ایک بار پھر سوئے حرم

کتنی خوش بختی کی بات ہے کہ کسی مسلمان کو حرم کعبہ اور شہر نبیؐ کی زیارت کا موقع نصیب ہو


Amjad Islam Amjad January 14, 2016
[email protected]

کتنی خوش بختی کی بات ہے کہ کسی مسلمان کو حرم کعبہ اور شہر نبیؐ کی زیارت کا موقع نصیب ہو اور پھر یہ سعادت ایک سے زیادہ بار بھی حاصل ہو۔ 1989 میں پہلی بار عمرے کی اور 2007میں حج کی نعمت ملی، کل ملا کر یہ حرمین شریفین کا میرا دسواں سفر ہے جس پر میں انشاء اللہ اب روانہ ہو رہا ہوں۔ رب کریم جب مہربان ہوتا ہے تو وسیلے آپ سے آپ پیدا ہو جاتے ہیں، سو ان دس اسفار میں سے کم از کم پانچ کا تعلق وہاں منعقد ہونے والے مشاعروں سے ہے یہ پانچواں موقع ہو گا جب میری بیگم بھی میرے ساتھ ہوں گی۔

وہاں کے اصل میزبان تو ظاہر ہے کوئی اور ہی ہیں مگر دنیاوی اصطلاح کے حوالے سے اس بار ہم پاکستان ایمبیسی ریاض کے مہمان ہوں گے جنہوں نے برادرم پروفیسر جاوید اقبال کی معرفت وہاں کچھ خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا ہے جو تین دن پر محیط ہیں وہاں سے انشاء اللہ اتوار 17 جنوری کو جدہ روانگی ہو گی جہاں برادرم میاں محمود' امتیاز بھائی اور شاہد انور نے عمرے کے انتظامات مکمل کر رکھے ہیں رب کریم ان سب کو جزائے خیر دے۔

مدینہ منورہ میں اس بار ڈاکٹر خالد عباس اسدی اور ڈاکٹر طارق دونوں نہیں ہوں گے کہ اول الذکر پاکستان اور ثانی الذکر ریاد (ریاض) منتقل ہو چکے ہیں وہاں قیام برادر عزیز ڈاکٹر (اعزازی) سعید کے ہوٹل پر ہو گا جہاں وہ میری تاحیات ایڈوانس بکنگ کر چکے ہیں۔ جدے میں ڈاکٹر خورشید رضوی کے صاحب زادے عامر خورشید اور مشہور خطاط اور شاعر محمد مختار علی سمیت احباب سے ملاقات رہے گی اور مکہ معظمہ کی میزبانی کا ذمے میرے ایک نادیدہ پرستار حمید صاحب نے لے رکھا ہے۔ یہ رب کریم کی خاص عنایت نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دے کہ یہ محبت کا رشتہ ہی تخلیق حیات اور انسانیت کا اصلی جوہر ہے۔

اب جو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو کتنے ہی ایسے ہم سفروں کے چہرے نگاہوں میں ٹھہر جاتے ہیں جو اب مادی سطح پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مثال کے طور پر سب سے پہلے عمرے کے تین ہم سفر قرۃ العین حیدر' جمیل الدین عالی اور بیگم جمیل الدین عالی جب کہ ایک میزبان رسول احمد کلیمی تھے جو گزشتہ چند برسوں میں یکے بعد دیگرے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے، بعد کے ہم سفروں میں سے بھی احمد ندیم قاسمی' احمد فراز' ضمیر جعفری اور حسن رضوی اب آسودہ خاک ہو چکے ہیں۔

ان 26 برسوں میں حرمین کی عمارات اور ان کے ارد گرد کے ماحول میں بھی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور توسیع کے ضمن میں یہ دونوں شہر اب بہت پھیل چکے ہیں کہ نہ صرف عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے بلکہ حج کے موقعے پر بھی مقامی اور غیر مقامی لوگوں کو ملا کر تقریباً 35 لاکھ افراد ہر سال اس عظیم رکن ایمان اور اجتماعی عبادت سے سرفراز ہوتے ہیں۔

اتنی خلقت کے قیام و طعام' ٹرانسپورٹ اور حرمین کی گنجائش میں اضافے کے حوالے سے اس توسیعی پروگرام کا کچھ حصہ تو بلاشبہ ناگزیر تھا مگر یہ سوال ہمیشہ میرے دل و دماغ میں کھٹکتا رہتا ہے کہ کیا اس کے لیے ان سب مقامات کو مسمار کرنا ضروری تھا جن سے امت مسلمہ کی جذباتی وابستگی تھی اور کیا ایسا کسی مخصوص عقیدے کے تحت کرنا جائز ہے یا تھا، میرا مقصد ہرگز مختلف فرقوں کے باہمی اختلافات میں پڑنا نہیں کہ بقول اکبر الہ آبادی

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

میں تو صرف اس طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ انسانوں کے جذبات کو محبت' تشفی اور تکریم دینا ہمارے نبی کریمؐ کی سنت مبارکہ ہے اور کوئی بھی فرقہ ہو اسے بہرحال اللہ اور اس کے نبی کے احکامات کے دائرے سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے اور ان دونوں مقدس مقامات کی حرمت کے ضمن میں ساری ملت اسلامیہ کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اہل خانہ' دوست احباب اور ملنے جلنے والے اپنے ایمان' مسائل اور معاملات کی درستی کے لیے دعاؤں کے طلب گار ہیں جو انشاء اللہ کی بھی جائیں گی اور مجھے یقین ہے کہ اس نیت کے طفیل اب تک وہ اس دربار میں پہنچ بھی چکی ہوں گی کہ قبولیت دعا کسی خاص مقام یا الفاظ سے مشروط نہیں ہوتی فرق بس یہ ہے کہ دعا کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دعا کے ساتھ یہ عرض بھی کی جائے کہ مولا کریم میری سمجھ محدود ہے آپ میرے حق میں جو بہتر سمجھتے ہیں وہ فیصلہ فرمائیے گا۔

ممتاز مفتی صاحب سے روایت ہے کہ جب وہ پہلی بار قدرت اللہ شہاب مرحوم کے ساتھ کعبے کی زیارت اور سلام کے لیے جا رہے تھے تو شہاب صاحب نے انھیں ایک بے مثال نصیحت کی جس کا مفہوم یہ تھا کہ مفتی! وہاں ذرا دھیان سے دعا مانگنا کہ وہ قبول بھی ہو جاتی ہے۔

میں اپنا حمد و نعت کا مجموعہ ''اسباب'' کچھ احباب کے لیے بطور تحفہ بھی لے جا رہا ہوں اور یہ زیادہ بھی نہیں ہے کہ فرض عبادات کی تکمیل کے بعد ان میں سے کچھ کو دل ہی دل میں پڑھتا بھی رہوں کہ وہاں آواز یوں بھی اضافی ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں جنیدؒ' بایزیدؒ جیسے اکابر بھی لب بستہ ہی آتے ہیں۔ البتہ وطن عزیز پاکستان اور ملت اسلامیہ کے اتحاد' ترقی اور سلامتی کے لیے شاید لفظوں کو بھی درمیان میں لے آؤں کہ موجودہ اور بظاہر مستقبل قریب میں آنے والا وقت دونوں ہی وسوسوں اور خدشوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ رب کریم ہمیں اپنوں کے انتشار اور غیروں کی سازشوں سے محفوظ فرمائے کہ ایسا کڑا وقت شاید اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔