اداروں کو آزاد کردو

میری رائے میں دیگر صحافی حضرات کو زیادہ سے زیادہ ان Issues پر بات کرنی چاہیے۔


راؤ سیف الزماں January 26, 2016
[email protected]

میں اس سوال کا حتمی جواب دینے کے بجائے موجودہ نظام پر ایک ایسی بحث کرنا پسند کروں گا جس سے معاملہ سلجھنے کی طرف جائے اور ایک ایسا حل نکلے جو قابل قبول بھی ہو۔

میری رائے میں دیگر صحافی حضرات کو زیادہ سے زیادہ ان Issues پر بات کرنی چاہیے۔ یہ کہہ کر پہلو تہی کرنا کہ یہ حل طلب مسئلہ نہیں۔ یا کچھ کم مایہ الفاظ کے ساتھ یہ تبصرہ کہ ''پاکستان آنے والے 100 سال میں بھی نہیں بدلنے والا۔'' مناسب نہیں کیونکہ پاکستان کے ہر شہری کی طرح ہم لکھنے والے بھی ملک و قوم کا حصہ ہیں۔ ہم پر یہ ذمے داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ ہم ایک ایسے System کے خدوخال کی تشکیل میں اہم حصہ لیں جس سے ملک ترقی کرے معاشرے میں سدھار آئے۔ ہم متمدن ہوں ۔ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ادارے فعال ہوں۔ جمہوری و غیر جمہوری حکومتوں کو کرپشن یا من مانی کا موقع نہ مل سکے۔

بہرحال میں کوشش کروں گا کہ نظام کی چند بنیادی خرابیوں کی نشاندہی کرسکوں۔ سردست جو مسائل درپیش ہیں ان میں سرفہرست اداروں کا آزاد نہ ہونا ہے۔ گویا ملک میں جہاں جس جماعت کی حکومت ہے وہاں ادارے اس کے تابع نہیں بلکہ بدترین غلام ہیں۔ پولیس، صحت، تعلیم، بلدیات، داخلہ، خارجہ، خزانہ۔ کوئی ایسا نہیں جس کا سربراہ و دیگر ملازمین صوبائی حکومت کے اس قدر ماتحت نہ ہوں کہ وہ جو چاہے کرے جو حکم دے یہ بجا نہ لائیں۔ حالت بوتل کے جن سے بھی زیادہ خراب ہے۔

میں اس ضمن میں ناقابل تردید مثالیں پیش کرسکتا ہوں۔ آپ ڈاکٹر عاصم کے کیس کا جائزہ لیں اور اس میں سندھ پولیس کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالیں۔ یا سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور اور لاہور پولیس کی جانبداری۔ اینٹی کرپشن سندھ ہو یا KPK میں وزارت خزانہ۔ حال ایک جیسا ہے۔ وہ وہی کرتے ہیں جو وہاں کی سرکار چاہتی ہے اور وہاں کی سرکار صرف یہ چاہتی ہے کہ اس کے صوبے سے کسی بھی قسم کی Opposition ختم ہوجائے۔ فوج دور رہے۔ عوام شکایت سے اجتناب برتیں۔ خواہ وہ کتنی ہی مصیبت میں ہوں بجلی نہ ہو، گیس نہ ہو۔ پانی گدلا اور گندا آرہا ہو۔ سرکاری اسکول وڈیروں کی اوطاقوں میں بدل گئے ہوں۔

عوام خاموش رہیں۔ صبر کریں اور انھیں برداشت کریں۔ ہر 5 سال بعد صرف ان ہی کو ووٹ دیں۔ کسی اور جماعت کے بارے میں سوچیں تک نہیں۔ اپنی یہ خواہشات لے کر ہماری صوبائی حکومتیں کیا نہیں کرتیں۔ انسانی ہلاکتوں سے لے کر اداروں کی اونے پونے فروخت تک۔ سرکار کی جانب سے کسی کو بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کروانے تک۔ اس پر ان گنت کیسز بنوانے تک۔ وہ سبھی کچھ کرتے ہیں۔ اور تمام صوبائی ادارے ان کی مانتے ہیں۔ من و عن صوبائی حکومتوں کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ لہٰذا ملک میں جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے بھی جمہور کہاں ہے؟ معلوم نہیں البتہ زنبور ضرور دکھائی دیتا ہے جو دانت نکالنے کا تڑوانے کے لیے معروف اوزار ہے۔

بدقسمتی سے ہماری جمہوریت دنیا بھر میں یا اکثریتی ممالک میں رائج جمہوریت سے قدر مختلف بھی ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اسی نظام کے جامے میں خاندانی بادشاہت کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کے خاتمے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ کم ازکم میں نے ان سیاسی گھرانوں کے اہل خانہ یعنی بچوں اور بڑوں کا جائزہ لیا تو مجھے ایسا ہی محسوس ہوا۔ اور اس سلسلۂ بادشاہی کو جاری و ساری رکھنے کے لیے سبھی کے پاس معقول انتظامات ہیں۔ کسی خاندان کے پاس شہدا ہیں تو کسی کے پاس بے شمار سرمایہ۔ یا اس کی آڑ میں علاقائی، صوبائی سیاست۔ بلکہ ہم اگر غوروخوض کریں تو ہمیں سندھ، پنجاب، KPK، بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں سے کچھ زیادہ گلہ شکوہ نہیں رہ جائے گا، اگر ہم اپنی ان سیاسی جماعتوں کے انداز سیاست کا جائزہ لیں جنھیں ہم وفاق پرست جماعتوں میں شمار کرتے ہیں۔

ان میں سے ہر ایک کہیں نہ کہیں اپنی صوبائیت کی بات کر رہا ہوتا ہے۔ مثلاً خورشید شاہ کے پچھلے 3 ماہ کے بیانات پڑھ لیں جو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں۔ یا شہباز شریف کے الیکشن 2013 سے قبل کے بیانات جب مرکزی حکومت PPP کی تھی۔ عمران خان جب KPK میں جلسوں سے خطاب فرماتے ہیں۔ بہت افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر، یہ جان کر کہ ہمارے پاس آج تک ایک رہنما ایسا نہیں جو قائداعظم محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان کی خاکِ پا کے برابر بھی ہو۔ اور سمجھ میں نہیں آتا کہ خرابی کہاں سے شروع ہوئی۔ آغاز تو شاندار تھا۔ ملک آزاد ہوا۔ سب ایک تھے۔ ایک قوم تھے۔ جذبہ تھا۔ جوش تھا۔ پاکستان بن کر رہے، لڑے، جنگیں جیتیں۔ ملک کی ترقی میں شانہ بہ شانہ رہے۔

پھر ہوا کیا؟ اب آزادی کے بعد بھی اسے فرنگی سازش قرار دیں یا ہنود و یہود کی مکاری تو سچ پوچھیے الٹی آنے کو ہوجاتی ہے۔ پک گئے دل و دماغ یہ باتیں سن سن کر۔ نفرت ہوگئی اپنی بے بسی سے۔ جب 7 سمندر پار کوئی بیٹھ کر ہمارے خلاف جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور وہ ہو بھی جاتا ہے۔ تو بھائی! آپ زندہ ہی کیوں ہیں؟ اجتماعی خودکشی کرلیں۔ ویسے بھی تو ساری دنیا بقول آپ کے آپ کو مار ہی رہی ہے۔ کبھی Bomb سے تو کبھی برائلر مرغی کھلا کر۔ کبھی لحم خنزیر کی چربی چہرے پر لگانے والی کریمز میں ملا کر۔ آپس میں لڑوا کر۔ غذائی ملاوٹ سے۔ جبراً قرضے دے کر۔ بجلی گیس مہنگی کروا کر۔اب ایسی قوم کا جینا ہی کیا۔ اور ایسی آزادی کا کیا مطلب جس کے ہر دوسرے قدم پر غلام بن کر جینا پڑے۔ لیکن حقیقتاً ظالم کون ہے؟

جبر کون کرتا ہے؟ کون ہے جو معاشرے کو پنپنے نہیں دیتا؟ جو اداروں کی آزادی کے خلاف خاندانی سلسلۂ حکومت کو دراز رکھنے کی سازش کرتا ہے۔ جو پاکستان کو پاکستان بننے نہیں دیتا۔ جو قوم کو پاکستانی کہلوانے سے روکتا ہے۔ جو مارشل لا کو مورد الزام ٹھہرا کر خود جمہوریت کی آڑ میں آمریت کرتا ہے۔

میں بتاتا ہوں۔ ''وہ آپ ہیں''۔ صرف آپ۔ جی ہاں آپ۔ آپ نے اپنی ذمے داریوں سے ہمیشہ پہلوتہی کی۔ کیونکہ آپ کو بے اندازہ دولت کمانی تھی۔ ملک لوٹنا تھا۔ آپ وزیر اعظم بنے۔ پھر آپ کا بیٹا پھر آپ کا پوتا۔ لہٰذا ہم۔ سندھی ہیں۔ پنجابی ہیں۔ پختون و بلوچ ہیں۔ کیونکہ یہی آپ نے ہمیں سکھایا ہے۔یہی نعرے درون خانہ آپ ہم سے لگواتے رہے ہیں۔ ہم مرتے رہے بھوک سے، افلاس سے، غربت سے، ابھی مٹھی میں 26 بچے سردی سے ٹھٹھر کر مرے ہیں۔ لیکن آپ کو اس کا احساس ہوجائے تو قیامت آجائے۔ کیونکہ قیامت کی نشانیوں میں سے شاید ایک یہ بھی ہو کہ پاکستان کے سیاسی حکمرانوں کو اپنی قوم کے کسی مسئلے کا احساس ہوگیا۔

اور ہم... جو 19 کروڑ ہیں۔ چاہیں تو زمین کو پلٹ دیں۔ فضا کو دھواں دار کردیں۔ ہم کہاں ہیں؟ امید ہے معاف فرمائیں گے۔ جذبوں کی بند نالیاں صاف کر رہا تھا کچھ زیادہ ہی Drain ہوگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں