باچا خان باچا خان
جہاں کسی بے کس، مجبور، لاچار کی آہ سنی! باچا خان دادرسی کو پہنچ گئے۔
خدائی خدمت گار۔ خدا نے انھیں خدائی کی خدمت کے لیے بنایا تھا اور وہ ساری حیاتی اسی چلن سے گزار کر ساتھ ایمان کے قبر میں اتر گئے۔ نہ کسی کو اُف کہا نہ کسی کی طرف حقارت سے دیکھا، نہ کسی کا کام بگاڑا، نہ فساد پھیلایا، نہ کسی کا حق مارا، نہ جھوٹ بولا، جو دل میں وہی زبان پر، تن پر وہی کپڑا پہنا، جو گھر کے ملازم پہنتے، وہی کھایا پیا، جو ملازم کھاتے پیتے تھے۔ جالب کے دوسرے مصرعے میں ذرا ترمیم کے ساتھ، باچا خان ان ہی دو مصرعوں کی ہوبہو تصویر تھے۔
دہر میں آہِ بے کساں کے سوا
''باچاخاں'' کب کسی سے ڈرتے تھے
جہاں کسی بے کس، مجبور، لاچار کی آہ سنی! باچا خان دادرسی کو پہنچ گئے۔ مظلوموں کے آنسو پونچھے، تسلی دی اور ان کی بحالی تک انھی کے ساتھ رہے۔ یہی باچا خان کی زندگی تھی اور یوں ہی زندگی گزری۔ باچاخان تقسیم ہند کے خلاف تھے مگر جب پاکستان بن گیا، تو عوام کے فیصلے پر سر جھکادیا، اور قائداعظم محمد علی جناح سے کہا ''آؤ میرے دوست مل کر پاکستان کو مستحکم کریں'' قائداعظم پشاور آئے مگر قائد کی جیب کے ''کھوٹے سکوں'' نے جناح باچاخان ملاقات نہ ہونے دی۔ قائد بیمار تھے، مگر ان کے سامنے نوزائیدہ ملک کے بڑے اہم مسائل تھے اور وقت کم رہ گیا تھا، اور قائد ادھورے کام چھوڑ کر چلے گئے۔
قائد کے بعد اب پاکستان تھا اور کھوٹے سکے تھے۔ باچا خان سے رابطے کیا ہونے تھے، ان سے رہنمائی کیا حاصل کرنی تھی، ملک دشمنوں نے بابڑہ کے مقام پر جمع پرامن پختونوں کو گھیر کر فائر کھول دیا۔ وہ جنھوں نے جلیانوالہ باغ میں انگریز جنرل ڈائر کا قصہ محض سنا تھا، وہ بابڑہ میں جلیانوالہ باغ دیکھ رہے تھے۔ دن رات باچاخان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ ہوتا رہا۔ ''باچا خان غدار ہے، اس نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی، یہ انڈین ایجنٹ ہے، یہ اور اس کے ساتھی ملک توڑنا چاہتے ہیں''۔ پاکستان نیا نیا بنا تھا، اس زمانے کے سرکاری ملازمین کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل دکھتا ہے، بے چارے، مجبور، سہمے ہوئے، ڈرے ہوئے، پناہ لیے ہوئے ملازمین سب کچھ جانتے بوجھتے اس جھوٹے زہر اگلتے پروگرام کا حصہ بنے رہے۔
باچا خان کو صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) تک محدود کردیا گیا، دوسرے صوبوں میں ان کا داخلہ بند تھا۔ جب کھوٹے سکوں (کہ جو چند تھے بعد کو انڈے بچے دے کر سیکڑوں ہوگئے) نے دیکھا کہ اب ملک ان کے مطابق چلنے لگا ہے تو باچا خان پر لگی پابندی ہٹادی گئی۔ اس وقت تک 52 فیصد ملک علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ باچاخان طویل بندش کے بعد صوبہ سندھ آئے ان کے دیرینہ دوست، پاکستان بنانے والے ہر اول دستے میں شامل جی ایم سید نے باچاخان کا استقبال کیا۔ باچا خان اپنے دوست قائداعظم محمد علی جناح کے مزار بھی گئے۔ وہاں انھوں نے لحد قائد پر بعداز فاتحہ کہا ''اے میرے دوست! دشمنوں نے میری تمہاری ملاقات نہیں ہونے دی۔'' ابھی باچا خان کو سندھ میں آئے دو دن ہوئے تھے اور وہ کراچی میں ہی تھے کہ حکومت سندھ نے انھیں فوری طور پر سندھ بدر کردیا۔ باچا خان اپنے دو تین جوڑے کپڑوں کی پوٹلی اٹھائے صوبہ بلوچستان پہنچے، تو وہاں بھی صوبہ بدری کے احکامات منتظر تھے اور وہ واپس صوبہ سرحد آگئے۔
ہندوستان کے صوبہ بہار میں مسلم کش فسادات ہوئے۔ باچا خان وہاں پہنچ گئے اور مظلوموں کا ساتھ دیا۔ کئی ماہ بہار میں رہنے کے بعد باچا خان پشاور ایئرپورٹ پر اترے تو ہوائی جہاز کے دروازے پر کھڑے ہوکر اپنے خالی ہاتھ بلند کیے ہوئے تھے۔ جس کا مطلب تھا جو دنیا بھر سے کروڑوں روپے بطور امداد ملے تھے وہ میں سب متاثرین کو دے کر آیا ہوں۔
باچا خان کے بعد ان کے بیٹے عبدالولی خان بھی غدار ٹھہرائے گئے، کہا گیا ''ولی خان پختونستان بنانا چاہتا ہے'' ولی خان اس بات کا مدلل جواب دیا کرتے تھے ''پختونستان بنانے کا بڑا اچھا موقع تھا، 52 فیصد ملک ٹوٹ کر علیحدہ ہوگیا تھا، 90 ہزار فوج ہندوستان کی قید میں تھی، ہزاروں میل علاقہ بھی ہندوستان کے قبضے میں تھا، مگر باچا خان کے پیروکار پاکستان کو سینے سے لگائے رہے۔'' پھر ولی خان یہ بھی واقعہ دہراتے تھے کہ جب 1974 میں لیاقت باغ راولپنڈی کے اپوزیشن جلسے پر ایک سازش کے تحت گولیاں برسائی گئیں، اجمل خٹک کے ہاتھوں میں ایک پختون نے دم توڑا۔ تو اجمل خٹک نے ولی خان سے کہا ''یہ ہے تمہارا پاکستان!'' اور پھر اجمل خٹک ملک چھوڑ کر افغانستان چلے گئے اور باچا خان کا بیٹا ولی خان 24 پختونوں کی لاشیں لے کر صوبہ سرحد آیا، سب کے آگے ہاتھ جوڑے اور لاشوں کو خاموشی سے دفنادیا۔
جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں پاکستان بھر میں افغان مہاجرین پھیل گئے، کلاشنکوف اور ہیروئن بھی پھیل گئی۔ باچا خان کا بیٹا ولی خان پھر بولا ''غداروں کی وجہ سے پاکستان کا ایک انچ علاقہ علیحدہ نہیں ہوا، اور محب وطنوں نے آدھے سے زیادہ ملک گنوادیا'' ولی خان نے یہ بھی کہا تھا ''ہم پر پختونستان بنانے کا تو الزام ہی تھا مگر سرکار نے کراچی تک پختون آباد کردیے ہیں اور پختونوں کی روایت ہے کہ یہ جہاں آباد ہوجائیں، پھر واپس نہیں جاتے۔ ''باچاخان کی یاد کے دن ہیں، بدھ کو باچاخان یونیورسٹی میں مشاعرہ تھا کہ دہشت گردوں نے حملہ کردیا 20 سے زائد طلبا، اساتذہ، گارڈ شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ حملہ آور صرف دہشت گرد ہیں اور ان کی کوئی دوسری پہچان نہیں ہے۔ باچا خان کی یاد میں ہونے والے مشاعرے کے لیے حبیب جالب کی نظم:
باچا خان حبیب جالب
تو نے سوچا مٹے ظلم کا ہر نشاں حبیب جالب
وقفِ نوع بشر تھے، ترے قلب و جاں
تُو نے سوچا کہ دھرتی بنے آسماں
رہنما تجھ سا اب اس زمیں پر کہاں
میں ہی گیا اک جہاں سے ترا مدح خواں
تجھ کو کہتی ہے خلق خدا پیار سے
باچا خاں، باچا خاں، باچا خاں، باچا خاں
کہہ رہے ہیں کروڑوں کہانی تری
جن کے غم میں کٹی زندگانی تری
کچھ پڑھا، کچھ سنا، زبانی تری
بات اچھی بھی ہم نے نہ مانی تری
تیرے اس حسن کو عیب سمجھا گیا
تجھ کو آتی نہ تھی مکر و فن کی زبان
باچا خان، باچا خان، باچا خان، باچا خان
تُو مکمل ہوگا ہم کو ہر رنگ سے
دیکھ کے ہم تجھے رہ گئے دنگ سے
تُو نے نفرت سکھائی ہمیں جنگ سے
مات ظلم کو دی اپنے ہی ڈھنگ سے
کیا ہوا تُو نہ اترا تھا آکاش سے
مشعل راہ تیری بھی ہے داستاں
باچا خاں، باچا خاں، باچاخاں، باچاخاں
تُو نے خوں دے کے ہم کو دلایا وطن
تُو نے آزادیوں کا کھلایا چمن
سچ کہا باندھ کر تُو نے سر سے کفن
تجھ کو کیا کیا نہ کہتے رہے بدچلن
قیدِ اغیار سے، اپنوں کی مار تک
تُو نہ ٹوٹا، رہا عزم تیرا جواں
باچا خاں، باچا خاں، باچاخاں، باچاخاں
تیر الزام سے سنگ دشنام سے
صبح بے مہر سے، درد کی شام سے
تُو نہ بددل ہو، رنج و آلام سے
تُو نہ پیچھے ہے اپنے پیغام سے
تجھ کو انسانیت سے محبت رہی
تجھ کو داعم رہا فکر امن جہاں
باچا خاں، باچا خاں، باچاخاں، باچاخاں