھی موجود ہے جس رات اللہ کا قرآن نازل ہوا اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوںسے افضل قرار دیا گیا ہے یعنی 83سال کی عبادت کے برابر ثواب ہے، کیسا لوٹ کا زمانہ ہے کہ تھوڑی سی محنت کا اتنا اجر و ثواب مل رہا ہے۔

مسلمان اپنا ناطہ قرآن سے جوڑیں لیں، اس کو پڑھنا شروع کرو، اس کے مفہوم اور معنی کے ساتھ پڑھنا شروع کرو تو قرآن خود آپ سے باتیں کرے گا اور قدم قدم پر رہنمائی فرمائے گا۔ یہ اتنی بڑی نعمت و دولت ہے لیکن ہم نے اس کی قدر نہیں کی اسی لئے ہم بڑے دبائو اور پریشانیوں میں آئے ہیں۔ قرآن ہی ہمارا مقصد، قرآن ہی ہمارا قانون اور قرآن ہی ہمارا راہ نجات ہے۔ یہ ملک ہم نے قرآن اور اسلام کے نام پر ہی حاصل کیا تھا، قائد اعظم کی مسلم لیگ نے 1940ء میں جو لیٹر پیڈ چھاپا تھا اس پر یہ آیت لکھی ہوئی تھی ''اے اللہ ! ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہماری نمازیں ، ہماری قربانیاں ، ہمارا جینا اور ہمارا مرنا صرف اور صرف تیرے لئے ہے'' اس وعدے کی روشنی میں ہمیں آج اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے، نجانے ہم کدھر جارہے ہیں، کیا کر رہے ہیں۔

رمضان المبارک سے ایک دن پہلے جناب نبی کریم نے صحابہ کرام سے تلقین فرمائی کہ ''رمضان میں چار چیزوں کاخصوصیت سے اہتمام کرو'' پہلی بات یہ فرمائی کہ '' اس مہینے میں کلمہ طیبہ کثرت سے پڑھو'' میں یہ بات یقین سے کہتا ہوں کہ رمضان المبارک میں کثرت سے کلمہ طیبہ پڑھیں گے تو اللہ تعالیٰ موت کے وقت بھی ہماری زبان پر کلمہ جاری فرمائیں گے۔

دوسری بات فرمائی کہ ''کثرت سے استغفار کرو'' ہم اس ساٹھ ستر سالہ زندگی کے لئے نجانے کیا کچھ کرتے ہیں جو زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے اس کے لئے کچھ نہیں کرتے، جہاں موت کو بھی موت نہیں آ سکتی۔اس کے لئے تیاری کرنا ہوگی، اس کے لئے عزم کرنا ہوگا ، قدم آگے بڑھانا ہوگا، اگر ہم یہ سمجھیں کہ ٹانگ پر ٹانگ دھر کر بیٹھے رہیںگے تب بھی ہم جنت کے ٹھیکیدار بن جائیں گے تو یہ بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے جو ہم اپنے آپ سے کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ اپنے ایک شعر میں بہت ہی خوبصورتی سے کیا ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نا ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اگر آج ہم فیصلہ کر لیں کہ ''اللہ جی! ہم اس رمضان میں آپ سے معافی بھی مانگیں گے، استغفار بھی کریں گے، نیکیاں بھی اکٹھی کریں گے اعمال صالح بھی اکٹھے کریںگے، اللہ جی آپ ہماری مدد فرمادیں'' توپھر دیکھیں کہ اللہ کی رحمت آپ کی طرف کیسے کھنچی چلی آئے گی۔

جناب نبی کریم نے تیسری بات یہ فرمائی کہ ''اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا کرو''اورچوتھی بات یہ فرمائی کہ ''جہنم سے پناہ کی دعا کثرت سے مانگا کرو''۔

اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے رزق کو بڑھا دیتے ہیں، رمضان المبارک میں سحری کھانے والوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت نازل فرماتے ہیں، جنابِ نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ ''جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن بھی رمضان المبارک کا روزہ چھوڑ دے تو رمضان کے علاوہ وہ پوری زندگی بھی روزے رکھے وہ اس کا بدل نہیں ہوسکتے''۔

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا ، نماز میں اضافہ ہوجاتا تھا، دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف غالب ہوجاتا تھا۔ امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور اقدس سے نقل کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نا مراد نہیں ہوتا۔

اللہ پاک ہمارے ایمان کو تازہ کردے اور ہمیں عمل کی توفیق عطا فرما دے، آمین۔

ایکسپریس :مولانا! عموماً ماہ رمضان سے قبل ہی اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوجاتا ہے، منافع خور پہلے ہی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں اور رمضان میں اشیاء مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، اس بارے میں کیا شرعی احکامات ہیں؟

مولانا فضل الرحیم اشرفی : ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر یہ عجیب و غریب وبا پھیلی ہوئی ہے، جہاں رمضان المبارک قریب آیا وہاں عام ضرورت کی اشیاء کی قلت پیدا کر دی جاتی ہے اور پھر منہ مانگے دام وصول کئے جاتے ہیں۔ذخیرہ اندوزی کرنے والے ایسے ملعون تاجر ہیں جو صرف اپنے مسلمان بھائیوں ہی کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب روزہ داروں کا خون بھی چوستے ہیں اور ایسے تاجروں کو ارشادات نبویہ یاد رکھنے چاہئیں۔ ان کے مالوں میں برکت نہیں رہے گی، اللہ تعالیٰ انہیں محتاجی اور کوڑھ میں مبتلا کر دیں گے ، یہ حرام مال کھائیں گے تو ارشاد نبوی کے مطابق ان کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔

ایکسپریس : خواتین کو شکوہ ہوتا ہے کہ ان کا سارا وقت گھر کے کام کاج میں گزر جاتا ہے انہیں عبادات اور تسبیحات کے لئے وقت نہیں ملتا ، ان کے اس شکوے کا کیا جواب ہے آپ کے پاس ؟

مولانا فضل الرحیم اشرفی:اکثر دیندار خواتین اس بات کی شکایت کرتی ہیں کہ ان کو روزہ افطار کرنے سے قبل عصر اور مغرب کے درمیان تسبیحات پڑھنے یا دعائیں کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ یہ وقت ان کا با ورچی خانے میں صرف ہوجاتا ہے۔ کھانا تیار کرنے میں مشغول رہتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ وقت بھی عبادت ہی میں گزرتا ہے روزہ داروں کے افطار اور کھانے کا انتظام کرتی ہیں جس میں ثواب ہی ثواب ہے۔

ایکسپریس : کیا سحری کھائے بغیر روزہ رکھا جاسکتا ہے؟

مولانا فضل الرحیم اشرفی : سحری کھا کر روزہ رکھنا ، سحری میں تاخیر کرنا اورافطار میں جلدی کرنا مستحب ہے۔ بغیر سحری کے روزہ تو ہوجاتا ہے لیکن بلا عذر سحری چھوڑنا خلاف سنت ہے۔

ایکسپریس : رمضان میں اذان کے کتنی دیر بعد نماز مغرب ادا کر لینی چاہیے؟

مولانا فضل الرحیم اشرفی : رمضان میں مغرب کی اذان کے بعد جماعت میں اتنی تاخیر بہتر ہے کہ اطمینان کے ساتھ روزہ دار افطار کرکے جماعت میں شرکت کرسکے، لہٰذا اذان کے بعد دس بارہ منٹ تاخیر افضل ہے، غیر رمضان میں یہ حکم نہیں۔

ایکسپریس : مضان المبارک میں اعتکاف کی فضیلت کیا ہے؟

مولانافضل الرحیم اشرفی : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے حق میں یہ فرمایا کہ ''وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے اور نیکیاں اس کے لیے جاری کی جاتی ہیں۔ ایسی نیکیاں جیسی کہ عام طور پر نیکیاں کرنے والے ہر قسم کی نیکیاں کرتے ہیں۔'' اعتکاف کا لفظی مطلب ہے روکنا اور منع کرنا۔ چونکہ انسان اعتکاف میں اپنے آپ کو چند مخصوص باتوں سے روکتا ہے، اس لیے اسے اعتکاف کہتے ہیں۔

اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے یعنی بیسویں روزے کی شام کو غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے پر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اعتکاف سنت موکدہ ہے۔ کسی بستی اور محلہ میں سے ایک آدمی بھی اعتکاف کر لے تو سب کے ذمہ سے اتر گیا اور اگر بستی یا محلہ میں سے کسی نے بھی اعتکاف نہ کیا تو وہاں کے تمام مسلمان گنہگار ہوں گے۔

مرد کے اعتکاف کا طریقہ یہ ہے کہ بیسویں روزے کی شام کو مغرب سے پہلے مسجد میں داخل ہو اور پھر عید کا چاند نظر آنے پر مسجد سے باہر نکلے۔ اس دوران کھانا پینا، سونا جاگنا، پڑھنا لکھنا سب کچھ مسجد کے اندر رہ کر کرے گا۔ البتہ ضروری حاجت کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے۔ اگر بغیر عذر کے ایک لمحہ کے لیے بھی باہر نکلا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ عورت کے اعتکاف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کے کسی کمرہ میں یا کسی کمرہ کے ایک مخصوص کونے میں ٹھہر جائے، وہیں کھائے پئے، وہیں سوئے۔ صرف ضروری حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر جا سکتی ہے۔

یہاں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اعتکاف کی حالت میں بالکل خاموش رہنا چاہیے، یہ غلط ہے بلکہ اعتکاف کی حالت میں بالکل خاموش ہو جانا اور خاموشی کو عبادت سمجھنا مکروہ ہے۔ بس دین کی باتیں کرے، اچھی اور پاکیزہ گفتگو کی مکمل اجازت ہے۔

اب یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ اعتکاف کی حالت میں کیا کرنا چاہیے تو اس میں عام حضرات کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ جو بھی نیک کام ہو وہ کریں، مثلاً نوافل پڑھیں، قرآن حکیم کی تلاوت کریں، درود شریف کثرت سے پڑھیں اور اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

جب ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اعتکاف کے بڑے فضائل معلوم ہوتے ہیں جس سے ذہن میں اعتکاف کی اہمیت پیدا ہوتی ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وفات دی۔ آپ کی وفات کے بعد ازدواج مطہرات، امہات المومنین اعتکاف فرماتی رہیں۔

ایک اور موقع پر ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا، جو شخص ایک دن بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ہے تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقوں کے برابر دیوار قائم فرما دیتے ہیں جن خندقوں کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلہ سے بھی زیادہ ہے۔ بیہقی کی ایک روایت میں بڑی اہم حدیث آتی ہے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو شخص رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرے تو اسے دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملے گا۔

اللہ رب العزت ہمیں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرکے نیکیاںسمیٹنے اور گناہ مٹانے کی توفیق نصیب فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں