انشاء جی بہت یاد آتے ہو

کم ہی لوگ ہوںگے جن کو یہ معلوم ہو کہ ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔



سوچتی ہوں تو کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ میں نے نہ استاد سلامت علی کو دیکھا اور نہ انشاء جی کو، ہاں شعر و ادب اور موسیقی سے دلچسپی کچھ یوں رہی کہ والد بزرگوار اردو ادب کے پروفیسر جن کی شفقتوں سے شعر و ادب ذہنی تربیت کا حصہ رہے اور سن شعور کو پہنچی تو انشاء جی کی کتابوں اور کالموں میں بڑی کشش محسوس ہوئی۔ اسی لیے خوب خوب پڑھتی رہی، البتہ موسیقی سے دلچسپی میں ریڈیو پاکستان کراچی کا نام لینا ضروری ہے کہ قریب قریب تیس بتیس برس پہلے استاد سلامت علی کی آواز کا جادو ساقی جاوید کے قومی نغمے نے سر چڑھایا جس کے بول ہیں: ''چاند میری زمین، پھول میرا وطن'' اور رہی سہی کسر من ساگر کے پاتال تک پہنچنے والے مدھر گیت نے پوری کردی جس کے بول ہیں:

''انشاء جی اٹھو، اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا''

میرا خیال ہے کہ اسی گیت کی لفظی و معنوی خوبیاں بڑی منفرد خصوصیات رکھتی ہیں، جن کو استاد سلامت علی کی پرسوز و دل گداز آواز نے اتنا اثر انگیز بنادیا ہے کہ جن لوگوں نے انشاء جی کی شاعری نہ پڑھی ہو وہ بھی یہ گیت سن کر محسوس کریں کہ کسی سچے اور اچھے شاعر کا کلام سن رہے ہیں، وہ شاعر جو چاند نگر کی جمالیاتی رعنائیوں میں عام فہم انداز بیان سے ایسا نکھار پیدا کردے کہ دنیائے ادب اس کی گرویدہ ہوجائے۔ مثال کے طور پر جب انشاء جی نے اپنی شعری تخلیق کو یہ رنگ و آہنگ دیا تو جدت و ندرت کا ایک نیا روپ سروپ وجود میں آیا۔

کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
سب نے کہا یہ چاند ہے، میں نے کہا چہرہ تیرا

ذرا دیکھئے اور محسوس کیجیے، ان کے لہجے میں کیسی بے ساختگی اور کتنی شگفتگی پائی جاتی ہے، ان ہی اوصاف کی بدولت ان کی غزلیں بھی اپنی ایک الگ ہی شان اور پہچان رکھتی ہیں۔

آیئے دیکھتے ہیں، مہد تا لحد انشاء جی کا لائف اسٹائل کیا رہا اور اسی کا اثر ان کی ادب دوستی پر کیا پڑا، سوانحی کوائف کچھ یوں ہیں کہ 1927 میں ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے، 1942 میں لدھیانہ سے میٹرک اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1946 میں بے اے کیا اور اردو میں ایم اے قیام پاکستان کے بعد اردو کالج کے ہونہار طالب علم کے طور پر کراچی یونیورسٹی سے۔

پاکستان آنے سے پہلے امپریل کونسل برائے زرعی تحقیق دہل کے جریدے، انڈین فارمنگ کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہوگئے تھے، پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک رہے، 1947 میں ریڈیو پاکستان لاہور اور پھر ریڈیو کے کراچی سینٹر سے وابستگی ہوئی۔ 1950 سے 1956 تک قومی دستور ساز اسمبلی میں متراجم کے فرائض انجام دیے۔ 1957 سے 1961 تک حکومت پاکستان کے محکمہ اصلاح دیہات میں رسالہ ''پاک سرزمین'' کے نائب مدیر رہے۔

جنوری 1959 میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے قیام و عمل میں پیش پیش رہے، اعزازی خازن بھی چنے گئے۔ اور جب کراچی سے مرکزی تنظیم نے جریدہ ''ہم قلم'' جاری کیا تو اس کے شعبہ ادارت سے بھی نمایاں وابستگی رہی، 1961 میں نیشنل بک سینٹر کے ڈائریکٹر ہوئے، یونیسکو کی جانب سے بطور مشیر متعلقہ فرائض انجام دیے اور مہذب دنیا کے بیشتر ملکوں کا مطالعاتی اور مشاہداتی دورہ کیا مگر تمام تر مصروفیات کے باوجود شعر و ادب سے اپنا ناطہ جوڑے رہے، شاعری کے مجموعوں میں چاند نگر، راسی بستی کے ایک کوچے میں، قصہ اک کنوارے کا جیسی نظموں کے تراجم اور بچوں کے لیے نظموں کا مجموعہ بلو کا بستہ، جیسی دلچسپ تصانیف اور ابن بطوطہ کے تعاقب میں ان کا شگفتہ اسلوب بیاں بہت مقبول ہوا۔

قومی اخبارات کے لیے فکاہیہ کالم نگاری میں بھی انشاء جی نے خوب خون رنگ جمایا، آپ سے کیا پردہ، تعلیم خود، باتیں انشاء جی کی، اور دخل در معقولات جیسے عنوانات پر طنز و مزاح کا ایسا عام فہم اور سادہ پرکار انداز جس میں بذلہ سنجی کی خوبیاں دوسرے کالم نگاروں سے قطعی مختلف رکھتی تھیں۔

وہ وسیع المطالعہ قلمکار تھے، عالمی ادب پر گہری نظر تھی اور اسی کے شہ پاروں کو اردو میں منتقل کرنے کا ذوق و شوق بھی عروج پر پہنچا ہوا تھا، ایڈگر ایلن پو کے افسانوں نے انھیں اتنا متاثر کیا کہ ان کے تمام افسانوں کا ترجمہ کر ڈالا، جو پانچ جلدوں میں شایع ہوا جن کے نام ہیں سانی کی پھانسی، وہ بیضوی تصویر، عطر فروش دوشیزہ کے قتل کا معمہ، چہ دلاور است وزردے اور اندھا کنواں۔

امریکی افسانہ نگار روہنری کے افسانے پسند آئے تو ان کا ترجمہ لاکھوں کا شہر کے نام سے شایع کرایا، روسی ادیب چیخوف کے ایک ناول کا ترجمہ، مجبور کے نام سے منظر عام پر آیا اور جان سیٹن بک کے ناول کو شہر پناہ کا نام دے کر اردو دنیائے ادب سے روشناس کرایا۔ علاوہ ازیں وکانامے تیس مار خاں کے ترجمے کی وہ دلچسپ مثال ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

یہ تمام احوال میں نے اسی لیے رقم کیا کہ ہمارے نو واردان ادب کو یہ اندازہ ہو کہ انشاء جی نے کتنی محنت اور مستقل مزاجی سے اپنی ادبی شخصیت کو کامیاب و کامران بنایا جو ایک صاحب طرز شاعر، مزاح نگار، کالم نویس اور بذلہ سنج ادیب کے طور پر انھیں یاد رکھا جائے گا۔

کم ہی لوگ ہوںگے جن کو یہ معلوم ہو کہ ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ جب کہ قلمی نام نانا فرنویس، حاجی بابا اور ابن وغیرہ مگر جس نام سے ان کی شہرت و مقبولیت نے بے پناہ ہر دلعزیزی پائی وہ انشاء جی ہے، ہاں یاد آیا شاعری کے میدان میں قدم رکھتے ہوئی بھی کئی تخلص اپنائے اور چھوڑے مثلاً مایوسی، اصغر اور صحرائی وغیرہ۔

تحقیقی نقطہ نظر سے انشاء جی کا وہ کلام جو ابتدائی دور کی مشق سخن سے تعلق رکھتا ہو، اس کا کوئی حوالہ میرے علم میں نہیں، تذکروں اور ان کی شاعری کے بارے میں لکھے گئے مضامین بھی اسی کلام سے خال ہیں مثلاً دبستانوں کا دبستان کراچی، جو کئی کتابوں کے مصنف و محقق احمد حسین صدیقی کی تصنیف ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں ''ابن انشاء کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ اپنے عہد کے بلند مرتبہ مصنف، شاعر، مزاح نگار، مترجم اور اعلیٰ علمی، شعری اور ادبی روایت کے وارث تھے ان کی کالم نگاری کا آغاز روزنامہ ''امروز'' سے ہوا۔ 1955 میں مولانا چراغ حسن حسرت کے انتقال کے بعد کئی سال تک ابن انشاء لکھتے رہے۔ 1965 میں روزنامہ ''انجام'' کے لیے جو کالم لکھے ان کا عنوان تھا باتیں انشاء جی کی۔ اس کتاب میں مصنف نے بطور خاص جو انشاء جی کی شاعری سے دو نمونے پیش کیے، انھیں چاند نگر کے حوالے سے ایک خوبصورت غزل یہ ہے۔

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملوں تو بہتر ہے
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

دوسرا دلگداز نمونہ وہی ہے جو استاد امانت علی خان کی بھی یاد دلاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف انشاء جی کے کالم بڑے دلکش ہوتے تھے بلکہ ان کے سفرناموں اور ترجموں میں بھی زبان و بیان کی اثر آفرینی قارئین کو مطالعہ کی دعوت دیتی تھی اور تو اور بچوں کے لیے بھی جو ان کی تحریریں ہیں وہ بڑے بھی اگر پڑھیں تو بڑا لطف اٹھائیں۔

جنوری 1978 میں انشاء جی واقعی اسی دنیائے فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنے عقیدت مندوں اور من موہنی شخصیت اور شاعری سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں سدا زندہ رہے گی۔

میری اپنی حسیاتی کیفیت بھی بڑی عجیب سی ہوجاتی ہے جب ان کے یہ اشعار یاد آتے ہیں:

انشاء جی اٹھو، اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

اسی دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا

شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے پر
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کریں
دیوانوں سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں