کہانی کا نام ہے …ایک دشمن

یہاں کوئی بھوت سے ڈرا کر اپنی دکان چلاتا ہے تو کوئی سانپ دکھاکر دوا بیچتا ہے


انیس منصوری January 17, 2016
[email protected]

یہاں کوئی بھوت سے ڈرا کر اپنی دکان چلاتا ہے تو کوئی سانپ دکھاکر دوا بیچتا ہے ۔ کوئی بھوک کا خوف ڈال کر استحصال کرتا ہے ۔ اس مال بیچنے کے لیے خوف سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ اس خوف کے لیے وہ ہر طرح کا پروپیگینڈا کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے بس ایک مقصد ہوتا ہے کہ کس طرح اپناٹارگٹ حاصل کیا جائے ۔ کچھ ایسی تنظیمیں پیدا کی جاتی ہیں، جو صرف میڈیا میں ہوتی ہے۔ لیکن لوگوں کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ان کے گھروں میں گھس چکی ہیں۔ اور کسی بھی لمحے وہ خود کش حملہ کر سکتی ہیں ۔

کیا واقعی روس یہ چاہتا تھا کہ وہ افغانستان کے ذریعہ پاکستان کو تہس نہس کر دے اور اُس کے بعد وہ گرم پانی تک آکر جشن منائے ؟

کیا واقعی روس کے کمیونزم سے ہم سب کو اتنا خطرہ تھا کہ ہم اپنے ہر بچے کے ہاتھ میں بندوق دے کر اُسے افغانستان بھیج دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا ایمان بچ سکے ؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد واقعی امریکا کی ''سپر طاقت'' کو خطرہ تھا یا پھر پوری دنیا اور خاص طور پر مغرب کو ایک طوفان سے ڈرایا گیا اور ایک دشمن کو پیدا کیا گیا ۔

اپنی بقا کہ لیے ایک دشمن رکھنا ضروری ہے ۔ امریکا کیا ہمیشہ اسی فارمولے پر رہے گا۔ کہ ہر صورت میں دشمن کو ضرور زندہ رکھو ۔ چاہے وہ کبھی کمیونزم کے نام پر ہو ۔ کبھی آمر کے نام صدام اور قذافی ہو یا پھر القاعدہ اور اب داعش ۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ واقعی میں کوئی دشمن ہوتا ہے یا پھر خود سے دشمن پیدا کیا جاتا ہے کہ اپنی دکان کو چلایا جاسکے ۔

کیا القاعدہ اتنی ہی طاقت ور تھی جتنی کہ ہمیں بتائی گئی یا پھر اس کا مقصد ایک دشمن کی پالیسی کو زندہ رکھنا تھا اور اُس کے ذریعہ اپنا مال بیچنا تھا ۔ سویت یونین ایک کمیونسٹ ملک تھا لیکن کیا اُس سے امریکا کا اختلاف نظریات پر تھا یا طاقت کے حصول پر ۔اس طاقت کے حصول پر ہم جیسے ملک مہروں کی طرح استعمال ہوئے ۔ مگر ہم نے بھی ان کا ساتھ ایک دشمن دکھا کر ہی دیا ۔ جیسے ہی دشمن ختم ہوا تو اُس کے بطن سے ایک اور دشمن پیدا کر دیا گیا جس کا نام القاعدہ رکھ لیا گیا۔

اس خطے میں جب اُس کا قریبی دوست ایران بدل گیا تو اُس نے 'شیطان کے محور' کہنا شروع کر دیا ۔ اور جب اُس کی دشمنی سے اپنا کام پورا ہو گیا اور تو پھر ایک نیا دشمن لایا گیا ۔ ایک چکر میں ہی پوری دنیا کو گھمایا جارہا ہے ۔ نام بدل بدل کر بس ایک ہی پالیسی رکھی ہوئی ہے کہ خود کو نیکی کی قوت کہا جائے اور دشمن کو شر کی قوت ۔

پہلی بات تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ایک دشمن کی پالیسی اب تک کامیاب رہی ہے ۔ مگر کیا واقعی دشمن اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کو مار دے اور اُس کا خوف سب کے دلوں میں بٹھا دیا جائے ۔ پھر اُس کو اتنا طاقت ور کیا جائے کہ ڈرے ہوئے لوگ آپ سے مدد کی بھیک مانگیں اور پھر دنیا پر احسان ِعظیم کرنے کے لیے اُن سب پر آپ ہاتھ رکھ دیں ۔ کیوں آپ پر ایسا ہی الزام بار بار لگتا ہے ۔ کیوں ساری انگلیوں کے اشارے یہ ہی بتاتے ہیں کہ آپ خود بدی کی قوت کو پیدا کرتے ہیں اور پھر آپ ہی اپنے آپ کو نیک ثابت کرنے کی ٹھان لیتے ہیں ۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا تھا کہ داعش کو کس نے بنایا ۔ ان کے پا س ہتھیار کہاں سے آئے ۔ ان کے لیے پوری دنیا سے بھرتیوں کا ٹھیکہ کس نے دیا ۔

چند سالوں میں بننے والی داعش اپنا نیٹ ورک اتنا مضبوط کر لیتی ہے کہ وہ پیرس سے لے کر جکارتا تک حملہ کرتی ہے ۔ ان کا رابطہ اتنا زبردست ہے کہ وہ کابل سے لے کر اسلام آباد میں ایک ساتھ دھمکی دیتی ہے ۔ مجھ جیسے کم عقل کو شاید سمجھ نا آسکے مگر آپ پلیز بتا دیجیے کہ سعودی عرب ایک اتحاد کا اعلان کرتا ہے جس میں اکثر مسلم ممالک شامل ہوتے ہیں جن کو شامل نہیں کیا گیا وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنا ہوا اتحاد ہے ۔

اس اتحاد میں صرف ایک ملک انڈونیشیا منع کر دیتا ہے کہ وہ شامل نہیںہو گا ۔ کیا کچھ طاقتیں چاہتی تھیں کہ انڈونیشیا اس اتحاد میں شامل ہو مگر وہ نہیں ہوا ۔ یا پھر کچھ قوتیں ایک سازش کے ذریعہ اس الزام کا رخ تبدیل کرنا چاہتی ہیں ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ظاہر ہے اس حملے کے بعد لوگوں کا خیال یہ ہی جاتا ہے کہ اتحاد میں شامل نہ ہونے کا جواب ہے ۔

اور پھر انڈونیشیا کی حکومت اُس اتحاد سے اور زیادہ دور ہو جاتی ہے۔ کیا کوئی اس اتحاد میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو مزید ہوا دینا چاہتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ داعش نے ہی حملہ کیا ہو ۔ مگر داعش کا یہ حملہ انڈونیشیا میں کیوں ؟ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ انڈونیشیا میں دہشت گردی پہلے بھی ہوئی ہے ۔ کیا داعش نے اپنی جڑیں انڈونیشیا میں بنا لی ہیں یا پھر کسی اور گروپ نے پہلے سے موجود جڑوں میں پانی دے کر یہ کروایا ہے ۔ ایک بڑی ریاست بھی اس طرح سے منصوبہ نہیں کر سکتی کہ ایک دن وہ ترکی میں حملہ کرے اور پھر اگلے دن انڈونیشیا میں ۔

ترکی میں ہونے والا حملہ بھی بڑا ہی معنی خیز ہے ۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے اکثر لوگوں کا تعلق جرمنی سے ہے یا پھر جرمنی کو خاص طور پر ترکی میں ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔ جرمنی وہ ملک ہے جس نے سب سے زیادہ لوگوں کو پناہ دینے کا اعلان کیا تھا اور فرانس حملوں کے بعد اُس پر بہت زیادہ دباؤ تھا ۔ کیا جرمنی کی حکومت اب ان ہلاکتوں کے بعد عوام کو اعتماد میں لے سکے گی ۔ کیا اُسے ایک طرف اب اس جنگ میں تیزی کے ساتھ کودنا پڑے گا اور دوسری طرف اُسے تارکین وطن کا فیصلہ واپس لینا پڑے گا؟ داعش نے یہ سب سوچا ہے؟ یا پھر یہ سب اُس پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ایک دشمن رکھو اور اُس کے ذریعہ سارے دوستوں سے کام لو ۔

میں سمجھ نہیں پا رہا کہ ایک دن پٹھان کوٹ پر حملہ ہوتا ہے ۔ اُس کے بعد افغانستان میں انڈیا کا سفارت خانہ نشانہ بنتا ہے ۔ ماحول کو گرم کیا جاچکا ہوتا ہے ایک طرف پٹھان کوٹ اور دوسری طرف کابل ۔ پھر ایک دم پاکستان کے سفارت خانے پر حملے کی خبریں آنا شروع ہوتی ہیں ۔ ایک ہی زمین ، یعنی افغانستان میں دو ملکوں پر حملہ ہوتا ہے ۔

وہ ملک جو ایک دوسرے پر اعتماد کم کرتے ہیں۔ جو دشمنی کے بعد دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہوتے ہیں ۔ تھوڑا سا سوچیں اس دوستی سے کس کو نقصان ہونا ہے ۔ افغانستان کی بھی تاریخ عجیب ہے جب وہ پاکستان کا دوست رہا اُس وقت وہ انڈیا سے دور تھا ۔ اور جب انڈیا سے قربت بڑھی تو پاکستان پر الزامات کی بارش کر دی ۔تو پھر ایک وقت میں دونوں کیسے ہو سکتے تھے ۔ کیا اب جرمنی ، پاکستان اور انڈیا کے واقعات سے یہ نہیں لگتا کہ اب کسی اور ملک میں دوسرے ملک کے خلاف کارروائی سے ایک وقت میں کئی مقاصد حاصل ہوتے ہیں ۔

میں صرف اتنا کہہ رہا تھا کہ ایک دشمن رکھو والی پالیسی اپنی آب و تاب سے جاری ہے ۔ یہاں ہر دھماکے کی ایک کہانی ہے ۔ اور اس کہانی کے پیچھے کردار نہیں لکھاری کی سوچ ہے ۔ جس کے جملے اسکرین پر آنے والا ہر اداکار بول رہا ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ ایک دشمن رکھو کا لکھاری کون ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں