وفا کے موتی

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے مل کر زندہ رہنے کو جی چاہنے لگتا ہے


Saeed Parvez January 18, 2016

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے مل کر زندہ رہنے کو جی چاہنے لگتا ہے، ایسے سچے لوگ، ایسے بے لوث لوگ، اپنی دھن کے پکے لوگ، کوئی لالچ، کوئی فریب، جن کو راہ سے نہ بھٹکا سکے، ایسے ہی ایک شخص کا آج ذکر ہوگا۔ یہ ہیں اوکاڑہ کے رانا محمد اظہر خاں ایڈووکیٹ۔ زندگی کیسے بیتی، اپنے حال اور کھال میں مست، آج بھی وہی حالات ہیں جو برسوں پہلے تھے، سیاسی کارکن تھے، وقت کا دھارا بدلنے کی دھن سوار تھی، اپنے حصے کی شمعیں روشن کرتے رہے، ظلمت شب سے لڑتے رہے، کوئی شکوہ نہیں نہ کوئی شکایت، احمد فراز کا شعر ذہن میں کلبلارہا ہے، لکھے بغیر چارہ نہیں:

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کارزار سیاست میں ایک اہم مقام آیا، یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، پتا چلا کہ نئی سیاسی جماعت بننے جارہی ہے۔ موصوف اپنے گاؤں52/21 اوکاڑہ سے لاہور پہنچ گئے، انارکلی بازار کے سستے سے ہوٹل میں رات گزاری اور صبح نہا دھوکر گلبرگ پہنچ گئے، یہ 30 نومبر 1967 کا دن تھا اوریگا سینما کے سامنے والی کوٹھی کے گیٹ پر بینر لگا ہوا تھا، یہی نئی سیاسی جماعت کے بارے میں کنونشن تھا، ڈائس پر اسلم حیات ایڈووکیٹ بیٹھے تھے، جب کہ ملک حامد سرفراز اسٹیج سیکریٹری تھے، کچھ دیر بعد بھٹو صاحب بھی کوٹھی کے کمرے سے نکل کر پہلی قطار میں بیٹھ گئے، رانا اظہر کہتے ہیں کہ اخباری تصاویر کے علاوہ پہلی بار بھٹو صاحب کو دیکھا، کنونشن شروع ہوا، پورے ہاؤس نے متفقہ طور پر بھٹو صاحب کو پارٹی کا چیئرمین چن لیا، بھٹو صاحب اسٹیج پر بیٹھ گئے اور اسلم حیات نیچے مندوبین کے ساتھ بیٹھ گئے، پھر جے اے رحیم پارٹی کے جنرل سیکریٹری منتخب کیے گئے اور نئی سیاسی جماعت کا نام پاکستان پیپلزپارٹی منظور ہوا، جب کہ دو نام اور بھی تھے۔ (1) سوشلسٹ پارٹی آف پاکستان۔ (2) پاکستان سوشلسٹ پارٹی۔

''ایک سیاسی کارکن کی یادداشتیں'' یہ اس 100 صفحات والی کتاب کا نام ہے جس میں ایک بڑے انسان نے اپنی زندگی کے سفر کا احوال بیان کیا ہے۔ دولت، جائیداد بنانے کے بڑے سامان تھے مگر اس نے قناعت و سادگی کو نہیں چھوڑا، اور ہمیشہ اپنے جیسے کارکنوں کے ساتھ ہی ناتا جوڑے رکھا۔ ''بھٹو صاحب پسند آگئے تھے پارٹی کنونشن کے بعد لاہور سے اوکاڑہ آکر پیپلزپارٹی کو شہر میں منظم کرنے کا بیڑہ اٹھالیا، پہلے اپنے محلے کے دوستوں کو ترغیب دی پھر چل سو چل، مخلص نوجوانوں کا ایک گروپ ہمنوا بن گیا، ایک چائے کے کھوکھے پر بیٹھک جمنے لگی، محمد حنیف پاکستانی نام کا غریب لڑکا چائے کا کھوکھا چلاتا تھا، اوکاڑہ میں حکیم شاہنواز جیسا پراثر مقرر بھٹو صاحب کو نصیب ہوا۔ Reason سے Argument آگے بڑھاتے، موقع کی مناسبت سے اشعار بھی پڑھتے، پارٹی کے لیے حکیم شاہنواز کی بہت خدمات تھیں، حتیٰ کہ پارٹی کے لیے گھر کے برتن تک بیچ دیے، یہ کیسے لوگ تھے جن کا نہ نام ہوا مگر وہ بے لوث کارکن تھے۔''

رانا اظہر ایک کاٹن ملز کے مزدوروں کے احتجاجی جلوس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ''پولیس نے کامریڈ ملا بجنوری کو اتنا مارا کہ وہ کام کاج کے قابل نہ رہا اور مل کے دروازے کے سامنے مزدوروں کو آٹا بیچ کر اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پالنے لگا، بستی مصیبت پورہ کے کارکن بابا لطیف، بہت ہی مخلص اور دیانت دار انسان تھے جو مصائب اس کارکن نے جھیلے ان کو سوچ کر دل پھٹ جاتا ہے، تبدیلی کے لیے کارکنوں نے دل ہلادینے والی قربانیاں دیں مگر اس ملک کے حالات نہ سدھر سکے''۔

یہ تھی پیپلزپارٹی، جس کی بنیادوں میں بے لوث غریب کارکنوں کا خون پسینہ شامل تھا، کیا تھا، کیا ہوگیا۔ رانا اظہر لکھتے ہیں ''میں دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ ہم خود اپنی آنکھوں سے انقلاب دیکھیںگے، ہمارے بزرگ رہنما کامریڈ عبدالسلام جو بستر مرگ پر تھے سرطان کے باعث بہت کمزور ہوگئے تھے، ان کی عیادت کے لیے میں اور بھائی حمید گئے تو کامریڈ اٹھ کر بیٹھ گئے، میں نے ان سے کہا ''اور آئینگے عشاق کے قافلے'' کہنے لگے ''اگلے موڑ پر پھر ملیںگے'' دو دن بعد کامریڈ ہم سے جدا ہو گئے''۔ 1969 پیپلزپارٹی کا انتہائی عروج کا زمانہ تھا، دھڑادھڑ لوگ شامل ہورہے تھے، رانا اظہر لکھتے ہیں محمود علی قصوری ایڈووکیٹ نیشنل عوامی پارٹی چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں آگئے انھیں وائس چیئرمین کا عہدہ دیا گیا، شیخ رفیق ایڈووکیٹ بھی ساتھ ہی چلے آئے مگر کامریڈ عبدالسلام اور ملک افضل وٹو (سرگودھا والے) NAP میں رہے، جناب حبیب جالب بھی NAP میں رہے۔''

یہ جو رانا اظہر کے ساتھ چلے تھے جنکے گمنام سے نام رانا صاحب نے بیان کیے ہیں یہی اصل نسلی تھے، باقی سب نقلی بکاؤ مال تھے، ایسے سچے اور سچے کارکن ہر صوبے میں تھے اور ان وفا شعاروں کے سامنے صرف جمہوریت کی بحالی تھی، یہ لوگ تو اپنا سب کچھ لٹا کے کارواں کے ساتھ چلتے رہے اور ''اوپر'' والوں نے اپنے گھر بھرنا شروع کردیے، منزل کو بھلادیا۔ بھٹو صاحب بھی وہ نہ کرسکے اور پارٹی منشور دھرے کا دھرا رہ گیا۔ سادہ لوح غریب یہ توقع لیے ہوئے تھے کہ یہ کوٹھیاں، بنگلے بھٹو ان میں تقسیم کردیگا، خواب ٹوٹنے پر لوگ پچھتائے، وہ جو ایک سحر تھا جس کا نام بھٹو تھا، وہ سحر ٹوٹ گیا، وہ جن جاگیرداروں کے برج الٹ گئے تھے، وہی ظالم پھر اپنے برج مرمت کرکے سامنے کھڑے ہوگئے، انھی حالات کی نذر بھٹو صاحب بھی ہوگئے اور رات کا فاصلہ طویل ہوا۔

''ایک سیاسی کارکن کی یادداشتیں'' سو صفحات کی مختصر کتاب میں رانا اظہر نے کئی چہروں سے نقاب الٹے ہیں، اس کتاب کو پڑھ کر سیاسی قبلہ درست کیا جاسکتا ہے، اب آخر میں کچھ ذکر رانا اظہر کا بھی ہوجائے، رانا اظہر چاہتے تو اپنے لیے آسودگیاں اٹھا سکتے تھے مگر وہ ہندوستان کے شہر ہریانہ سے ہجرت کرکے اوکاڑہ آئے اور آج بھی وہیں ہیں۔ 14 دسمبر 1934 تاریخ پیدائش ہے، ایم بی ہائی اسکول اوکاڑہ سے 1949 میں میٹرک پاس کیا، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے FSC کیا، ایم ڈی تاثیر کالج کے پرنسپل تھے، رانا صاحب کا سیکنڈ ایئر تھا، تاثیر صاحب کا انتقال ہوگیا، سارا کالج غم میں ڈوبا ہال کمرے میں جمع تھا، اسٹیج پر گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر، بیگم تاثیر کے ساتھ بیٹھے تھے، رانا اظہر لکھتے ہیں پروفیسر حمید احمد خاں، عبدالمجید سالک، علامہ علاؤالدین صدیقی اور کریم صاحب جیسے اساتذہ وہاں پڑھاتے تھے پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے BSC کیا، یہ 1952 کی بات ہے، صفدر میر انگریزی پڑھاتے تھے، اسلم اظہر طلبا یونین کا صدر ہوتا تھا، گورنمنٹ کالج لاہور میں منٹو صاحب سے ملاقات ہوئی، وہ افسانہ سنانے آئے تھے، 1955 میں لاہور کالج میں داخلہ لے لیا۔

ہاری مزدور رہنما میجر اسحاق بھی سزا کاٹنے کے بعد لاہور کالج میں داخل ہوئے، ظفر اﷲ پوشنی بھی کلاس فیلو تھے (گورنمنٹ کالج لاہور) LLB کے بعد کچھ عرصے عابد حسن منٹو اور سید افضل حیدر کے ساتھ مل کر کام کیا، انارکلی بازار میں دکانوں کے اوپر وکالت کا دفتر تھا، مگر لاہور چھوڑ کر رانا اظہر اوکاڑہ چلے آئے جہاں 1961 میں بطور وکیل لائسنس لے لیا، 25/2-1 گاؤں میں رہائش اختیار کی، گاؤں اوکاڑہ سے تین میل دور تھا، روزانہ سائیکل پر کچہری آتے جاتے تھے، لاہور جیسے بڑے شہر میں عابد حسن منٹو اور سید افضل حیدر کے ساتھ رہتے تو وکالت میں کہاں سے کہاں نکل جاتے مگر رانا اظہر کا دل نہیں لگا اور گاؤں چلے آئے اور آج 81 سال کی عمر میں اوکاڑہ آباد کیے ہوئے ہیں اور مطمئن ہیں۔

سوچتاہوں کہ یہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جن کا دل بڑے شہروں میں نہیں لگتا، جو علم کی پیاس بجھانے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور، گورنمنٹ کالج لاہور اور نیشنل کالج لاہور میں داخل ہوتے ہیں اور پیاس بجھنے کے بعد واپس اپنے شہر اوکاڑہ بلکہ اوکاڑہ کے گاؤں میں چلے آتے ہیں اور سیاسی کارکن بن کر ساری زندگی حق سچ کے ساتھ گزار دیتے ہیں، فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، بھٹو کا ساتھ دیا اور آج بھی ظلم کے خلاف مظلوموں کے ساتھ ہیں، آنکھوں میں آج بھی عوامی راج کے سہانے خواب سجائے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں