باکمال لوگ لاجواب پرواز

قومی ایئرلائن اس وقت کئی سال سے خسارے میں جا رہی ہے اس کے پاس چالیس ہوائی جہاز ہیں


Hameed Ahmed Sethi January 24, 2016
[email protected]

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اور کسی حد تک 1980ء میں بھی اخبارات کے اشتہاروں اور سڑکوں کے بورڈز پر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا تعارف اردو میں ''باکمال لوگ لاجواب پرواز'' اور انگریزی میں ''Great People to Fly With'' کے سلوگن کے ساتھ پڑھنے کو ملتا تھا اور حقیقت بھی یہی تھی کیونکہ قومی ایئرلائن کا مقابلہ برٹش ایئرویزKLM,(BOAC) پین امریکن ایئرلائن (PANAM) اور QANTAS جیسی ہوائی کمپنیوں سے کیا جا سکتا تھا۔ پرواز کی ہمواری، جہازوں کی کوالٹی، اسٹاف کی میزبانی اور وقت کی پابندی میں PIA لاجواب سروس تھی۔

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو اعزاز حاصل ہے کہ جب گلف کی ایئرلائنز ایمیریٹ، گلف، قطر، اتحاد اور ایئر عریبیا کا وجود ہی نہ تھا اس نے کئی ہوائی کمپنیاں جن میں Singapore, Libian, Emirate اور Air Malta شامل ہیں بنانے میں مدد کی۔ ملک کی پرائیڈ ایئرلائن کو پرائیویٹائز کرنے کی حکومتی خواہش کی مخالفت PIA کے ملازمین نے گزشتہ کئی ماہ تک بڑی شدت سے کی جس پر ایئرلائن کے متعدد سابق افسران نے میرے استفسار پر جو حقائق بیان کیے بڑے چونکا دینے والے تھے جنھیں کافی حد تک معتبر پا کر ایک قومی اور اخلاقی فریضہ سمجھ کر ضبط تحریر میں لایا جا رہا ہے۔

قومی ایئرلائن اس وقت کئی سال سے خسارے میں جا رہی ہے اس کے پاس چالیس ہوائی جہاز ہیں ان میں سے اکثر کسی نہ کسی تکنیکی خرابی کا شکار رہتے ہیں اور ان کی مرمت ہوتی رہتی ہے۔ ایک جہاز کے ساتھ ڈیڑھ سے دو سو کا عملہ ہو تو ایئرلائن خسارے میں نہیں جاتی اس کے علاوہ جہازوں کا ہر لحاظ سے محفوظ اڑان کے قابل ہونا شرط ہے۔ PIA کا اسٹاف اس وقت 14500 افراد پر مشتمل ہے۔ یوں ہر جہاز کے لیے قریباً ساڑھے تین سو (350) ملازم بنتے ہیں یعنی ہر جہاز کے ساتھ قریباً ڈیڑھ سو فالتو عملہ ہے جن پر تنخواہوں کے علاوہ ان کے لیے دفاتر اور دیگر لوازمات کے اخراجات اٹھتے ہیں۔ ایئرلائن کے ملازم فری ایئر ٹریول بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اضافی اسٹاف ریونیو میں کمی کا باعث بھی بنتا ہے۔

ایئرلائن کے اندرون اور بیرون ملک ہوٹل بھی تھے جن میں سے کچھ خسارہ پورا کرنے کے لیے فروخت بھی ہوئے۔ PIA کا ایک بہت بڑا پولٹری فارم تھا جو بیچنا پڑا۔ بہرحال اس قومی ادارے کا زوال پذیر ہونا بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں دو اسٹاف یونینز ہیں، بہترین افسر ہیں لیکن ادارہ ہے کہ مسلسل زوال پذیر ہے۔ یونینز اور افسر دونوں کو مل کر اس کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔ لگتا ایسا ہے کہ ادارے کی اسٹاف ٹریننگ اب ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔

ایک وقت تھا کہ اس کے پاس بہترین انسٹرکٹر تھے۔ تب بیرون ملک ایئرلائنز کا اسٹاف بھی PIA کی ٹریننگ اکیڈمی سے استفادہ کرنے آتا تھا اب اس کا اپنا اسٹاف بھی پوری طرح فیض یاب نہیں ہوتا۔ ہر محکمے اور ایئرلائن میں بھرتی کے لیے اشتہار کے ذریعے تعلیم اور تجربہ رکھنے والوں کو انٹرویو کے لیے بلایا پرکھا اور بھرتی کیا جاتا ہے۔

اس پروسیجر میں میرٹ کے پیمانے کو معیار بنانا مقصود ہوتا ہے لیکن PIA میں اکثر بھرتیاں پروموشنز اور فارن پوسٹنگز سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر عمل میں لائی جاتی ہیں جس سے ایئرلائن کے ملازموں میں فرسٹریشن ہی نہیں عدم دلچسپی پیدا ہو کر ایئرلائن کے نقصان کا سبب بنتی ہے۔ سیاسی بھرتیوں میں تو ایک طرف ایسے مواقع بھی آئے ہیں کہ سیکڑوں برطرف شدہ ملازم سیاسی طور پر کئی کئی سال کے بعد بحال ہوئے بلکہ غیر حاضری کی مدت کی تنخواہ اور پروموشن بھی لے گئے۔

ایئرلائن میں یہ عام شکایت پائی گئی ہے کہ جعلی ڈگریوں والے ملازم ہوئے اور کئی کئی سال کا مفاد اٹھا گئے ایسے ملازم جن کے پاس مطلوبہ کوالی فیکیشن نہ تھی۔ ملازمت کر کے ریٹائر ہوئے اور پنشن تک پا گئے۔

یوں تو عام شکایت ہے کہ ملک کے اہم اداروں میں میرٹ کو نظر انداز کرکے منظور نظر اور جی حضوریوں کو اہم اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ کرپشن، بدانتظامی اور باصلاحیت افراد کی فرسٹریشن کا سبب بنتا جا رہا ہے لیکن اگر یہ برائی ایک ایسے ادارے میں پیدا ہو جائے جو کبھی ملک کا Pride رہا ہو تو بدنامی ایک طرف رہی اس میں نقصان شامل ہوکر اس ادارے کی تباہی کا منظر پیش کردے گا اور چونکہ PIA ایک پبلک سروس ادارہ بھی ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کو وہ دونوں سلوگن لوٹائے جائیں جو اس کی ساری دنیا میں پہچان تھے یعنی ''باکمال لوگ لاجواب پرواز'' اور ''Great People to Fly With''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں